چیئرمین نادرا طارق ملک نے اپنے خلاف تمام الزامات مسترد کردیے

کینیڈین شہریت کبھی نہیں چھپائی، دورے مجاز اتھارٹی کی اجازت سے کیے، سوالنامے کا جواب۔ فوٹو: فائل

کینیڈین شہریت کبھی نہیں چھپائی، دورے مجاز اتھارٹی کی اجازت سے کیے، سوالنامے کا جواب۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: چیئرمین نادرا طارق ملک نے ایف آئی اے کی جانب سے بھیجے گئے سوالنامے کا 10 صفحات پر مبنی جواب تفتیشی افسرکو بھجوادیا جس میںانھوں نے کینیڈا کی شہریت چھپانے سمیت تمام الزامات کومکمل طور پر مستردکردیا۔

ایف آئی اے نے پاسپورٹ ایکٹ1974 کی خلاف ورزی پر30دسمبر کو انھیں سمن جاری کیا تھجا، دلچسپ امر یہ ہے کہ انھیں اس خط میں سابق چیئرمین کہہ کر مخاطب کیا گیا تھا۔ ایف آئی اے نے الزام لگایا تھا کہ طارق ملک نے پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرتے وقت جان بوجھ کر یہ بات چھپائی کہ انکے پاس کینیڈین شہریت ہے، انھوں نے خود کونجی ملازم ظاہر کیا اور ایک کالم میں یہ لکھاکہ وہ کسی سرکاری یا نیم سرکاری یا کارپوریشن کے ملازم نہیں، انھوں نے حقائق مسخ کیے جو پاسپورٹ ایکٹ1974 کی سنگین خلاف ورزی ہیں، طارق ملک نے اپنے جواب میں کہا کہ انھوں نے اپنی کینیڈین شہریت کو کبھی نہیں چھپایا کیونکہ اس سے انھیں کسی قسم کاکوئی فائدہ نہیں ہو سکتا تھا، پاکستان کاکینیڈاکے ساتھ دہری شہریت کا معاہدہ موجود ہے جس کے تحت دونوں ملکوں کی شہریت رکھی جاسکتی ہے۔

انھوں نے مزید کہاانھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ان کے پاس کوئی اور پاسپورٹ موجود نہیں، حقیقت یہ ہے کہ جب انھوں نے پاسپورٹ کیلیے درخواست دی تو ان سے اس بارے میں پوچھا ہی نہیں گیا، پاکستانی پاسپورٹ بنواتے وقت کوئی فارم پرنہیںکیا تھاکیونکہ مشین ریڈایبل پاسپورٹ بنواتے وقت کاونٹرپرموجود شخص نے صرف ان سے جوزبانی سوالات کیے انھوںنے ان کے جواب دیے، انھوںنے کوئی فارم پرنہیں کیا۔ خط میںمزیدکہا گیاہے کہ پاسپورٹ ایکٹ 1974ء کے تحت پاسپورٹ بنواتے وقت اگرکوئی غلط جواب دیدے تویہ فوجداری جُرم کے زمرے میں نہیں آتا اور انہیں کسی سوال کاغلط جواب دینے کی ہرگزضرورت نہیں تھی۔ خود کو نجی ملازم ظاہر کرنے کے سوال پر طارق ملک نے کہا کہ نادرا کا ادارہ ایک آرڈیننس کے تحت قائم ہوا جوایک اتھارٹی ہے اوریہ کسی وزارت یاڈویژن کے ماتحت نہیں بنتا۔

 photo 4_zps12b3e4d1.jpg

کنٹریکٹ ملازمت ہونے کی وجہ سے انکی ملازمت کیلیے کوئی طے شدہ قواعد وضوابط بھی نہ تھے، مشین ریڈایبل پاسپورٹ کے اجرا کیلیے جس نے ان سے سوالات کئے ممکنہ طور پراس کوفراہم کیے گئے ’’ڈراپ ڈاؤن مینیو‘‘میں آپشنزمحدودتھے جو انکی ملازمت کے حوالے سے بھی موزوں نہیں تھے۔

انہیں سرکاری افسر یا ملازم کہنا غلط ہوتا کیونکہ انکا کنٹریکٹ نادرا کیساتھ ہے حکومت کیساتھ نہیں، بیرون ملک دوروں کے متعلق سوال پر انھوں نے ایف آئی اے کے الزام کو غلط قرار دیتے ہوئے جواب دیا کہ نادرا بطور ادارہ الگ وجود رکھتا ہے، وفاقی حکومت انکی آجر نہیں اس لیے اسے سرکاری ملازمت بھی نہیں کہا جا سکتا، تمام دستاویزات میں یہ بات واضح ہے کہ انھوں نے بطور چیئرمین؍ ڈپٹی چیئرمین نادرا تمام دورے ہمیشہ مجاز اتھارٹی کی اجازت؍ این او سی سے کئے، اس ضمن میں بطور چیئرمین، وزیر اعظم اور بطور ڈپٹی چیئرمین ، چیئرمین نادرا سے اجازت لی گئی، ذرائع کے مطابق طارق ملک نے کہا کہ سوالنامہ یکم جنوری کو ان کے حوالے کیا گیا جبکہ اسی روز ایف آئی اے کے ترجمان نے ان کے جواب کا انتظار کیے بغیر میڈیامیں ان پر الزامات لگائے جس سے ان کی شہرت کوشدید نقصان پہنچا اوروہ اس پرقانونی چارہ جوئی کا اختیار رکھتے ہیں۔ انھیں امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے جبکہ ایف آئی اے بھی اس میں ایک فریق بن رہا ہے، میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ انکے خلاف مہم کا حصہ نہ بنے اور انکوائری بند کردے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔