امن خطرے میں؛ طالبان کا امریکا اور افغانستان پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام

ویب ڈیسک  جمعرات 25 فروری 2021
نہ قیدیوں کو رہا کیا جارہا ہے اور نہ ہی غیر ملکی افواج کا انخلا ہورہا ہے، طالبان

نہ قیدیوں کو رہا کیا جارہا ہے اور نہ ہی غیر ملکی افواج کا انخلا ہورہا ہے، طالبان

دوحہ: افغان طالبان نے امریکا اور افغان صدر اشرف غنی پر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔

29 فروری 2020 کو افغانستان میں امن کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوا تھا جس کے مطابق القاعدہ اور داعش پر پابندی ہوگی جبکہ امریکی فوج 14 ماہ میں افغانستان سے مکمل انخلا کرے گی، تاہم صدر جوبائیڈن کی نئی امریکی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اس معاہدے پر نظرثانی کا اعلان کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور طالبان میں امن معاہدے پر دستخط؛ امریکی فوج 14 ماہ میں افغانستان سے مکمل انخلا کرے گی

طالبان کا کہنا ہے کہ امریکا اور کابل حکومت معاہدے پر عملدرآمد نہیں کررہیں، نہ قیدیوں کو رہا کیا جارہا ہے اور نہ ہی غیر ملکی افواج کا انخلا ہورہا ہے۔

دوحہ میں طالبان دفتر کے اعلیٰ عہدے دار نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاہدہ ہوا تھا کہ بین الافغان مکالمہ شروع ہونے کے بعد تین ماہ کے اندر اندر تمام طالبان قیدیوں کی رہائی عمل میں آجائے گی، لیکن 5 ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ایک قیدی تک رہا نہیں کیا گیا جس کی ذمہ دار صدر اشرف غنی کی حکومت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر طالبان کیساتھ افغان امن معاہدے پر نظرثانی کے خواہاں

طالبان عہدے دار نے افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا میں تاخیر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کیونکہ جوبائیڈن حکومت اس معاہدے کو منسوخ بھی کرسکتی ہے جس کے نتیجے میں جنگ زدہ ملک میں امن بحالی کی امیدیں دم توڑنے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: دوحہ امن معاہدے پرنظرثانی ، خطہ پراثرات

طالبان عہدے دار کا کہنا تھا کہ ہم نے امریکی حکومت سے تحریری معاہدہ کیا ہے جس کا ہم احترام کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ امریکا بھی اس پر عمل پیرا ہوگا۔ طالبان نے گزشتہ ہفتے جوبائیڈن انتظامیہ کو کھلا خط لکھ کر فوجیوں کے انخلا کے لیے بھی زور دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔