دشا روی۔۔۔ مودی سرکار کا نیا شکار

ثناء غوری  اتوار 21 فروری 2021

بھارت کی ہندو انتہاپسند حکومت بالکل ویسی ہے جیسی اس طرز اور فکر کی حکومتیں ہوتی ہیں، یعنی اپنی سوچ اور نظریے کو مسلط کرنے کی دھن میں مگن، ہر مخالفانہ آواز دبانے کے لیے کوشاں، اپنے امیج کی خاطر جھوٹ، فریب، تشدد سمیت ہر حربہ استعمال کرنے کو تیار۔

مگر مودی سرکار کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے مظالم، جھوٹ اور مکاریوں پر پردہ ڈالنے کی لاکھ کوشش کرے اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ پاکستان پر ’’اسٹر ٹیجک اٹیک‘‘ کا جھوٹا دعویٰ ہو، چینی فوج سے معرکے کے حوالے سے کیا جانے والا پروپیگنڈا ہو یا سکھ کسانوں کی تحریک کے بارے میں دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش۔۔۔۔مودی سرکار ہر بار ناکامی سے دوچار ہوئی ہے بلکہ اسے اپنی تمام تر بے شرمی کے باوجود شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اس سب کے باعث بہتر ہوتا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، ان کی جماعت بی جے پی اور حکومت میں شامل افراد اپنے رویوں اور حکمت عملیوں پر غور کرتے اور ان میں تبدیلی لاتے، مگر ہٹ دھرمی اور بوکھلاہٹ کا کیا کریں کہ وہ ہر ایک کے بعد دوسرا ایسا اقدام کرتے ہیں کہ دنیا میں ان کی رسوائی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس رسوائی کو بڑھانے میں تازہ ترین کردار دِشا روی کی گرفتاری نے ادا کیا ہے۔

بھارتی ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور سے تعلق رکھنے والی بائیس سالہ دشا روی کلائمیٹ ایکٹیوسٹ ہے۔ اس کی سرگرمیوں کا محور ماحولیات کا موضوع ہے اور ماحول میں بہتری لانے کی اپنی لگن کے باعث وہ اس کم عمری ہی میں نام بنا چکی ہے۔ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف سرگرم تنظیم ’’Fridays for Future ‘‘ کے بانیوں میں شامل ہے، جو بین الاقوامی تنظیم اور عالمی تحریک کا روپ دھار چکی ہے۔

اس تنظیم سے وابستہ طلبا ہر جمعے کو اپنی کلاسیں چھوڑ کر حکمرانوں اور سیاست دانوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور اس ضمن میں اقدامات کرنے پر رضامند کرنے کی خاطر مظاہرے کرتے ہیں۔ اس تنظیم کے تعلق سے وہ عالمی شہرت یافتہ کلائمیٹ ایکٹیوسٹ گریٹا تھنبرگ کی رفیق اور دوست ہے، اور یہی دشا کا جرم قرار پایا۔

گریٹاتھنبرگ کچھ اور عالمی شخصیات، جیسے امریکی گلوکارہ ریحانہ، کے ساتھ بھارت کی دشمن نمبر ایک اس لیے قرار پائی کہ اس نے اپنے حقوق اور بعض زرعی قوانین کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے بھارتی پنجاب کے کسانوں کے حق میں آواز بلند کی تھی، جس کے بعد اس بچی کے خلاف بھارت میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا، اس کے خلاف مظاہرے ہوئے، اس کی تصویریں جلائی گئیں اور بھارتی وزارت خارجہ نے بھی گریٹا کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ دشا روی محض اس لیے گرفتاری کی حق دار قرار پائی کہ اس کا گریٹاتھنبرگ سے ’’بڑا یارانہ لگتا ہے۔‘‘

بھارت میں حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز اب بغاوت سے کم قرار نہیں پاتی، اس لیے دشا کو بھی باغی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف بغاوت کا پرچہ کاٹا گیا ہے۔ بھارتی پولیس کا کہنا ہے کہ دشا روی نے احتجاج کرنے والے کسانوں کے حق میں مواد لکھا اور اسے آن لائن شیئر کیا۔ اس الزام کے تحت دشا کو اس کے شہر بنگلور سے گرفتار کیا گیا اور دارالحکومت دہلی پہنچادیا گیا ہے۔ دشا نے سڑکوں پر نکلنے والے کسانوں کے حق میں پوسٹ کیں، مزید ظلم یہ ہوا کہ اس پوسٹ پر گریٹاتھنبرگ نے بھی کمنٹ کردیا، جسے بعد میں اس نے ڈیلیٹ کردیا (شاید یہ سوچ کر کہ اس کمنٹ کی وجہ سے دشا مشکل میں نہ پڑے)۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ دشا کا آن لائن دیا جانے والا مواد بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر سکھ کسانوں کی طرف سے یوم جمہوریہ کی تقریبات درہم برہم کردینے کے واقعے کے سلسلے میں اشتعال انگیزی کا سبب بنا۔ سوال یہ ہے کہ جو کسان تقریباً دو ماہ سے سڑکوں پر بیٹھے احتجاج کر رہے ہوں اور ان کی شنوائی نہ ہو رہی ہو، بلکہ حکومت کی طرف سے ان پر غداری کے الزامات لگائے جارہے ہوں، انھیں اشتعال دلانے کے لیے کسی آن لائن تحریر یا کسی کے اُکسانے کی کیا ضرورت ہے؟

پولیس نے دشا کے تخلیق کردہ آن لائن مواد کو ’’ٹول کِٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس پر مقدمہ قائم کیا ہے۔ ٹول کٹ آن لائن لائی جانے والی ایسی دستاویز کو کہتے ہیں جو کسی تنظیم سے وابستہ فرد کی طرف سے جاری کی جائے، جس کا مفہوم سمجھتے ہوئے تنظیم سے وابستہ دیگر افراد اس میں بیان کردہ مقصد کے لیے سرگرم ہوجائیں۔ یوں سمجھیں کہ یہ ایک خفیہ پیغام ہوتا ہے۔ بھارتی پولیس کا دعویٰ ہے کہ دشا کا آن لائن مواد دراصل ٹول کِٹ تھا، جو اس نے گریٹا تھنبرگ کی مدد سے تخلیق اور جاری کیا۔ پولیس کے مطابق اس ٹول کِٹ میں نہ صرف سکھ کسانوں کے حق میں سوشل میڈیا مہم چلانے کی تفصیلات تھیں بلکہ دہلی میں ہونے والے کسانوں کے مذکورہ احتجاج کی حکمت عملی بھی اس میں پوشیدہ تھی۔

خبررساں ادارے ’’رائٹرز‘‘ کے مطابق دشا کے اس ڈاکومنٹ میں صرف اتنا بتایا گیا تھا کہ کس طرح ایک منظم احتجاج کیا جائے، اور خاص طور پر احتجاج کے حوالے سے کس طرح عالمی سطح پر آگاہی پیدا کی جائے۔ جب ایک جمہوری ملک کے آئین اور قوانین کے تحت پُرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے، تو اس احتجاج کو منظم کرنے اور دنیا کو اس سے روشناس کرانے کے لیے مشورے اور تجاویز دینا جرم کیسے ہوگیا؟ لیکن انتقام پر تُلی مودی حکومت یہ نکتہ کیسے سمجھ سکتی ہے، جس کا نہ جمہوریت سے کوئی تعلق ہے نہ منطق سے۔

بائیس سالہ دشا روی کی گرفتاری کا معاملہ پوری دنیا کے میڈیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس گرفتاری کی خبر دنیا کو بھارتی حکومت کا اصل چہرہ دکھا رہی ہے۔ دہلی کی ہندو انتہاپسند حکومت عدم برداشت کی ہر حد پار کرچکی ہے۔ جو کچھ دشا کے ساتھ پیش آیا، جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑا، یہ سب مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے نظریات کے مخالفین کے ساتھ ہر روز ہورہا ہے، لیکن ان کے بارے میں کوئی نہیں جان پاتا، کیونکہ وہ دشاروی کی طرح کسی عالمی تنظیم سے وابستہ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔