محکمہ جنگی حیات نے ہزاروں دیسی چڑیا فروخت کی کوشش ناکام بنادی

آفتاب خان  جمعرات 18 فروری 2021
وائلڈ لائف سندھ ڈپارٹمنٹ نے ایک کامیاب کارروائی میں سات ہزار چڑیا بازیاب کرالیں (فوٹو: آفتاب خان)

وائلڈ لائف سندھ ڈپارٹمنٹ نے ایک کامیاب کارروائی میں سات ہزار چڑیا بازیاب کرالیں (فوٹو: آفتاب خان)

 کراچی: سندھ وائلڈ لائف نے ایمپریس مارکیٹ صدر بس ٹرمینل پر چھاپے کے بعد میہڑ سے کراچی لائی گئی 7 ہزار دیسی چڑیا (اسپیرو) تحویل میں لے کر آزاد کردیں۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 10 لاکھ پرندوں کو قید اور پھر صدقے کے نام پر آزاد کیا جاتا ہے۔ پکڑے جانے والے ان پرندوں میں 35  فیصد بھوک، پیاس، خوف، ڈر اور شدید دھوپ وگرمی کے دوران ایک مقام سے دوسرے مقام تک تنگ پنجروں میں منتقلی کے دوران ہلاک ہو جاتے ہیں۔

جمعرات کو محکمہ جنگلی حیات سندھ کی جانب سےتاج کمپلیکس صدر بس ٹرمینل پر خفیہ اطلاع پر کارروائی عمل میں لائی گئی جس کے دوران 7 ہزاردیسی و گھریلو چڑیا (اسپیرو) قبضے میں لے لی گئیں۔

وائلڈ لائف سندھ گیم انسپکٹر ریڈ پارٹی اعجاز نوندانی کے مطابق پکڑی جانے والی چڑیا دیہی سندھ (میہڑ) سے کراچی مسافر بس کے ذریعے لائی گئیں اور اسے ایمپریس مارکیٹ کی پرندہ مارکیٹ میں فروخت کیا جانا تھا، اس دوران ایک ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اعجاز نوندانی کے مطابق ڈسٹرکٹ دادو، میہڑ، رادھن سینا روڈ جبکہ نگر پارکر سے دیسی چڑیا جسے سندھی میں جھرکی کہتے ہیں جبکہ ایک اور نسل کی چڑیا پدی کو جالوں کے ذریعے پکڑنے کے ان گنت واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ ان میں سے مادہ چڑیا کو تو منتوں مرادوں اور صدقے کے لیے پکڑا جاتا ہے جبکہ چڑے (جھرک) کا شکار اس لیے کیا جاتا ہے کہ اسے مقامی طبیب و حکما اس کے گوشت کو براہ راست غذا یا پھر جڑی بوٹیوں کے ملاپ سے بننے والی دواں کو جنسی طاقت میں اضافے لیے استعمال کرتے ہیں۔

محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ نے گزشتہ سال کے اوائل میں ان روایتی چڑیوں کے بے دریغ شکار اور معدومیت کے خطرے کے پیش نظر برسوں سے جاری پرمٹ منسوخ کر کے ان کے شکار پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے،اس کے باوجود معصوم و بے زبان پرندوں کو قید کرنے والی مافیا کا دھندا بے لگام ہو جاتا ہے جو انھیں شہر بھر کی مختلف پرندہ مارکیٹوں میں سپلائی کرتے ہیں اور بعدازاں انفرادی طور پر مختلف افراد انھیں خرید کر شہر بھر کے چوراہوں و سگنل جبکہ بھیڑ والی جگہوں پر چھوٹے پنجروں میں فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

دیسی گھریلو نسل کی چڑیوں کو دیگر جنگلی حیات یا پرندوں کی طرح گھروں میں پالنے کا رواج نہیں ہے ان کے شکار کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ قید کے بعد گاہکوں سے من پسند پیسے بٹورنے کے  عوض فضاؤں میں رہا کر دیا جائے۔

قید کیے گئے پرندوں کے بچے بھوک کی وجہ سے مرجاتے ہیں، خوراک کا جھانسہ دے کر ٹریپ کرکے پکڑے جانے والے ان پرندوں میں 35 فیصد بھوک، پیاس، دھوپ، ڈر، گرمی کے دوران اونچے نیچے راستوں پرایک جگہ سے دوسری جگہ شدید گرمی کے دوران منتقلی کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں اور اس قید و آزادی کے چکر میں ان پرندوں کے گھونسلوں میں موجود بچے چیل کووں اور بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

مضافاتی علاقوں میں ننھی منی چڑیوں کو دھوکے سے پکڑا جاتا ہے، شہر کے مضافاتی علاقوں اور اندورن سندھ میں چڑیوں کو دھوکے سے پکڑا جاتا ہے، پابندی کے باوجود دیسی چڑیا کے شکاراور کاروبار جاری ہے۔ چڑیوں کو دام میں پھانسنے کے لیے شکاری خاص جال لگاتے ہیں جس کے اندر ان کے من پسند حشرات ، کیڑے اور دانہ موجود ہوتا ہے جسے فضاؤں میں اڑتی ہوئی چڑیا تاڑ لیتی ہے اور اس دانے کو کھانے کے لیے اترتے ہی صیاد کے دام میں پھنس جاتی ہیں۔

شکاری سڑکوں پر راہ گیر اور گاڑی سوار افراد سے بھاؤ تاؤکر کے پرندوں کو آزاد کرتے ہیں ویسے تو یہ دھندا پورے سال جاری رہتا ہے مگر رمضان میں اس میں تیزی آجاتی ہے،رمضان میں شہری پرندوں کو زیادہ آزاد کراتے ہیں، یہی نفسیات ان مافیاز کو ان پرندوں کو قید کرنے کے لیے اکساتی ہے، وائلڈ لائف سندھ کے مطابق نرم قوانین نے مافیاکے حوصلے بلند کر دیے ہیں۔

ان چڑیوں کے شکار کے لیے پہلے پرمٹ جاری کیے جاتے تھے جن میں ایک دن میں 15 سے 25 چڑیوں کو پکڑنے کی اجازت ہوتی تھی تاہم جنوری 2020ء میں ان تمام پرمٹس کو منسوخ کردیا گیا کیونکہ نرم قوانین نے اس مذموم دھندے سے جڑے  مافیاز کے حوصلے بلند کیے ہیں۔

اگر اس سنگین نوعیت کے معاملے کے حوالے سے سخت سزاؤں پر عمل شروع کر دیا جائے تو اس روایتی نسل کے ماحول دوست پرندے کی بقا ممکن ہے۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات نے گزشتہ سال بھی دو مختلف کارروائیوں میں 7600 ہزار چڑیاں تحویل میں لیں تھی۔ ایک کارروائی اندورن سندھ کی گئی جس میں گاڑیوں پر لدے پنجروں کے ذریعے فروخت کے لیے لے جائی جانے والی 7 ہزار چڑیاں قبضے میں لی گئیں، جبکہ دوسری کارروائی ایمپریس مارکیٹ صدر میں 2 دکانوں پر چھاپہ مار کارروائی کے دوران 600 چڑیاں تحویل میں لی گئیں۔ ان چڑیوں کو ملیر کے باغات میں آزاد کردیا گیاتھا۔

محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ کے مطابق مشہوردیسی چڑیا پاکستان کے علاوہ ایشیا، یورپ اور امریکا میں بھی پائی جاتی ہے جس کا تعلق پیٹرو ڈومیسٹکس گروہ سے ہے۔ تاہم ان کی اقسام قدرے مختلف ہیں،برصغیر میں چڑیا ایک عام پرندہ ہے، جسے گھریلو چڑیا بھی کہا جاتا ہے عام طورپر یہ چڑیا اورچڑے چھوٹی جسامت جبکہ ان کا رنگ گندمی اوربھورا ہوتا ہے اس کی دم چوڑی جبکہ چونچ باریک اور مضبوط ہوتی ہے اس کو گھریلو چڑیا اس لیے بھی کہتے ہیں کہ یہ اکثر و بیشتر گھروں میں بسیرا کرتی ہیں، گھریلو چڑیا عام طورپر ہجرت نہیں کرتیں بلکہ یہ انسانی آبادی کے قریب خود کو محدود رکھتی ہے۔

ان چڑیوں کے گھونسلے عمارت کی چھتوں، بالکونیوں جبکہ درختوں پر ہوتے ہیں چڑیوں کی غذائوں میں مختلف قسم کے پھولوں کے بیج یا پھر دانہ دنکا جبکہ چھوٹے موٹے کیڑے مکوڑے شامل ہیں۔

پرندوں کو پکڑنے کے بعد بے دردی سے چھوٹے سائز کے پنجروں میں ٹھونس دیا جاتا ہے، ایک ایک پنجرے میں ہزاروں کی تعداد میں چڑیوں کو بند کرنے کی وجہ سے بیشتر کی موت واقع ہوجاتی ہے اس بے دریغ شکار کی وجہ سے دیسی چڑیا اور دیگر جنگلی پرندے تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

عموماً ان چڑیوں کو پکڑنے والا مافیا پہلے اپنے مقصد کے لیے علاقے کا انتخاب کرتے ہیں جو ایک کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہوتا ہے اس کے بعد یہ شکاری کئی روز تک اس جگہ پر دانہ وغیرہ پھینکتے رہتے ہیں اور دور سے بیٹھ کر ان کی ریکی کرتے ہیں۔

اگلے مرحلے میں مٹی کی رنگت والا انتہائی باریک جال بچھا کے چلے جاتے ہیں جس کا سرا کافی فاصلے پر ان شکاریوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے پھر جھٹ پٹے کے وقت یعنی جب صبح پو پھٹ رہی ہوتی ہے اس وقت یہ جال پر دانہ دنکا چگنے میں مصروف سیکڑوں چڑیوں پر ہاتھ میں پکڑے لوہے کے تار کے ذریعے جال کو الٹ دیتے ہیں اور یوں یہ معصوم پرندے صیاد کے دام میں پھنس جاتے ہیں۔

دریں اثنا محکمہ وائلڈ لائف سندھ نے ایمپریس مارکیٹ صدر میں مسافر بس سے قبضے میں لی گئی لگ بھگ 7 ہزار دیسی چڑیوں( اسپیرو) کو کاٹھوڑ کے قریب سرسبز مقام پر آزاد کردیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔