یوسف رضا گیلانی بمقابلہ حفیظ شیخ

مزمل سہروردی  جمعـء 26 فروری 2021
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

ایک سوال ہر طرف گھوم رہا ہے کہ کیا اسلام آباد کی سینیٹ نشست یوسف رضا گیلا نی جیت جائیں گے؟ کیا واقعی حفیظ شیخ کے ہارنے کے کوئی امکانات ہیں؟ سپریم کورٹ بھی اوپن بیلٹ کی طرف جاتا نظر نہیں آرہا۔ ایسے میں سینیٹ انتخابات واقعی حکومت کے لیے مشکل بنتے جا رہے ہیں؟

حکومت کے ناراض ارکان کیا واقعی حکومتی امیدوار کو ووٹ نہیں ڈالیں گے؟ کیا ضمنی انتخابات میں حکومتی شکست نے حکومت کے لیے مشکلات کا بگل بجا دیا ہے؟ کیا یوسف رضا گیلانی کو مطلوبہ ووٹوں کے ساتھ ساتھ مطلوبہ آشیر باد بھی حا صل ہے؟ کیا مقتدر حلقوں کا طرز عمل صرف ضمنی انتخاب کے لیے تھے یا سینیٹ الیکشن میں بھی یہی صورتحال ہوگی؟ کیسے ممکن ہے کہ حفیظ شیخ جیت کی آشیر باد کے بغیر سینیٹ الیکشن لڑنے پر تیار ہوجائیں۔

تحریک انصاف میںدن بدن بڑھتی بے چینی کیا اشارے دے رہی ہے۔ باغیوں کو اتنی ہمت کہاں سے مل گئی کہ وہ بولنے لگے ہیں۔ یہاں تو اپوزیشن کے ارکان کو اس طرح بولنے کی اجازت نہیں تھی۔ پھر یہ حکومتی ارکان کی اس طرح کی باتیںکون برداشت کر رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ سیاستدان بدلتے موسم کو دور سے پہچان لیتے ہیں۔ ان کو موسم کے بدلنے کا پہلے سے پتہ چل جاتا ہے۔

لیکن ابھی تو موسم بدلنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ پھر ’’طوطے‘‘ کیوں سمجھ رہے ہیں کہ موسم بدلنے والا ہے؟ ان طوطوں کو جو تحریک انصاف میں لائے تھے وہ ان کی  باتیں کیوں برادشت کر رہے ہیں؟ کیا یہ سب جابر سلطان کی مرضی سے کلمہ حق کہہ رہے ہیں؟کیا واقعی انھیں اپنے گلے شکوے کھلے عام  کرنے کی اجازت مل گئی ہے؟ پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اب کیوں ہو رہا ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ وزیر اعظم کے اجلاس سے حکومتی ارکان ہی غیر حاضر ہو جائیں۔ یہ ذاتی مصروفیات کب سے وزیر اعظم کے اجلاس سے اہم ہو گئیں۔ سیاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہم نے تو لوگوں کو اسٹریچر پر بھی وزیر اعظم کے اجلاس میں آتے دیکھا ہے۔ نہ آنا بھی بغاوت کی ہی ایک شکل ہے۔ جس کو پسند نہیں کیا جاتا۔

بغاوت صرف کے پی میں نہیں ہر طرف نظر آرہی ہے۔ سندھ میں تو بغاوت کے پی سے بری شکل میں  نظر آرہی ہے۔ لیاقت جتوئی نے براہ راست اپنے پارٹی قائد پر ہی رشوت کے الزامات لگا دیے ہیں۔ ایک طرف حکومت سینیٹ انتخابات کو شفاف بنانے کی لڑائی لڑ رہی ہے دوسری طرف حکومتی جماعت کے ارکان ہی اپنی پارٹی قیادت پر سینیٹ کی ٹکٹوں کی خرید و فروخت کا الزام لگا رہے ہیں۔

ایسا بھی پہلے نہیں ہوا ہے۔ سندھ کے سیاسی کلچر میں تو ایسا کبھی نہیں ہوا۔ سندھ کا روایتی سیاستدان تو آخری دن تک حکومت کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ وہاں اس طرح حکومتی جماعت میں رہتے ہوئے قیادت کے خلاف بیانات دینے کا رحجان نہیں ہے۔ بلوچستان کی صورتحال بھی مختلف نہیں ہے۔

سردار یار محمد رند کے بیانات بھی سب کے سامنے ہیں۔خبریں تو یہ بھی آرہی ہیں کہ کے پی میں تحریک انصاف نے خود ہی اپنے ارکان کی تین طرح کی لسٹیں بنائی ہیں۔ سفید میں وہ لوگ ہیں جو پارٹی سے وفادار ہیں اور پارٹی لائن کے مطابق ووٹ دیں گے۔ گرے لسٹ میں وہ  ہیں جن پر حکومتی جماعت کو شک ہے، وہ ووٹ ادھر ادھر کر سکتے ہیں۔ جب کہ بلیک لسٹ میں ان ارکان کے نام ہیں جن کے بارے میں خود حکومتی ارکان کو یقین ہے کہ وہ ان کی مرضی سے ووٹ نہیں ڈالیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ بلیک لسٹ میں ناموں کی تعداد سفید لسٹ سے زیادہ ہے۔

اس لیے وہاں پریشانی زیادہ ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی نے تحریک انصاف میں نقب لگا لی ہے۔ حلیم عادل شیخ کے ساتھ جو رہا ہے اس کا بھی سینیٹ انتخابات سے گہر اتعلق ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ وہ بھی ایک فکس میچ ہے۔ سندھ سے حکومتی جماعت کو ایک سیٹ کا نقصان ہو سکتا ہے۔ بلوچستان میں ویسے تو باپ اور تحریک انصاف کے مسائل چل رہے ہیں۔ ایسے میں رند صا حب نے بگل بجا دیا ہے۔ اس لیے سب ٹھیک نہیں ہے۔

ایسے میں پنجاب سب سے بہترین شکل میں نظر آرہا ہے۔ پنجاب میں حکومتی جماعت کے اندر کھلی بغاوت نظر نہیں آرہی ہے۔ جنوبی پنجاب سے خرم لغاری نے نعرہ بلند کیا تھا۔ لیکن وہ چوبیس گھنٹے بھی اپنی بات پر قائم نہیں رہ سکے اور جنوبی پنجاب سے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کے لیے لاہور پہنچ گئے۔انھوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کی قیادت بھر پور اعتماد کا اظہار کر دیا۔ داؤد سلمانی بھی وزیر اعلیٰ سے ناراض ہوکر اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ یہ کیسی ناراضی اور بغاوت ہے۔ لیکن پھر بھی عمو می رائے یہی ہے کہ پنجاب میں بھی ارکان ناراض ہیں۔ لیکن ابھی وہ کھل کر بات نہیں کر رہے۔ اس لیے پنجاب سے سندھ، بلوچستان جیسی آوازیں نہیں آرہی ہیں۔

چاروں صوبوں میں حکمران جماعت کے لیے کوئی اچھی صورتحال نظر نہیں آرہی۔ لیکن پھر بھی پنجاب کی صورتحال بہتر ہے اور پنجاب کے نتائج باقی صوبوں سے بہتر ہی ہوںگے۔یہی پنجاب کی روایت بھی رہی ہے۔

تا ہم بات تو اسلام آباد کی سیٹ کر رہے ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی جیت کے کس قدر امکانات ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ اگر یوسف رضا گیلانی اسلام آباد کی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اسے حکومت کے خلاف ایک قسم کا عدم اعتماد ہی سمجھا جائے گا، حالانکہ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ سینیٹ میں ارکان نے اب  تک کی صورت حال کے مطابق خفیہ رائے شماری کے تحت ہی ووٹ ڈالنا ہے۔ جب کہ وزیر  اعظم کے خلاف عدم اعتماد میں مخفی رائے شماری نہیں بلکہ اوپن بیلٹ ہوتا ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ ارکان چھپ کر یوسف رضا گیلانی کو تو ووٹ ڈالنے کے لیے تیار ہو جائیں لیکن ابھی عدم اعتما د کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے۔ شاید اس میں ابھی وقت ہے۔

ابھی تک جو ماحول بن رہا ہے اس میں یوسف رضا گیلانی کی پوزیشن بہتر نظر آرہی ہے۔ لیکن سوال یہی ہے کہ کیا حفیظ شیخ کو تنہا چھوڑ دیا جائے گا؟۔ حفیظ شیخ کو ہر صورت میں جیتنا ہوگا۔ اب تک ہم نے یہی دیکھا ہے کہ جس بات پر عمران خان ڈٹ جائیں، وہ ہوجاتی ہے۔ اس لیے میں ابھی تک حفیظ شیخ کو گیم سے آؤٹ نہیں سمجھتا۔ ان کی ہار عمران خان کو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ اس لیے آخری دنوں میں صورتحال بدلے گی۔

اسلام آباد کی سیٹ کا ایسا نتیجہ بھی آسکتا ہے جس میں دونوں فریق خوش ہو جائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حفیظ شیخ جیت بھی جائیں لیکن جیت کا مارجن اس قدر کم ہو کہ صاف نظر آئے کہ حکومت کی حمایت کم ہو گئی ہے۔ حکومت جیت بھی جائے لیکن جیت کر بھی ہار جائے۔ اپوزیشن ہار بھی جائے اور ہار کر بھی جیت جائے۔

دونوں اطراف جیت کا جشن ہو۔ اپوزیشن کہے کہ ہم نے حکومت کی حمایت میں کمی کر دی ہے۔ اس لیے اب حکومت کو جانا چاہیے۔ ہم اگلے مرحلے میں یہ معمولی فرق بھی ختم کر دیں گے۔ اس لیے کھیل دلچسپ ہے۔ ویسے ایک رائے یہ بھی ہے کہ عمران خان کو بھی حفیظ شیخ کے ہارنے میں نقصان نہیں ہے۔ وہ اسد عمر کو واپس وزیر  خزانہ لا سکیں گے۔ اور اب تو اسد عمر کی راہ کی رکاوٹیں بھی ختم ہو گئی ہیں۔ اس لیے حفیظ شیخ کی قربانی پر اتفاق بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ ایک مشکل فارمولہ ہے۔ شاید عمران خان اتنے گہرے سیاستدان نہیں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔