- ایرانی صدر کا دورہ اور علاقائی تعاون کی اہمیت
- آئی ایم ایف قسط پیر تک مل جائیگی، جون تک زرمبادلہ ذخائر 10 ارب ڈالر ہوجائینگے، وزیر خزانہ
- حکومت رواں مالی سال کے قرض اہداف حاصل کرنے میں ناکام
- وزیراعظم شہباز شریف کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری
- شیخ رشید کے بلو رانی والے الفاظ ایف آئی آر میں کہاں ہیں؟ اسلام آباد ہائیکورٹ
- بورڈ کا قابلِ ستائش اقدام؛ بےسہارا و یتیم بچوں کو میچ دیکھانے کی دعوت
- امریکا نے بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو شرمناک قرار دیدیا
- پاکستان کی مکئی کی برآمدات میں غیر معمولی اضافہ
- ایلیٹ فورس کا ہیڈ کانسٹیبل گرفتار، پونے دو کلو چرس برآمد
- لیجنڈز کرکٹ لیگ فکسنگ اسکینڈل کی زد میں آگئی
- انجرڈ رضوان قومی ٹیم کے پریکٹس سیشن میں شامل نہ ہوسکے
- آئی پی ایل، چھوٹی باؤنڈریز نے ریکارڈز کا انبار لگا دیئے
- اسٹاک ایکسچینج؛ ملکی تاریخ میں پہلی بار 72 ہزار پوائنٹس کی سطح عبور
- شاداب کو ٹیم کے اسٹرائیک ریٹ کی فکر ستانے لگی
- لکی مروت؛ شادی کی تقریب میں فائرنگ سے 6 افراد جاں بحق
- اٹلی: آدھی رات کو آئسکریم کھانے پر پابندی کا بِل پیش
- ملک بھر میں مکمل پنک مون کا نظارہ
- چیمپئیز ٹرافی 2025؛ بھارتی میڈیا پاکستان مخالف مخالف مہم چلانے میں سرگرم
- عبداللہ غازی مزار کے پاس تیز رفتار کار فٹ پاتھ پر سوئے افراد پر چڑھ دوڑی
- ایپل کا آن لائن ایونٹ کے انعقاد کا اعلان
مانگنے سے چھیننے تک
سینیٹ کے انتخابات سر پر آگئے ہیں، ہر پارٹی کے امیدوار جوڑ توڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ اراکین اسمبلی سے روابط زوروں پر ہیں۔ ویسے تو ہر انتخاب ہی میں ہارس ٹریڈنگ کا شور ہوتا ہے لیکن اب سنیٹ الیکشن سے پہلے ہی خروفروخت کی خبریں گردش کرنے لگی ہیں۔
اس بار ایک ووٹ کی قیمت چار سے چھ کروڑ تک پہنچنے کی خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ مال آیا کہاں سے ہے ؟کیسے آیا ہے اورکس مد میں خرچ جا رہا ہے، ان باتوں پر غور کرنے کا وقت کسی کے پاس ہے نہ کوئی ان باتوں پر غورکرنے کے لیے تیار ہے۔ سب کی توجہ الیکشن جیتنے پر ہے، اس کے لیے چاہے کچھ بھی کرنا پڑے، اس کے لیے ابھی سے پلاننگ کی جا رہی ہے۔
انتخابات عام طور پر مستقبل کے وعدوں پر لڑے جاتے ہیں لیکن یہاں تو معاملات ہی مختلف ہیں۔ آئیے اب ذرا سینیٹ الیکشن سے پیدا ایک نظر ڈالتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے ووٹ کی قیمت فی ووٹ چار سے پانچ کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ کروڑ کس کو کہتے ہیں۔ یہ غریب آدمی جانتا نہیں۔ نہ وہ یہ جانتا ہے کہ یہ کروڑوں روپے آتے کہاں سے ہیں۔
اس کے اصلی مالک کون ہیں اور جو لوگ عوامی دولت پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں وہ کون ہیں۔ اور کب سے یہ کھیل جاری ہے اور کب تک جاری رہے گا؟ مانگنے اور چھیننے میں بڑا فرق ہوتا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے عوام کو مانگنا سکھایا چھیننا نہیں سکھایا۔
چھیننا سکھانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ چھیننے والے کو یہ احساس ہو کہ وہ جس چیز کو چھیننے جا رہا ہے وہ خود اس کا مالک ہے نہ کہ بھکاری۔ سرمایہ دارانہ نظام نے صدیوں سے عوام کو یہ باور کرا رکھا ہے کہ اس کا کام مانگنا ہے چھیننا نہیں ہے۔ سو وہ صدیوں سے مانگتا چلا آ رہا ہے۔ چھیننے کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں جاتا کیونکہ ہمارے ادیب، شاعر، دانشوروں نے عوام کو یہ نہیں بتایا کہ امرا ء کس طرح غریب سے اس کی محنت کی کمائی چھینتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا آرٹ ہے اور سرمایہ دار اس کا آرٹسٹ ہے۔
چھیننے کو عقل مندوں نے ایک جرم ٹھہرایا ہے خواہ چھینی جانے والی چیز کا مالک چھیننے والا ہی کیوں نہ ہو۔ سرمایہ دار ایک خوبصورت گھر بناتا ہے،کاریگر اس گھر کو خوبصورت بنانے میں اپنی جان لڑا دیتا ہے۔
عمارت کی بنیاد رکھنے سے اس کے مکمل ہونے تک غریب کاریگر ہی اپنا کمال دکھاتے ہیں، لیکن نہ ان کا کہیں نام آتا ہے نہ ان کو ان کی محنت کا جائز معاوضہ ملتا ہے، کاریگر جو حسن ساز ہوتا ہے، خود بڑا بدصورت ہوتا ہے۔ ایسا کیوں؟ ایسا اس لیے کہ اہل زر نے زر کو اتنا حسین بنا دیا ہے کہ عام آدمی کی نظر سرمایہ دار پر جاتی ہے، زر کی تخلیق کرنے والے، زر کو زیور بنانے والے پر نہیں جاتی، وہ بے چارا تو اپنے فن کا معمولی سا معاوضہ لے کر الگ ہو جاتا ہے، اس زر کی خوبصورتی سے فائدہ اٹھانے والا سرمایہ دار ہوتا ہے۔
نا انصافیوں اور ظلم کا یہ سلسلہ صدیوں سے چل رہا ہے، ان ناانصافیوں کا احساس دلانا اہل ہنر، اہل فن کی ذمے داری ہے اور اہل ہنر، اہل فن، سرمایہ دارانہ نظام کے کسی اندھیرے میں پڑا یا تو قسمت کو رو رہا ہوگا یا اپنے ہنر کو دیکھ کر باغ باغ ہو رہا ہوگا۔
لیکن وہ رہے گا اندھیروں ہی میں اور سوئے گا عام طور پر بھوکا ہی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں؟ یہ سوال جب تک چیخ بن کر فضا میں جھرجھری نہ پیدا کرے ہتھوڑا بن کر عوام کے حق کے چوروں کے سروں پر نہ پڑے، اس وقت تک یہی ہوتا رہے گا۔ تاج محل کا شمار دنیا کی حسین ترین عمارتوں اور چند عجائبات میں سے ایک میں ہوتا ہے لیکن اس حوالے سے المیہ یا ظلم یہ ہے کہ تاج محل شاہ جہاں کے نام سے پہچانا جاتا ہے، اپنے معماروں کے ذریعے نہیں۔ کیا یہ ناانصافی ہے اگر ناانصافی ہے اور یقینا ہے تو اس کا ازالہ کون کرے گا؟
باہر کے ملکوں میں قومی اسمبلی کو دارالعلوم اور سینیٹ کو دارالامرا ء کہا جاتا ہے۔ دارالعلوم کے پاس ہوئے بلوں کو قانون بننے کے لیے دارالامراء کے پاس جانا پڑتا ہے اور امراء کی منظوری لینا پڑتی ہے۔ مجھ سے ایک نے پوچھا، یہ امراء کیا ہے؟ ہم نے آہستہ سے کہا، خود کو زمین پر خدا کہلانے والے سرمایہ دار یا حکمران طبقہ۔ اربوں انسان ان کے پنجہ استبداد میں۔ ان کے سر ہلائے بغیر دارالعلوم یعنی عام آدمی کی قومی اسمبلی لاکھ قانون بنا لے، ان کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یعنی اصل طاقت امرا کے ہاتھوں ہی میں ہے۔
سینیٹ پاکستان کا دارالامراء ہے، تب ہی تو اس کی ممبر شپ کی فیس چار سے چھ کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ طبقہ امراء کا جو امیدوار چار چھ کروڑ ادا کرے گا وہ لازماً اپنی انویسٹ کی ہوئی رقم میں سود در سود کے نکالے گا۔ اس نکالنے پر بھی سرمایہ لگتا ہے اور سرمایہ دار اسے معہ سود کے نکالتا ہے۔ یہ رقم کس کی ہے۔ اس سرمایہ کی جو سینیٹ کی ممبری خریدنے کے لیے رقم خرچ کر رہا ہے۔ وہ ایک کے ایک سو وصول کرے گا۔ یہ ایک سو کس کے ہیں، صدیوں سے عوام کو یہی بتایا جا رہا ہے کہ یہ ایک سو امرا ء کے ہی ہیں، جب اسے یہ معلوم ہوگا کہ وہی اس سو کا مالک ہے تو پھر وہ مانگے گا نہیں چھینے گا لیکن!
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔