ضمنی انتخابات اور پاکستان کی غیر مستحکم سیاست

سالار سلیمان  جمعرات 25 فروری 2021
ضمنی انتخابات نے حکومت کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ (فوٹو: فائل)

ضمنی انتخابات نے حکومت کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ (فوٹو: فائل)

دادا جی موڈ میں ہوتے ہیں تو بہت کچھ کہتے ہیں۔ دادا جی کا ایک اور کاپی رائٹ قول ہے کہ اس حکومت کی لڑائی اپوزیشن کے ساتھ نہیں ہے۔ ان کی لڑائی قدرت کے ساتھ ہے اور یہ جب تک اپنے تمام بیانات سے یوٹرن نہیں لیتے ہیں، یہ جب تک اپنا تھوکا ہوا خود نہیں چاٹتے ہیں، ان کی جان بخشی نہیں ہوگی۔

آپ ضمنی انتخابات کی مثال سے اس بات کو سمجھیے۔ یہ دوسروں پر منہ اٹھا اٹھا کر دھاندلی کے الزامات لگاتے تھے اور خود یہ ڈسکہ میں دھاندلی کی دھند میں اندھادھند ہی گم ہوگئے۔ حتیٰ کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نیازی کو یہ تک کہنا پڑگیا کہ متنازعہ 20 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ سے انتخابات کروا لیں۔ واضح رہے کہ یہاں سے بھی پی ٹی آئی ہار ہی رہی تھی۔

ضمنی انتخابات نے حکومت کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ تمام وہ وزرا و مشیران جن کا کام میڈیا کے سامنے آ کر پی ڈی ایم پر تبرا کرنا، ان پر جگتیں کروا کر اپنی نوکری پکی کرنا تھا، وہ آج کل آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں۔ حکومت کہتی تھی کہ پی ڈی ایم ایک مردہ گھوڑا ہے لیکن ان الیکشنز نے پی ڈی ایم کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی ہے۔ ہم نے تو خیر یہ پہلے بھی کہا تھا کہ پی ڈی ایم کبھی بھی سیاسی محاذ کو خالی نہیں چھوڑے گی، بلکہ وہ تمام تر ریاستی جبر کو سہتے ہوئے نہ صرف ضمنی انتخابات لڑے گی بلکہ وہ سینیٹ میں بھی ایک دوسرے کی مدد کرے گی اور وقت آنے پر یہ فیصلہ ہوگا کہ اسمبلیوں سے استعفے دینے ہیں یا لانگ مارچ کرنا ہے، یا دونوں آپشنز کو استعمال کرنا ہے۔ گزشتہ کالم میں ہم یہ بتا چکے ہیں کہ سینیٹ میں بہت ہی سادہ اکثریت ہوگی تو پی ڈی ایم کے پاس یہ آپشن بھی موجود ہے کہ وہ اس سادہ اکثریت کا فائدہ اٹھائے، لیکن آپ جیسے مرضی سیاسی تاش کے پتے رکھ لیں، اس وقت حکومت بری طرح سے پھنسی ہوئی نظر آتی ہے۔

حکومت اپنی تمام تر ’’کوشش‘‘ کے باوجود بھی اپنی سیٹیں مینیج نہیں کر پائی ہے تو اس سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کے ’’بڑوں‘‘ نے دست شفقت ہٹایا ہے؟ بظاہر ایسا ہی ہوا ہے کہ ’’بڑوں‘‘ نے حکومت کو کہا ہے کہ اپنی سیاسی لڑائی آپ خود سے لڑیں اور اس خوش فہمی سے بھی باہر آئیں کہ آپ اصل میں کوئی چیز ہیں۔ ہم اس بات کو یہیں روکتے ہیں، کیونکہ شمالی علاقہ جات میں ابھی برف پگھلنا شروع ہوئی ہے اور ٹھنڈ ابھی بھی بہت ہے ۔

زخمی پی ٹی آئی بیک فٹ پر جاچکی ہے۔ وہ اپنی صف بندیاں دوبارہ سے کررہی ہے۔ جہانگیر ترین واپس آچکے ہیں اور کسی ستم ظریف نے شرارت سے ان کی یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کی تصویر انٹرنیٹ پر جاری کردی ہے اور اب پوری پی ٹی آئی اوپر نیچے دیکھ رہی ہے کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ سینیٹ الیکشن اگلا میدان جنگ ہے۔ ترین صاحب کی آمد دراصل کمک ہے اور حکومت کو ویسے بھی کئی حلقوں کی مدد حاصل ہوگی۔ سننے میں یہ بھی آرہا ہے کہ اپوزیشن کو دوبارہ سے کسنے کا موڈ ہے، اس کےلیے بھی حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ میں یہاں پر عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے بوجہ گفتگو نہیں کررہا ہوں لیکن انتہائی محتاط بات بھی کروں تو عدلیہ کے پاس آئین کو تبدیل کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

آئین کہتا ہے کہ سینیٹ کا الیکشن خفیہ طور پر ہوگا۔ اب دوسری جانب صدارتی آرڈیننس ہے، تیسری جانب پی ٹی آئی ہی اس مسئلے پر سپریم کورٹ میں ہے جہاں معزز جج صاحب کہتے ہیں کہ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ ووٹ خفیہ بھی رہے اور پتہ بھی چل جائے کس کو ڈالا ہے۔ ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘۔ یہ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس تھا، عدلیہ نے یہ دیکھنا تھا کہ آئین میں کیا گنجائش ہے اور اس حوالے سے حکومت کو بتا دینا تھا کہ کیا ہو سکتا ہے اور کیا نہیں ہو سکتا ہے۔ تاہم، ابھی کیس عدالت میں چل رہا ہے، لہٰذا میں مزید تبصرے سے گریز کروں گا۔ تاہم، پی ٹی آئی جو چاہتی ہے، وہ آئین کے مطابق نہیں ہوسکتا۔ اس کےلیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے اور پی ٹی آئی کے پاس دونوں ہاؤسز میں دو تہائی اکثریت موجود نہیں ہے۔

سینیٹ الیکشنز اب زیادہ دور نہیں ہیں اور سینیٹ الیکشنز کے نتائج کے ساتھ ہی ہمیں پاکستان کے مستقبل کی سیاست کا اندازہ بھی ہوجائے گا۔ تادم تحریر، پاکستان کی سیاست مستقبل میں بھی غیر مستحکم ہی نظر آتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔