تیزی سے جواب دینے والوں کو ’’سچا‘‘ سمجھا جاتا ہے، تحقیق

ویب ڈیسک  ہفتہ 27 فروری 2021
اگر آہستگی سے، ٹھہر ٹھہر کر جواب دیں گے تو آپ کو بے ایمان، جھوٹا اور ناقابلِ بھروسہ سمجھا جائے گا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اگر آہستگی سے، ٹھہر ٹھہر کر جواب دیں گے تو آپ کو بے ایمان، جھوٹا اور ناقابلِ بھروسہ سمجھا جائے گا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لندن: برطانیہ میں کی گئی ایک دلچسپ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ جو لوگ کسی بھی سوال کا فوری اور بلا جھجھک جواب دیتے ہیں، اکثر اوقات انہیں سچا سمجھا جاتا ہے اور ان کی بات بھی درست قرار دی جاتی ہے۔

اس کے برعکس وہ لوگ جو کسی بھی سوال کا جواب دینے سے پہلے کچھ دیر سوچتے ہیں اور آہستگی سے، ٹھہر ٹھہر کر جواب دیتے ہیں، انہیں ناقابلِ بھروسہ، بے ایمان اور جھوٹا سمجھا جاتا ہے۔

یہ نتیجہ جیمس کُک یونیورسٹی، برطانیہ کے ڈاکٹر ژیانو اور ڈاکٹر ڈیمنگ وانگ نے برطانیہ، امریکا اور فرانس میں 7,565 رضاکاروں پر 14 مختلف نفسیاتی تجربات کے بعد اخذ کیا ہے۔

ایسے ہر تجربے میں پہلے ایک ویڈیو دکھائی گئی جس میں کسی شخص کو سوال کرتے اور دوسرے کو جواب دیتے دکھایا گیا تھا۔ جواب دینے والے نے تیزی سے اور ٹھہر ٹھہر کر، دونوں انداز میں سوال کا جواب دیا۔ ہر ویڈیو کے بعد رضاکاروں سے مختلف سوالات کیے گئے۔

ان تمام تجربات کا مقصد ’’سوال کرنے والے کے اعتماد‘‘ اور ’’جواب دینے والی کی پھرتی‘‘ کے درمیان تعلق معلوم کرنا تھا۔

رضاکاروں کی بڑی اکثریت نے تیزی سے جواب دینے والوں کو قابلِ بھروسہ اور دیانتدار قرار دیا۔

اس سے قطع نظر کہ کوئی شخص سچ بول رہا ہے یا جھوٹ، اگر اس نے تیزی سے اور بلا جھجھک کسی سوال کا جواب دیا ہے تو عوام کی اکثریت اسے ’’سچا‘‘ ہی سمجھے گی۔

اگرچہ ملازمت کے انٹرویو میں کسی امیدوار کے فوری جوابات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ متعلقہ موضوع یا موضوعات پر زیادہ مہارت رکھتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ہر معاملے میں تیزی سے جواب دینا والا ہی سچا یا درست ہو۔

بعض مرتبہ کسی سوال کا درست اور نپا تلا جواب دینے کےلیے خاصی سوچ بچار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس دوران یادداشت میں معلومات کو ترتیب دینے سے لے کر موزوں ترین الفاظ کا جامہ پہنانے تک، جواب دینے والے کو خاصی محنت کرنا پڑتی ہے۔

سماجی نقطہ نگاہ سے اس تحقیق کا مطلب یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ جواب دینے والے کی بات صحیح ہے یا غلط، بلکہ جواب دیئے جانے کی رفتار کو بنیاد بناتے ہوئے رائے قائم کرتے ہیں۔

اگرچہ یہ اندازِ فکر خاصی حد تک غلط ہے لیکن بہرحال یہ انسانی فطرت سے متعلق ایک حقیقت بھی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

نوٹ: یہ تحقیق ’’جرنل آف پرسنیلٹی اینڈ سوشل سائیکولوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔