جب پہاڑ زندگیاں نگل گئے

 راؤ محمد شاہد اقبال  اتوار 21 فروری 2021
کوہ پیمائی کے دوران پیش آنے والے کچھ خوف ناک جان لیوا حادثات

کوہ پیمائی کے دوران پیش آنے والے کچھ خوف ناک جان لیوا حادثات

دنیا کے مشہور ترین کوہ پیما جارج میلوری (George Mallory) سے ایک مرتبہ اخبار نویس نے سوال کیا کہ ’’آپ آخر ماؤنٹ ایورسٹ کی بلند ترین چوٹی پر کیوں چڑھنا چاہتے ہیں؟‘‘

جارج میلوری نے مسکراتے ہوئے متانت سے جواب دیا کہ ’’اس لیے، کیوںکہ وہ موجود ہے۔‘‘ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھنا، کسی سڑک یا باغ میں چہل قدمی کرنے جیسا تو ہرگز بھی نہیں ہے کیوںکہ پہاڑ کی چوٹیوں پر صرف فلک بوس اونچائی ہی نہیں ہوتی بلکہ برفانی تودے، سخت موسم، آکسیجن کی کمی اور مہلک بیماری جیسے جان لیوا خطرات ہر لمحہ موجود رہتے ہیں مگر اس کے باوجود انسان برسوں سے پہاڑوں پر خوشی، خوشی چڑھ رہے ہیں۔

دراصل پہاڑ کوہ پیماؤں کو اپنی جانب بلاتے ہیں اور کوہ پیما، اس قدر فطرت سے پیار کرنے والے، بہادر اور جری ہوتے ہیں کہ پہاڑوں کی سرگوشی سُن کر اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر فوراً ہی بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ اس لیے بعض عاقبت نااندیش افراد کی جانب سے یہ کہنا کہ کوہ پیما، مہم جو سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں، بالکل ایک لغو بات ہے کیوںکہ آج کل کی جدید دنیا میں شہرت حاصل کرنے کے بہت سے آسان اور باسہولت ذرائع دست یاب ہیں، جنہیں اختیار کرکے نام وری ہی نہیں خوب دولت بھی کمائی جاسکتی ہے۔

یوں سمجھ لیجیے کہ ایک کوہ پیما کے نزدیک کسی بلند ترین پہاڑ کی چوٹی کو سر کتنا بڑا معرکہ ہے۔ شاید اس کا احساس آپ کو پہاڑوں کی تصاویر دیکھ کر نہ ہوسکے۔ لہٰذا زیرنظر مضمون میں کوہ پیماؤں کو پیش آنے والے چند بڑے واقعات اور حادثات کا اجمالی سا تذکرہ پیش خدمت ہے، تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ لوگ یوں ہی نہیں کہتے کہ ’’پہاڑ پر چڑھنے کے لیے آپ کے پاس پہاڑ جیسا دل بھی ضرور ہونا چاہیے۔‘‘

کے ٹو (K2)

کے ٹو ہمارے کرۂ ارض کا دوسرا بلند ترین پہاڑ ہے۔ اس کی اونچائی 8611 میٹر ہے اور کے ٹو پہاڑ کو دنیا بھر کے کوہ پیما ’’سفاک پہاڑ‘‘ یعنی (Savage Mountain) کے نام سے بھی پکارتے ہیں، کیوںکہ کے ٹو اپنی مشکل چڑھائیوں اور بے ہنگم ڈھلوانوں کے سبب دنیا کی سب سے مشکل ترین پہاڑی چوٹی کے طور پر جانا جاتاہے۔ کے ٹو کی چوٹی سر کرنے کی کوشش کرنے والے ہر چار کوہ پیماؤں میں ایک شخص کسی نہ کسی حادثے کے سبب مرجاتا ہے۔ یعنی کے ٹو پہاڑ پر اموات کی شرح 29 فی صد ہے، جب کہ ماؤنٹ ایوریسٹ پر یہ شرح اموات 4 فی صد ہے۔

شاید یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے پہاڑ ماؤنٹ ایوریسٹ کو 2282 کوہ پیماسر کرچکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں کے ٹو پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کی ہمت اَب تک فقط 246 کوہ پیماؤں نے ہی کی ہے۔ اِن اعدادوشمار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کے ٹو پہاڑ کی چوٹی سر کرپانا دنیا بھر کے کوہ پیماؤں کے لیے کتنا مشکل اور سخت چیلینج ہے۔

کے ٹو پہاڑ کی چوٹی کو سب سے پہلے31جولائی1954 کو دو اطالوی کوہ پیماؤں لینولاسیڈییلی (Lino Lacedelli) اور اچلی کمپگنونی (Achille Compagnoni)نے کام یابی کے ساتھ سر کیا تھا، جب کہ گنیز بُک آف ورلڈ کے مطابق پاکستانی کوہ پیما فضل علی واحد ایسے مہم جو ہیں، جنہوں نے جنہیں ’’سفاک کے ٹو‘‘ کو تین مرتبہ سر کرنے کا منفرد اعزاز حاصل کیا ہے۔

حالیہ دنوں کے ٹو پہاڑ ایک بار پھر سے محمدعلی سد پارہ کی مہم کے باعث عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ محمد علی سد پارہ نے کے ٹو کی چوٹی کو سردیوں میں فتح کر نے کا فیصلہ کر کے دنیا بھر کوحیران کردیا تھا۔ حالاںکہ تمام کوہ پیما کم ازکم اس بات پر پوری طرح سے متفق ہیں کہ سردی میں کے ٹو سر کرنے کی کوشش کرنا موت سے ہاتھ ملانے کے مترادف ہے۔ لیکن محمد علی سدپارہ نے سخت سرد موسم میں کے ٹو پہاڑ پر کو ہ پیمائی کرکے ثابت کردیا کہ وہ واقعی پہاڑوں کا ایک بہادر بیٹا ہے۔ یقیناً محمد علی سدپارہ کی اس بہادری کو دنیا مدتوں یادرکھے گی۔

یاد رہے کہ کے ٹو کی تاریخ کا سب سے بدترین سانحہ یکم اگست 2008 کو پیش آیا تھا، جس میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے گیارہ کو ہ پیما کے ٹو کی چوٹی سر کرنے کے دوران ہی ایک ناگہائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ 25 کوہ پیماؤں نے 28 جولائی کو کے ٹو پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کی مہم جوئی شروع کی تھی۔ یکم اگست کو یہ کوہ پیما واپس آرہے تھے کہ کے ٹو پر’’باٹل نک‘‘ کے نام سے پہچانے جانے والے علاقے میں برف کا ایک بڑا ٹکڑا گرا اور یہ کوہ پیما اس کی زد میں آگئے۔

ہلاک ہونے والے کوہ پیماؤں میں تین نیپالی، ایک آئرش، ایک ہسپانوی، ایک فرنچ تین کوریا ئی اور دو پاکستانی شامل تھے، جب کہ کے ٹو سے واپسی پر زخمی ہونے والے دو آئرش، ایک اطالوی کوہ پیماؤں کو پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے وہاں سے نکال کر بروقت آرمی اسپتال اسکردو پہنچا دیا گیا تھا، جس سے اِن کی جان تو بچ گئی مگر ان میں سے ایک کوہ پیما کے ہاتھ اور ایک کے پاؤں میں فراسٹ بائٹ ہوگیا تھا، جب کہ ان کے تین دیگر ساتھی معمولی زخمی ہوئے تھے۔

کے ٹو پہاڑ کی چوٹی پر ہونے اس حادثے پر ہالی وڈ نے 2012 میں دی سمٹ (The Summit) کے نام سے ایک فلم بھی بنائی تھی۔ یاد رہے کہ کے ٹو پہاڑ کی مہم جوئی کے واقعات پر اس سے قبل بھی ہالی وڈ میں K2 (1991) اور  Verticle Limit(2000) جیسی شان دار فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔

ماؤنٹ ایورسٹ (Mount Everest)

ماؤنٹ ایورسٹ دنیا کا سب سے بلند پہاڑ ہے، جس کی بلندی 8848 میٹر ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ کو سب سے پہلے 11 مئی 1953 کو ایڈنڈ ڈہلیری(Edmumd Hilary) اور تینزنگ نورگے (Tenzing Norgay) نے سر کیا تھا۔ ماؤنٹ ایورسٹ کے لیے 11 مئی 1996 ایک سیاہ ترین دن تھا، جب ماؤنٹ ایورسٹ پہاڑ کو فتح کرنے کے فراق میں 8 کوہ پیما ہلاک ہوگئے تھے۔ اس مہم جوئی کا آغاز 10 مئی کی رات ہو ا تھا۔ جب 33 کوہ پیماؤں پر مشتمل ایک ٹیم نے پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ بدقسمتی سے سفر کا آغاز ہی بھیانک ثابت ہوا اور کوہ پیماؤں کو اپنے سفر کا آغاز کیے ابھی چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ موسم خراب ہوگیا اور برفانی ہوا کے جھکڑ چلنا شروع ہوگئے۔

برفانی ہوائیں اتنی تیز اور خطرناک تھی کوہ پیما اور اُن کے گائیڈ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ جب برفانی طوفان تھما تو کوہ پیماؤں کو معلوم ہوا اُن کے متعدد ساتھی ایک دوسرے کو کھو چکے ہیں تو اُن پر بے حد خوف طاری ہوگیا اور انہوں نے مزید پہاڑ کے اُوپر چڑھنے کا فیصلہ ترک کرتے ہوئے واپسی کا ارادہ کیا۔ بدقسمتی سے کچھ کوہ پیما بلندی سے گرنے سے ہلاک ہوگئے، نیز چند برفانی تودے تلے دب گئے، جب کہ کچھ راستہ کھو جانے کی وجہ سے کہیں گم ہوگئے، جن میں تین کوہ پیما کی وجہ اموات کے بارے میں آخر تک معلوم ہی نہ ہوسکا ۔ ماؤنٹ ایورسٹ کے اس حادثے میں کل 8 کوہ پیما ہلاک، جب کہ 7 ہاتھ اور پاؤں سے مکمل طور پر معذور اور 5 کوہ پیماؤں کو اپنے ہاتھوں سے محروم ہونا پڑا تھا۔

ایگر(Eiger)

ایگر پہاڑ سوئٹزرلینڈ میں واقع ہے اور یہ 3970 میٹر بلند ہے۔ ایگر پہاڑ کو سب سے پہلے 1858 میں سوئس کوہ پیماؤں کرسچن ایلمر (Christian Almer) اور پیٹر بوہرین(Peter Bohren) اور آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما چارلس بیرنگٹن (Charles Barrington) نے سر کیا تھا۔ کینیڈا میں ایگر پہاڑ کو موت کی دیوار بھی کہا جاتا ہے، کیوںکہ 1935 کے بعد سے لے کر اَب تک اس پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کی خواہش میں 64 کوہ پیما اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ خاص طور ایگر پہاڑ کا شمالی حصہ سب سے زیادہ خطرناک اور مشکل تصور کیا جاتا ہے۔

جولائی 1936 میں آندریاس ہنٹرسٹائزر(Andreas Hinterstoisser)اور ٹونی کورز(Toni Kurz)اور آسٹریا کے کوہ پیما ولی انجیرر(Willy Angerer) اور ایڈی رینر (Edi Rainer) ایگر پہاڑ کی شمالی چوٹی پر چڑھنے کی دوسری بار کوشش کررہے تھے۔ کچھ روز کے خراب موسم کے بعد ان چاروں کوہ پیماؤں نے ازسرِنو چڑھائی شروع کردی۔ لیکن انہوں نے فیصلہ کیا وہ ایک ساتھ چڑھنے کے بجائے الگ الگ راستہ سے اُوپر کی جانب چڑھیں گے۔ ہنٹر سٹاؤزور نے برفیلی چٹان کا وہ خطرناک ترین حصہ عبور کرلیا، جسے موت کی دیوار کہا جاتا ہے۔

دل چسپ با ت یہ ہے کہ اس حصے کو عبور کرنے میں بے شمار کوہ پیما اپنی جان گنوا چکے تھے۔ تاریخی لحاظ سے ہنٹر سٹاؤزر کا یہ ایک بڑا کارنامہ تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی اُس واقعے کو Hinterstoisser Travers کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب کوہ پیما ولی انجیرر برف گرنے اور پتھروں پر پھسلنے سے شدید زخمی ہوگیا تھا۔

لہٰذا اُس نے ایگر پہاڑ کے مزید اُوپر چڑھنے کی کوشش ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ مگر باقی ٹیم اچانک موسم خراب ہوجانے کے باعث بُری طرح سے پھنس گئی اور ایک برفانی تودے کے پگھلنے نے ان تینوں کو برف کے طوفان میں بہادیا، جس سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ خوش قسمتی سے ولی انجیرر رسی سے لٹکے ہونے باعث بچ گیا۔ لیکن وہ بھی اس طرح سے پہاڑ پر رسی کے ساتھ لٹکا ہوا تھا کہ بغیر کسی امداد کے نیچے واپس نہیں آسکتا تھا۔

سوئس ریسکیو ٹیم نے ولی انجیرر کو بچانے کے لیے ایک خطرناک آپریشن شروع کردیا۔ موسم خراب اور برفانی طوفان کی وجہ سے ریسکیو ٹیم ولی انجیرر تک پہنچ نہیں پارہی تھی، جب کہ خود ولی انجیرر، اس قدر شدید زخمی تھا کہ ریسکیو ٹیم کی پھینکی ہوئی رسی جو اس سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر تھی، اپنے ہاتھوں میں تھام نہیں پارہا تھا۔

بالآخر کئی گھنٹوں کی بھرپور کوشش اور جدوجہد کے بعد ریسکیو ٹیم کے ارکان ایک دوسرے کے کندھوں پر چڑھ کر ولی انجیرر، کو رسی تھمانے میں کام یاب ہوہی گئے۔ رسی کی مدد سے اُسے آہستہ آہستہ پہاڑ سے نیچے اُتارنا شرو ع کردیا گیا، مگر شومئی قسمت کہ زمین ولی انجیرر، سے فقط چند میٹر کی دوری پر ہی رہ گئی تھی کہ وہ بے ہوش ہوگیا اور رسی اُس کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی۔ یوں ولی انجیرر بھی بلندی سے گر کر فوت ہوگیا۔

ماؤنٹ ہوڈ (Mount Hood)

ماؤنٹ ہوڈ پہاڑ امریکی پہاڑی سلسلے اوریگون کا سب سے اونچا مقام ہے۔ اس پہاڑ کی اونچائی 3426 میڑ ہے۔ ماؤنٹ ہوڈ کو پہلی بار 11 جولائی 1857 کو ہنری پٹاک(Henry Pittock) ، ڈبیلو ایل چیٹنڈین(WL. Chittenden)، ولبر کورنیل(Wilbur Cornell) اور ریو ٹی اے وڈ (Rev T.A Wood)نے مل کر سر کیا تھا۔ یہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی اہم ترین پہاڑی چوٹی ہے، جہاں سارا سال ہی کوہ پیمائی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن 12 مئی 1986 کا دن ماؤنٹ ہوڈ کے لیے انتہائی بدقسمت واقع ہوا، جب  19 افراد پر مشتمل ایک مہم جو ٹیم مطالعاتی دورے پر ماؤنٹ ہوڈ پہاڑ سر کرنے کے لیے روانہ ہوئی۔ یاد رہے کہ یہ ایک مطالعاتی کوہ پیمائی کا پروگرام تھا جس میں اوریگون ایپیسوپل اسکول کے طلباء اور اساتذہ بھی شامل تھے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ اس مطالعاتی کو پیمائی ٹیم کے 6 ارکان موسم کی سختی، پہاڑ کی اونچائی، کچھ بیمار ی اور کچھ تھکن سے گھبرا کر 3000 میٹر کی بلندی سے واپس یہ کہہ کر لوٹ آئے کہ ’’ہم میں مزید ہمت نہیں ہے کہ پہاڑ کے مزید اوپر تک جاسکیں۔‘‘ جب کہ باقی کوہ پیما 3000 میٹر سے زائد اونچائی پر جاپہنچے۔ تقریباً ساڑھے تین بجے خراب موسم کے باعث انہوں نے مزید بلندی پر چڑھنے کے بجائے وہیں کیمپ لگاکر تھوڑی دیر قیام کرنے کا فیصلہ کیا کہ اچانک موسم خراب ہوگیا اور شدید برفانی طوفان سے اُن کا کیمپ تباہ ہوگیا اور وہ سب افراد بُری طرح سے پھنس گئے۔

اگلے روز ٹیم کے 2 ارکان نے مدد طلب کرنے کے لیے پہاڑ سے نیچے اُترگئے اور 24 گھنٹے بعد اُن کی رسائی ریسکیو ٹیم تک ہو ہی گئی۔ ریسکیوٹیم نے پہاڑ کی چوٹی پر پھنس جانے والے کی تلاش کا کام فوری طور پر شروع کردیا۔ 14 مئی کو ریسکیو ٹیم نے 3 کوہ پیماؤں کو منجمد حالت میں ڈھونڈ لیا۔

نیز 15 مئی کو کوہ پیما ٹیم کے دیگر 8 ارکان ایک برف کے غار میں پائے گئے تھے۔ بدقسمتی سے 8 میں سے صرف 2 کوہ پیما بڑی مشکل سے جان بر ہوسکے، لیکن زندہ بچ جانے والے چار افراد میں تین کوہ پیما جان لیوا مرض، ہائیپوتھرمیا کا شکار ہوگئے، جس کی وجہ سے اُن کی ٹانگیں کاٹنا پڑی تھیں۔ اس سانحے میں پورٹ لینڈ کے اوریگون ایپیسوپل اسکول کے سات نوعمر طالب علم اور اُن کے دو اساتذہ بھی منجمد ہوکر ہلاک ہوگئے تھے۔

دھولگیری (Dhaulagiri)

دھولگیری پہاڑ ہماری زمین کی ساتویں بلند ٹرین چوٹی ہے اور اس کی اونچائی 8167 میٹر ہے۔ اسے سب سے پہلے 13 مئی 1960 کو سوئس/ آسٹریا کی ایک مہم جو ٹیم نے معروف کوہ پیما میکس آئسیلین (Max Eiselin) کی سربراہی میں سر کیا تھا۔ 28 اپریل 1969 کو چھے امریکیوں نے دو مددگار مقامی افراد کے ساتھ دھولگیری پہاڑ کی چوٹی پر امریکا کا پرچم لہرانے کے لیے اپنے مہم جویانہ سفر کا آغاز کیا۔

ابتدائی سفر کافی خوش گوار رہا اور کوہ پیماؤں نے ٹیم نے 5200 میٹر کی بلندی پر کام یابی کے ساتھ پہنچ کر سستانے کے لیے کیمپ لگانے کا فیصلہ کیا۔ ابھی یہ سب افراد کیمپ لگانے کے لیے کوئی مناسب جگہ ڈھونڈ ہی رہے تھے کہ ایک پہاڑ کی چوٹی سے ایک برفانی تودا اُن پر آگرا، جس کے باعث سات افراد ہلاک ہوگئے، لیکن معجزانہ طور ایک کوہ پیما جس کا تعلق مقامی آبادی سے تھا اور جو امریکی مہم جو ٹیم کی معاونت کے لیے ساتھ آیا تھا، زندہ بچنے میں کام یاب ہوگیا۔

بچ جانے والے شخص کی اطلاع کے بعد دھولگیری پہاڑ پر برفانی تودے تلے دب جانے والے افراد کی لاشیں تلاش کرنے کے لیے کئی روز تک ریسکیو آپریشن کیا گیا، مگر بدقسمتی سے اس حادثے کے متاثرہ افراد میں سے کسی کی بھی لاش بازیاب نہیں ہوسکی۔

ماؤنٹ ٹیمپل (Mount Temple)

ماؤنٹ ٹیمپل کینیڈا کا اونچا ترین پہاڑ ہے، جس کی اونچائی 3400 میٹر ہے۔ اس پہاڑ کو 1894 میں والٹرول کوکس(Walter Wilcox) ، سموئیل ایلن(Samuel Allen) اور ایل ایف فریسیل (L.F Frinssel) نے مشترکہ طور پر سب سے پہلے سر کرنے کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ بظاہر کینیڈا میں کوہ پیمائی کرنے کا زیادہ رجحان نہیں پایا جاتا، لیکن پھر بھی کبھی کبھار ماؤنٹ ٹیمپل کی چوٹی سر کرنے کے لیے کوہ پیماؤں کی کوئی ٹیم کمربستہ ہوہی جاتی ہے۔

دراصل 11 جولائی 1955 کو اس پہاڑی پر ایک انتہائی افسوس ناک حادثہ پیش آیا تھا، جس کے بعد ماؤنٹ ٹیمپل پر مقامی افراد کی جانب سے مہم جوئی کا سلسلہ کم ہوگیا ہے۔ اس اندوہ ناک واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ 11 نجی کوہ پیماؤں کا ایک گروہ، جس میں زیادہ تر نوجوان شامل تھے، ماؤنٹ ٹیمپل کے جنوب مغربی حصے سے چوٹی تک رسائی کے لیے نکل پڑا۔ حیران کُن بات یہ تھی کہ اِن کے پاس کوہ پیمائی کے لیے خصوصی لباس اور دیگر سازوسامان بھی موجود نہیں تھا۔ حد تو یہ ہے کہ گیارہ افراد کے گروپ کے پاس برف کھودنے کے لیے صرف ایک کلہاڑی تھی، جب کہ کچھ نے بیس بال کے ہیلمٹس اپنے سروں پر چڑھائے ہوئے تھے۔ کوہ پیمائی کے لیے یہ انتہائی غیرتسلی بخش تیاری تھی۔

شام چار بجے تک یہ گروپ 2750 میٹر کی بلندی تک پہنچ کر خوشی کے مارے دیوانہ وار بلند آواز میں نعرے لگانے لگا۔ گروپ میں شامل کچھ نوجوانوں کا خیال تھا کہ بس اَب واپس چلنا چاہیے، کیوں کہ پہاڑ کی اتنی اونچائی پر چڑھ جانا بھی ایڈونچر کے لیے بہت ہوتا ہے، مگر چند نوجوان بضد رہے کہ کچھ بھی ہوجائے ہمیں کچھ اونچائی پر مزید جاناچاہیے۔ گرمی کے دن تھے، پہاڑ پر موسم قدرے خوش گوار تھا۔ نوجوانوں نے آگ جلا کر گپ شپ کرنا شروع کردی۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ انہیں پہاڑ کی چوٹی پر سے برف کا گرد غبار اپنی جانب آتا دکھائی دیا۔

انہوں نے اس سے بچنے کے لیے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی مگر شومئی قسمت برف کا تودہ بہت بڑا تھا اور وہ اُن پر آگرا۔ یوں سب نوجوان برف میں بُری طرح سے دب گئے، جس نوجوان کے پاس کلہاڑی تھی، اُس نے برف کی کاٹنے کی بہت کوشش کی لیکن یہاں ایک کلہاڑی سے ڈھیر ساری برف کو کھودنا ممکن نہ تھا۔ چوںکہ یہ باقاعدہ کوہ پیما نہیں تھے کہ جن کا اندراج کوہ پیمائی پر نظر رکھنے والے ادارے کے پاس ہوتا، لہٰذا ان کی مدد کے لیے کسی ریسکیو ٹیم کا پہنچ پانا بھی ممکن نہ تھا۔

نوجوانوں کا یہ گروہ دس روز تک برف کے تودے میں دبا رہا اور ان میں سے سات نوجوان ہلاک ہوگئے، جب کہ باقی نوجوان برف کا تودہ پگھل جانے سے بہنے والی برف کے ساتھ بہہ کر پہاڑ سے نیچے آگئے تھے، جن کی زندگیوں کو بچا تو لیا گیا، لیکن اونچائی سے بہنے کی وجہ سے اُن کی ہاتھ، پاؤں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں تھیں اور یہ سب تقریباً مستقل جسمانی معذور ہوگئے۔ اسے کینیڈا کی تاریخ کا بدترین حادثہ شمار کیا جاتا ہے۔

ماؤنٹ بلانک (Mount Blanc)

ماؤنٹ بلانک اٹلی اور فرانس کے سنگم پر واقع مغربی یورپ کا سب سے اونچا پہاڑ ہے، جو 4810 میٹر بلند ہے۔ اس پہاڑ کو سر کرنے کا اولین دستاویزی ثبوت 8 اگست 1786 کا دست یاب ہے، جب دو کوہ پیما جیک بلمات اور مشیل پیکارڈ ماؤنٹ بلانک کی چوٹی پر پہنچے تھے۔ یہ پہاڑ بظاہر کوہ پیمائی کے لیے محفوظ ترین خیال کیا جاتا ہے، کیوںکہ یہ دیگر خطرناک پہاڑوں کے مقابلے میں کافی ہم وار اور متناسب ہے، جس کی وجہ سے اکثر عام سیاح بھی یہاں اپنی کوہ پیمائی کا شوق پورا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ محفوظ پہاڑ بھی آخر تو ہوتا پہاڑ ہی ہے نا! اس لیے پہاڑ کیسا بھی کیوں نہ ہو، کوہ پیمائی میں بہرحال جان لیوا خطرات ہر لمحہ موجود رہتے ہی ہیں۔

24 اگست 2008 کو صبح تین بجے،47 کوہ پیماؤں پر مشتمل ایک گروہ ماؤنٹ بلانک پہاڑ کے شمال مغربی حصے پر کوہ پیمائی کے لیے روانہ ہوا۔ یہ لوگ ابھی 3600 میٹر کی اونچائی پر ہی پہنچے تھے کہ ان پر 200 فٹ چوڑا ایک بڑا برفانی تودا آگرا، جس نے 15 کوہ پیماؤں کو اپنے نیچے دبالیا، جب کہ سات کوہ پیمااس کی ہول ناک زد سے بچ نکلنے میں کام یاب رہے۔ علاوہ ازیں آٹھ کوہ پیما برف میں بہتے ہوئے ایک ہزارمیٹر تک نیچے آگئے۔ اس حادثے میں چار جرمن، تین سوئس اور آسٹریا کا ایک کوہ پیما ہلاک ہوگیا تھا اور سات شدید زخمی ہوگئے تھے۔ یاد رہے کہ زیادہ زخمیوں کی ہاتھ، پاؤں کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں جب کہ کچھ کے پاؤں میں موچ اور چہرے پر خراشیں آئی تھیں۔

کوہ ماناسلو(Mount Manaslu)

کوہ ماناسلو دنیا کا آٹھواں بلند ترین پہاڑ ہے۔ یہ پہاڑ نیپال میں واقع ہے اور اس کی اونچائی 8156 میڑ ہے۔ اس کا دوسرا نام ’’روح کا پہاڑ ‘‘ بھی ہے۔ مانوسلو پہاڑ کی چوٹی سب سے پہلے جاپان کے ایک کوہ پیما توشیبو ایمانیشی (Toshio Imanishi)  اور گیلزن نوربو (Gyalzen Norbu) نے 9 مئی 1956 کو سر کی تھی۔ ماناسلو کے پہاڑ پر اَب تک کئی بڑے حادثات پیش آچکے ہیں، لیکن سب بدترین حادثہ 10 اپریل 1972 کو جنوبی کوریا کی ایک کوہ پیماٹیم کے ساتھ پیش آیا تھا۔

جب یہ ٹیم 6500 فٹ کے بلند مقام پر پہنچی تو ایک برفانی تودا ان کے کیمپ پر آگرا، جس کے نیچے پوری کوہ پیما ٹیم دب گئی۔ یہ نیپال کے کسی بھی پہاڑی سلسلے میں پیش آنے والا سب سے خوف ناک اور بدترین حادثہ تھا، جس میں 15 کوہ پیما اور اُن کے ساتھ مہم جوئی کرنے والے 10 دیگر مددگار افراد ہلاک ہوگئے، جن میں جنوبی کوریا کی کوہ پیما ٹیم کے راہ نما ’’کِم ہو سوپ‘‘(Kim Ho-Sup) اور جاپان کے معروف کوہ پیما زونری یا سوسیہ (Kazunari Yasuhisa) بھی شامل تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔