نئے سال میں جینا کیسے ہے؟

قاسم علی شاہ  پير 6 جنوری 2014
بڑے خواب سجائیں، کیوں کہ جو چیز آپ کے تصور میں نہیں وہ حقیقت کا روپ دھار نہیں سکتی۔ فوٹو: فائل

بڑے خواب سجائیں، کیوں کہ جو چیز آپ کے تصور میں نہیں وہ حقیقت کا روپ دھار نہیں سکتی۔ فوٹو: فائل

آپ کو مبارک ہو آپ کی زندگی کا مزید ایک سال کم ہوگیا۔ آپ نے 365 دن گزارے، 50 سے زائد ہفتے، 12 مہینے یعنی ایک سال… پورا ایک سال…آج مڑ کر دیکھیں آپ کو یہ سال ایک صدی کی طرح معلوم ہوگا، لیکن گزرتے وقت کا کیا ماتم۔ مٹھی ریت سے بھری تھی اور اب خالی ہاتھ ہے۔

ساری دنیا میں ہر سال 31 دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی رات کو جشن ہوتا ہے۔ کیک کاٹے جاتے ہیں، نئے سال کی آمد کے کارڈ دیئے جاتے ہیں۔ ساری دنیا میں رنگ اور رونق بڑھ جاتی ہے اور جشن کی طرف ایسے متوجہ ہوتے ہیں کہ یہ حقیقت کے زندگی کا مزید ایک سال کم ہوگیا، نظر انداز ہوجاتی ہے۔ ہم عجیب لوگ ہیں، ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں، چلنا، دوڑنا، بولنا، لکھنا، علم و تعلیم اور بہت کچھ لیکن ہمیں کوئی نہیں سکھاتا کہ ’’جینا کیسے ہے؟‘‘ ہم جس سے راستہ پوچھ رہے ہوتے ہیں، وہ اکثر خود اندھا ہوتا ہے۔ ہم کتنے سال گزار چکے ہیں کتنی زندگی گزر گئی ہے لیکن ہمیں آج بھی نئے سال کا آغاز کرنا نہیں آتا۔ سو ہر سال تقریباً ایک جیسا ہی تھا۔ حالات اور قسمت کے رحم و کرم پر چلنے والا بدقسمت ہی کہلاتا ہے۔ گلے شکوے کرتے کرتے کئی سال گزرگئے، اندازہ لگائیں اتنے عرصے سے اتنے زیادہ گلے اور شکوے ہم کرچکے ہیں کہ آج گلے اور شکوے کرنے آسان ہیں اور شکر ادا کرنا مشکل ہوگیا۔ آئیں ہم آپ کو وہ کام بتادیں جو دنیا کے انتہائی پُر اثر اور کامیاب لوگ نئے سال کی آمد پر کرتے آئے ہیں۔ آپ بھی یہ چند قدم اٹھائیں آپ کی زندگی اور زندگی کے سفر کا رخ بدل جائے گا۔

(1 ہم بہت سی غلطیاں کرتے ہیں، ان غلطیوں سے نقصان ہوتا ہے لیکن یہ نقصان دراصل قیمت ہوتا ہے، اس سبق کی قیمت جو ہم نے غلطی کرکے سیکھا ہوتا ہے۔ 2013ء میں بھی آپ نے بہت سی غلطیاں کی ہوں گی۔ ان کی لسٹ بنالیں ساتھ ہی یہ بھی لکھ لیں کہ آپ نے ان غلطیوں سے کیا کیا سیکھا۔ آپ کے یہ اسباق انمول ہیں۔ ان کو پلّے سے باندھ لیں۔ آئندہ زندگی میں یہ اسباق کام آئیں گے۔ تجربہ سب سے بڑا استاد ہے۔ اپنے تجربات سے فائدہ اٹھائیں ان کو ایک ڈائری میں لکھ لیں۔ ان اسباق کو آپ 2013ء کے اسباق کا عنوان بھی دے سکتے ہیں۔

(2 کئی لوگوں کے دل آپ نے دکھائے ہوں گے۔ ان سے معافی مانگ لیں۔ دل سے معافی مانگیں، کل کسی نے نہیں دیکھا اس لیے معافی مانگنے میں دیر نہ کریں۔ واصف علی واصف فرمایا کرتے تھے کہ ’’بڑی منزلوں کے مسافر چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتے‘‘ اس لیے یاد رکھیے کہ اگر آپ کی زندگی میں کوئی بڑا مشن ہے، بڑا مقصد ہے اور کوئی بڑی منزل آپ کا انتظار کررہی ہے تو چھوٹے چھوٹے جھگڑوں اور مسئلوں میں خود کو ضائع نہ کریں۔

(3 غور کیجئے کہ آپ کی ساری کوششیں آپ کو آگے لے کر جارہی ہیں یا پیچھے۔ اگر آپ (Progressive) ترقی کرنے والے اور آگے بڑھنے والے ہیں، تو ان کاموں کی فہرست بنالیں جو آپ کو اور آپ کے وقت کو ضائع کرتے رہے۔ آگے بڑھنے کا سوچئے اور آگے بڑھنے کی تگ و دو کریں۔ آگے بڑھنے والے لگن والے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی لگن اور جنون کو ہی عبادت سمجھتے ہیں۔ فیصلہ کریں کہ آپ 2014ء کو آگے بڑھنے کا سال قرار دیں گے۔ گھرمیں لکھ کر لگادیں ’’2014ء آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا سال ہے۔‘‘

(4 نئے اور بڑے خواب سجائیں، خواب زندگی میں موٹیویشن (تحریک) لے کر آتے ہیں۔ ہمارا جینے کو دل کرتا ہے۔ خواب بنانے والے لوگ پر امید رہتے ہیں۔ ہر شعبے کے خواب بنائیں، کاروبار، پڑھائی، تعلقات، گھر، معاشرہ سب کے بارے میں ان کو لکھ لیں۔ خواب لکھ کر رکھے ہوں تو یاد رہتے ہیں۔ یاد رکھیں جو چیز آپ کے تصور میں نہیں وہ حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتی۔

(5 نئے سال کو دعا سے شروع کریں۔ ہم اپنی خوشیوں میں اپنے اصل مالک اللہ کو بھول جاتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ آغاز اس کے نام سے ہونا چاہیے۔ ہم چھوٹے چھوٹے کاموں کو شروع کرتے ہوئے اسے یاد رکھتے ہیں اور اتنے اہم کام یعنی نئے سال کا آغاز کرتے ہوئے اسے کیوں بھول جائیں؟ نئے سال کی آمد سے پہلے دو نفل شکرانے کے ادا کیجئے اور پھر ایک نئے آغاز کیلئے دعا کیجئے۔ اس کی مدد مانگیے۔ کمال یہ ہے کہ دنیا اس کو بھول کر جشن میں مست ہو اور آپ اس وقت اس کے در کے گدا بن کر جھولی پھیلائے ہوئے آنسو پیش کررہے ہوں۔ خود فیصلہ کریں کہ یہ نظارہ خوبصورت نہیں لگے گا؟۔

(6 اپنے آپ کو بہتر بنانے کی پلاننگ کریں۔ 2014ء کو اپنی بہتری کا سال بھی قراردیں۔ کتنی کتابیں پڑھنی ہیں، کتنے لیکچرز لینے ہیں اور کیا کیا سیکھنا ہے۔ کون کون سی خوبی خود میں پیدا کرنی ہے۔ مثلاً زیادہ تر لوگ بداخلاق ہوتے ہیں، آپ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ 2014ء میں میں نے اخلاق کو بہتر کرنا ہے۔ مسکرا کر بات کرنا سیکھنا ہے، ہاتھ ملانے میں پہل کرنی ہے۔ دوسروں کا اور دوسروں کی رائے کا احترام کرنا ہے۔ برداشت بڑھانی ہے۔ سخی بننا ہے۔ فیصلہ کریں کہ آپ آسانیاں بانٹیں گے۔

(7 زندگی کی قدر دراصل وقت کی قدر ہے۔ کمال بات یہ ہے کہ دنیا کے مؤثر ترین لوگ اپنے وقت کی بہت قدر کرتے ہیں کیوں کہ ان میں یہ احساس کہ ’’وقت بہت کم ہے اور زندگی ختم ہونے والی ہے‘‘ دوسرے لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ آپ بھی 2014ء کو اگر زندگی کا آخری سال اور اس سال کے ہر دن کو زندگی کا آخری دن سمجھ کر گزاریں گے تو آپ بھی مؤثر ہوجائیں گے۔ 2013ء نے واپس نہیں آنا اسی طرح 2014ء بھی نہ گزر جائے۔

آخری بات آئین سٹائن کی کرتے ہیں۔ اس نے ایک لیکچر میں کہا تھا کہ ’’اپنی زندگی کو ایک مقصد کے ساتھ باندھ دو تمہاری زندگی ضائع نہیں ہوگی‘‘ ایک معیاری زندگی وہ ہے جو بامقصد ہے۔ بامقصد زندگی کیلئے ایک سال کیا انسان سو سال قربان کرنے کو تیارہوجاتا ہے اور اگر کوئی مقصد نہیں ہے تو زندگی سالوںاور صدیوں کو بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سر جھکائے حسیب نے سوال کیا ’’سر بہت سے کاموں کیلئے وقت کیسے نکال لیتے ہیں؟‘‘ میرے پاس صدیوں پرانا جواب تھاکہ ’’بیٹا جو سالوں کا کام مہینوں میں، مہینوں کا کام دنوں میں اور دنوں کا کام گھنٹوں میں کرنے لگ جائیں وہ ایک زندگی میں کئی زندگیاں جی جاتے ہیں اور کئی زندگیاں بدل جاتے ہیں‘‘ حسیب کی چمکتی آنکھیں بتارہی تھیں کہ ’’سمجھ آگئی سرجی‘‘ اور میں سر جھکائے سوچنے لگا کہ یہ تحریر کتنوں کو آغاز دے گی؟ کامیابی کے سفر کا آغاز… خیر کے راستے کا آغاز۔ رائے ضرور دیجئے گا۔

Facebook/qasim.ali.shah

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔