پی ایس ایل کا پودا تناور درخت بن گیا

پروفیسر اعجاز فاروقی  ہفتہ 20 فروری 2021
آج اگر بڑی بڑی ٹیمیں یہاں آ رہی ہیں تو انھیں حوصلہ پی ایس ایل کے میچز میں غیرملکی اسٹارز کو کھیلتے دیکھ کر ہی ملا۔ فوٹو: فائل

آج اگر بڑی بڑی ٹیمیں یہاں آ رہی ہیں تو انھیں حوصلہ پی ایس ایل کے میچز میں غیرملکی اسٹارز کو کھیلتے دیکھ کر ہی ملا۔ فوٹو: فائل

پی ایس ایل کا پودا اب ایک تناور درخت بن گیاہے، اس سے پاکستان کا مثبت امیج دنیا میں اْجاگرکرنے میں بھی مدد مل رہی ہے، مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب پی سی بی گورننگ بورڈ کے اجلاس میں ہمارے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ایک ٹی ٹوئنٹی لیگ کا انعقاد کرنا چاہیے۔

ان دنوں سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے غیرملکی ٹیمیں پاکستان نہیں آ رہی تھیں، مجھ سمیت گورننگ بورڈ کے ارکان کو خدشات تو تھے مگر پھرسب نے متفقہ طور پر پی ایس ایل کرانے کی منظوری دے دی، گوکہ آغاز یو اے ای سے ہوا مگر آہستہ آہستہ ملک میں بھی میچز ہونے لگے اور اب یہ مسلسل دوسرا سال ہے جب مکمل انعقاد پاکستانی سرزمین پر ہی ہو گا۔

اگر آپ کرکٹ کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو اس لیگ سے ہمیں بہت فائدہ ہوا ہے، بھارت ہمارے کھلاڑیوں کو آئی پی ایل نہیں کھیلنے دیتا،اس سے انھیں خاصا نقصان ہوتا ہے مگر پھر ہم نے خود عالمی معیار کی اپنی لیگ کرا دی۔

اب دنیا بھر سے معروف کرکٹرز اس میں حصہ لیتے ہیں اور کھلاڑیوں کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے، مالی طور پر بھی انھیں آسودگی حاصل ہوئی ہے، ملک کو نیا ٹیلنٹ بھی ملا، اس کی شاہین شاہ آفریدی سمیت کئی مثالیں موجود ہیں، ٹیلی ویڑن پر عالمی کوالٹی کی نشریات دیکھ کر شائقین کو بھی نئے ٹیلنٹ کا علم ہوا اور پلیئرز کم وقت میں اسٹارز بن گئے، پی سی بی کو بھی اس لیگ سے مالی طور پر بھی مدد ملی، گوکہ فرنچائزز نقصانات کی شکایت کرتی ہیں مگر سنا ہے بورڈ کوئی نیا فنانشل ماڈل لا رہا ہے جس سے ان کے معاملات بہتر ہو سکیں گے۔

دیکھتے ہی دیکھتے پی ایس ایل کو 5 برس بیت گئے، گذشتہ برس کراچی کنگزنے فائنل جیت کر ٹائٹل اپنے نام کیا،اپنے شہر کی ٹیم کو فاتح بنتے دیکھنا خوشگوار تجربہ تھا،دیکھتے ہیں اس سال ٹرافی کون اپنے ساتھ لے جاتا ہے،بظاہر تو تمام ٹیمیں ہی ٹکر کی لگ رہی ہیں، پاکستانی ٹیم نے حال ہی میں جنوبی افریقہ جیسے مضبوط حریف کو ہوم گراؤنڈز پر ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی دونوں سیریز میں ہرایا ہے اس لیے ملک میں کرکٹ کا جنون بھی عروج پر پہنچ چکا، اب شائقین ملکی اور غیرملکی اسٹارز کو اپنی سرزمین پر ایکشن میں دیکھنے کیلیے بے چین ہیں۔

عالمی وبا کی وجہ سے پانچویں ایڈیشن میں اختتامی مراحل کے میچز متاثر ہوئے تھے، کئی ماہ تعطل کے بعد خالی میدانوں پر پلے آف کا انعقاد ہوا تھا، خوش آئند بات یہ ہے کہ اس سال حکومت نے پی سی بی کو 20 فیصد شائقین کو اسٹیڈیم بلانے کی اجازت دے دی ہے،مجھے پتا چلا کہ آن لائن فروخت شروع ہوتے ہی ابتدائی میچز کی ٹکٹیں چند گھنٹوں میں ہی فروخت ہو گئیں،اس سے شائقین کے جوش وخروش کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ابھی آگے بہت میچز ہونا ہیں امید ہے کہ ابھی جنھیں ٹکٹ نہیں ملے وہ بعد کے میچز دیکھ سکیں گے۔

کورونا کی صورتحال میں بہتری کی صورت میں شائقین کی تعداد بڑھانے کی اجازت بھی مل سکتی ہے، اس بار حالات کچھ ایسے ہیں کہ صرف دو شہروں کراچی اور لاہور میں ہی میچز ہو سکیں گے، گذشتہ برس ملتان اور راولپنڈی نے بھی میزبانی کی تھی، اچھی بات یہ ہے کہ عالمی وبا کے دنوں میں بھی ہمارے ملک میں کرکٹ جاری رہی، اسٹیڈیم نہیں تو گھر پر ٹی وی پر میچز دیکھنے کو تو مل ہی رہے ہیں، وہ دن بھی دور نہیں جب پہلے کی طرح پھر تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرے اسٹیڈیمز میں مقابلوں کا انعقاد ہو رہا ہوگا۔

ویسے تو پی ایس ایل 6 کے لیے کئی بڑے کرکٹرز پاکستان آ چکے لیکن ان میں سے کرس گیل، راشد خان، ڈیل اسٹین اور فاف ڈوپلیسی شائقین کی زیادہ توجہ کا مرکز ہوں گے، خصوصاً گیل اپنی جارح مزاج بیٹنگ کی وجہ سے بہت زیادہ مقبول ہیں، پاکستانی شائقین کو بھی ان کے چھکوں کا انتظار ہو گا، بابر اعظم، محمد رضوان، سرفراز احمد،شاہین شاہ آفریدی اور محمد حفیظ جیسے ملکی اسٹارزپر بھی سب کی نظریں مرکوز ہوں گی، میچز کا آغاز کراچی سے ہو رہا ہے۔

جہاں ایونٹ کے انعقاد کی خوشی ہے وہیں ٹریفک کے مسائل پریشان کن بھی ہیں، ایسی حکمت عملی تیار کرنا چاہیے جس سے عوام کو مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے، کھلاڑیوں کی سیکیورٹی پر کوئی خطرہ مول نہ لیں لیکن ٹریفک کا مناسب پلان بنانا بھی ضروری ہے،ملک میں کرکٹ کی واپسی میں سیکیورٹی ایجنسیز کی قربانیوں کا بہت بڑا کردار ہے۔

آج اگر بڑی بڑی ٹیمیں یہاں آ رہی ہیں تو انھیں حوصلہ پی ایس ایل کے میچز میں غیرملکی اسٹارز کو کھیلتے دیکھ کر ہی ملا، حکومت اور پی سی بی مسلسل دوسرے برس مکمل ایونٹ کے پاکستان میں انعقاد پر مبارکباد کی مستحق ہیں، امید ہے اس بار بھی شائقین کو بہترین کرکٹ دیکھنے کا موقع ملے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔