مودی کی سوشل میڈیا پر بھی آزادی اظہار کچلنے کی تیاری

ویب ڈیسک  جمعرات 25 فروری 2021
مخالفین کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرنے کیلئے متنازع قانون لانے کا فیصلہ

مخالفین کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرنے کیلئے متنازع قانون لانے کا فیصلہ

نئی دہلی: بھارت میں نریندر مودی کی حکومت اپنے مخالفین کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند نہ ہونے پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر برہم ہوگئی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت میں متنازع زرعی قانون کے خلاف کسانوں کے شدید احتجاج نے مودی حکومت کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر ان مظاہروں کی ویڈیوز اور تصاویر نے دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور کینیڈا کی حکومت نے بھی کسانوں کے ساتھ اس ناانصافی پر بھارت سے تشویش کا اظہار کیا۔

بھارتی حکومت نے ٹوئٹر پر ان اکاؤنٹس کو بند کرنے کےلیے رپورٹ کیا تاہم ٹوئٹر نے ان ناجائز احکامات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جس پر مودی سرکار شدید برافروختہ ہوگئی۔ اب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوے دار بھارت آزادی اظہار رائے کو کچلنے کے لیے پوری طاقت استعمال کرنے پر تل گیا۔

مودی حکومت نے سوشل میڈیا کو کچلنے کے لیے متنازع قوانین متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اپنے مخالف ہر آواز کو دبایا جاسکے اور دنیا کی آنکھوں میں اسی طرح دھول جھونکی جاسکے جیسے مقبوضہ کشمیر پر دنیا کو اندھیرے میں رکھا جارہا۔ مودی حکومت چاہتی ہے جیسے شہید کشمیری حریت رہنما برہان وانی کی تصویر شیئر کرنے پر سوشل میڈیا اکاؤنٹس فوری بند ہوجاتے ہیں، ویسے ہی کسان مخالف احتجاج کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنے پر بھی اکاؤنٹ فوری بند ہوجائے۔

اسی حوالے سے مودی سرکار نے انٹرمیڈری گائیڈلائنز اور ڈجیٹل میڈیا اخلاقیات کوڈ کا مسودہ تیار کیا ہے جس کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں بشمول ٹوئٹر اکاؤنٹس رپورٹ کرنے کے 36 گھنٹوں کے اندر اندر اکاؤنٹس بند کرنے اور 72 گھنٹوں کے اندر اندر ان اکاؤنٹس کیخلاف تحقیقات میں تعاون کرنے کی پابند ہوں گی۔ تمام کمپنیاں ایک ایسے افسر مجاز کا تقرر کریں گی جو سیکیورٹی اداروں سے تعاون کرے گا اور اس مجاز افسر کا بھارتی شہری ہونا لازمی ہوگا۔

مودی سرکار کا زور صرف فیس بک اور ٹوئٹر تک ہی محدود نہیں بلکہ فنون لطیفہ پر بھی قدغنیں لگانی شروع کردی گئی ہیں اور نیٹ فلکس و امازون پرائم کیخلاف بھی قانونی کارروائی کی سوچ بچار ہورہی ہے۔ گزشتہ دنوں اترپردیش پولیس نے فلم ’تن دیو‘ دکھانے پر امازون کے افسر سے چار گھنٹوں تک کڑی تفتیش کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔