انتظار کتنا طویل ہوگا؟

محمد رمضان زاہد  جمعرات 25 فروری 2021
نہ جانے غریب عوام کا انتظار کب ختم ہوگا؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نہ جانے غریب عوام کا انتظار کب ختم ہوگا؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

صوابی گاڑ میں گیس منصوبے کے افتتاح کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی وجہ سے عوام پریشان ہیں، لیکن یہ حال 70 سال سے حکومت میں رہنے والوں کی وجہ سے ہے۔

جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے تو اس کا عوام کےلیے سب سے پہلا اعلان یہی ہوتا ہے کہ پریشانیاں ہوں گی، صبر کرنا ہوگا، کچھ وقت تکالیف میں گزارنا ہوگا، پھر خوشحالی ہی خوشحالی ہے۔ بس ہمیں 5 سال پورے کرنے دیے جائیں۔

5 سال پورے ہوجاتے ہیں اور عوام ایک بار پھر نئے مسیحا کی تلاش میں دھوپ، گرمی اور سردی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قطاروں میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بوڑھے اور کمرخمیدہ بزرگ، بوڑھی اور قریب المرگ مائيں، بیمار اور شدید کمزور مرد و خواتین طویل قطاروں میں موسم کی شدت برداشت کرتے ہوئے ووٹ ڈالتے ہیں کہ شايد اب کی بار آنے والی حکومت ملک و عوام کےلیے کوئی خوشحالی والی خبر لے کر آجائے اور ہمارا طویل انتظار ختم ہوجائے۔ ہماری آنے والی نسلیں ہی سکھ کے دن دیکھ سکیں۔ یعنی ان الیکشنوں میں بھی ہمارے بڑوں کی آنے والی نسل کےلیے ایک قربانی ہی ہوتی ہے۔ لیکن ہوتا کیا ہے؟ وہی ڈھاک کے تین پات۔ پریشانی، صبر اور طویل انتظار۔

اس ملک کے عوام نے 70 سال اسی آس و انتظار میں گزار لیے۔ دکھ اور کرب کی کڑی دھوپ بھی برداشت کی۔ بھوک، افلاس اور بغیر علاج معالجہ کے موت کو گلے لگالیا۔ غریب عوام یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کرنے کی وجہ سے اپنے بچوں کو بھوکا رکھنے پر بھی مجبور ہوگئے، مزدور دن بھر مزدوری کرنے کے باوجود بھی رات کو بھوکا سوگیا۔ لیکن ختم نہیں ہوئے تو ہمارے بے حس اور بے ضمیر حکمرانوں کے بھاشن، جھوٹ اور جھوٹے نعرے، جھوٹے وعدے۔

دنیا کے بیشتر ممالک چاند پر اپنے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ مریخ کے مدار میں پہنچ رہے ہیں جبکہ ہماری حکمران اشرافیہ وہی گھسے پٹے جملے ادا کررہی ہے کہ پہلے والے چور تھے اور عوام بس صبر، صبر اور مزید صبر کریں۔

یہ بے ضمیر لوگ پہلے جن کے نام پر ووٹ لے کر کامیاب ہوتے ہیں، پھر دوسری پارٹی میں شامل ہوکر اسی کو گالیاں دیتے ہیں کہ ’’پہلے والے لوگوں کی وجہ سے آج ملک کا یہ حال ہورہا ہے‘‘۔ اور پھر یہی لوگ جن کو گالیاں دی جاتی ہیں، ان کو دوبارہ اپنی پارٹیوں میں بحال کرکے الیکشن جتواتے ہیں اور پھر سے وہی ’’گھڑمس‘‘ مچ جاتا ہے۔ عوام بے چارے اسی طرح مہنگائی، غربت اور افراط زر کی چکی میں پستے ہوئے کسی نئے مسیحا کے انتظار میں لگ جاتے ہیں۔ خدارا کوئی تو ایسا ہو جو اس ملک کی بات کرے، عوام کی بات کرے، حق کی بات کرے، سچ کی بات کرے۔ نہ جانے ان کرتا دھرتا لوگوں کے ہاتھوں اس ملک کے غریب اور مجبور عوام اب کتنا اور ذلیل ہوں گے؟

جناب اسپیکر صاحب! یہ بے چارگی اور مجبوری کی باتیں آپ اپنی حکومت کے پہلے سال یا ابتدائی مہینوں میں کرتے تو بات سمجھ میں بھی آتی کہ واقعی حکومت کےلیے سابقہ لوگ پریشانیاں چھوڑ گئے ہیں۔ لیکن اپنی نصف حکومتی مدت پوری کرنے کے بعد اور پاکستان کے عوام کو اربوں روپے کا مقروض کرنے کے بعد بھی اگر یہ بے چارگی اور لاچاری والی باتیں کی جائيں تو پھر اس کا مطلب یہ ہی ہے کہ آپ مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں اور عوام کےلیے آپ کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں۔ بس آپ بھی پہلے والے لوگوں کی طرح ہی ہیں اور عوام کو ایک سراب اور دھوکا دینے کےلیے ہی آئے تھے۔ اور آپ کا حکومت میں مزید رہنا، بے حسی اور ملک دشمنی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

جس طرف نظر دوڑائیں ایک بے حسی کا عالم ہے۔ ایک سراب اور دھوکے کی تاریخ لکھی جارہی ہے۔ عوام نے یہ بھی دیکھ لیا کہ کس طرح ڈسکہ میں ان بڑے لوگوں نے عوام کو دھوکا دیا۔ معزز اور اپنی خدمات کے آخری ایام گزارنے والے سرکاری افسران نے کس طرح ایک رات کرب میں گزاری ہوگی۔ یہ تو ایک سیٹ تھی جس کےلیے اتنا کشت و خون اور عوام کو ہراساں کیا گیا جبکہ 340 سیٹوں کا کیا حال ہوگا اور اس کےلیے کتنے ماؤں کے بچے مارے جائیں گے۔

حکمران جماعت ہر جگہ پر ایسے لوگوں کو آگے لارہی ہے جو گزشتہ حکومت میں چوری، ڈکیتی، قتل اور رہزنی کی وجہ سے اشتہاری تھے۔ جن کی وجہ سے ان کے علاقے کے لوگ غیر محفوظ تھے۔ معاشرے کے یہ بدقماش مفرور ہوکر زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ لیکن اب ان کو ایک بار پھر عوام کے سر پر مسلط کیا جارہا ہے اور وہ اپنی سابقہ روش کے مطابق غریب اور مزدور پیشہ عوام کا جینا دوبھر کیے ہوئے ہیں۔

جو حالات آج سے کچھ عرصہ پہلے کراچی اور سندھ میں تھے، وہی حالات اب پنجاب میں بنائے جارہے ہیں۔ کیونکہ نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی ان جرائم پیشہ افراد کو پکڑنے والا۔ جبکہ میرے وطن کا غریب اور مزدور اپنی حکومت سے نالاں ہے کہ مہنگائی نے ان کا بھرکس نکال دیا ہے۔ دوسری طرف ان جرائم پیشہ افراد سے بھی خوفزدہ ہے کہ وہ ان کو اب مزدوری بھی سکون سے نہیں کرنے دے رہے۔ نہ جانے غریب عوام کا انتظار کب ختم ہوگا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔