حُبِ الہی کا حصول

عشاء مقبول  اتوار 7 مارچ 2021
ہمیں ان تمام احکامات پر عمل کرنا چاہیے جس کا حکم اﷲ تعالی نے دیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے امّت کو اپنے قول و فعل سے بتایا ہے

ہمیں ان تمام احکامات پر عمل کرنا چاہیے جس کا حکم اﷲ تعالی نے دیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے امّت کو اپنے قول و فعل سے بتایا ہے

انسانی فطرت میں ہمہ اقسام کی چاہتیں، انسیت اور محبتیں ودیعت کی گئی ہیں۔

اپنی ذات سے لے کر اپنی اولاد و والدین، رشتے دار، احباب و اقرباء اور پھر مال تک یہ وہ تمام محبتیں ہیں جو ہر انسان میں موجود ہیں۔ ان تمام اقسام کی محبتوں کے معیارات اور درجے بھی الگ ہیں، مگر ان سب پر جو محبت فوقیت رکھتی ہے وہ اس ذات کی ہے جس نے انسان کو بنایا پھر ا س کے بھیجے ہوئے پیغام دینے والے آخری نبی کریم ﷺ سے محبّت کرنا اور آپؐ کے پیغام سے محبت کرنا اور اس پیغام کی روشنی میں اپنی زندگی بسر کرنا۔

سوال یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے ہی سب سے زیادہ محبّت کیوں کی جائے ۔۔۔ ؟

اﷲ تعالیٰ اور نبی کریم ﷺ کی اطاعت کیوں ضروری ہے ۔۔۔۔ ؟

اگر ہم کائنات اور کائنات میں موجود چیزوں کو دیکھے تو ہمیں اس کے بنانے والا کا خیال آتا ہے کہ یہ سب چیزیں کس نے بنائی ہیں؟ اتنا منظّم نظام کائنات کا کون چلا رہا ہے؟ کوئی ایسی ہستی ضرور موجود ہے جو اس نظام کو چلا رہی ہے اور وہ ہے رب کائنات۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور ہم اس کی نعمتوں کا شُکر ادا نہیں کرسکتے، بے شمار احسانات ہم پر ہیں ہم اسے ہرگز نظر انداز نہیں کرسکتے۔ سوچیے! اگر کوئی ہم پر جب احسان کرتا ہے تو ہم اس کے ساری زندگی احسان مند رہتے ہے تو اس ہستی کے ہم شُکر گزار اور احسان مند کیوں نہ ہوں اور اس سے محبت کیوں نہ کی جائے جس کے ہم پر بے شمار احسانات ہے ہمارا وجود اس کا ثبوت ہے۔ اﷲ تعالی نے ہمیں صرف خلق ہی نہیں بل کہ ہماری اچھی زندگی کی راہ نمائی کے لیے اپنے محبوب ﷺ کو بھی مبعوث فرمایا، ہمیں اپنے محبوب ﷺ کا امّتی ہونے کا اعزاز بھی بخشا جو اس کی سب سے بڑی نعمت ہے۔

قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ اور اگر تم اﷲ کے احسانات کو گننا چاہو بھی تو تم نہیں گن سکو گے۔

محبت کو دیکھا جائے تو وہ دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک محبت حسی و جبلّی ہوتی ہے۔ جیسے ماں کو اپنے بچے سے ہوتی ہے اور ایسی محبت جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے اور ایک محبت عقل کی بنیاد پر ہوتی ہے جو انسان کے ساتھ خاص ہوتی ہے جو عقل کی راہ نمائی کرتی ہے۔ مومن کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اﷲ تعالی اور اس کے حبیب ﷺ کی ذات سے محبّت ہونی چاہیے ۔ ارشاد ربانی کا مفہوم ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لائے وہ سب سے زیادہ اﷲ سے محبت رکھتے ہیں اور خاتم الاانبیاء رسول کریمؐ سے محبت اور آپؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔

اﷲ نے ہم پر بے شمار احسانات کیے ہیں، جن کا شمار ناممکن ہے، مگر کچھ احسانات وہ ہیں جن کو دیکھ کر ہمیں محسوس ہوگا کہ اﷲ سے سب سے زیادہ محبت کیوں کی جائے۔ غور کیجیے! اس نے ہمیں زندگی جیسی انمول نعمت عطا کی، ہمیں عقل و شعور عطا کیا جو ہمیں دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔

زندگی کے ساتھ اس زمین میں رہنے کے تمام اسباب عطا کیے، خلافت ارضی عطا کی، ہماری راہ نمائی کے لیے انبیائے کرامؑ اور پیغمبر اور رسول بھیجے، ہم پر اپنے پیارے حبیب ﷺ کے ذریعے اپنی آسمانی کتاب قرآن حکیم بھیجی جو ناصرف دنیا میں ہماری راہ نمائی کرے گی بل کہ آخرت میں بھی ہماری شفاعت کا ذریعہ بنے گی۔ اﷲ تعالی ہی مشکلات میں ہماری مدد کرتا ہے، ہماری فریاد سنتا ہے اور ہمیں بے سہارا نہیں چھوڑتا، وہ ہمارے حق میں بہت مہربان اور سدا رحم کرنے والا، معاف کرنے والا، ہمارے گناہوں پر پردہ پوشی کرنے والا اور ہماری توبہ قبول کرنے والا ہے۔

ان احسانات کا تقاضا ہے کہ ہم بھی اﷲ اور اس کے حبیب کریم ﷺ سے محبت کریں، اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر زندگی گزاریں، اس کی بندگی کے حقوق کو ادا کریں۔ اﷲ تعالیٰ کی محبت کے کچھ طریقے و تقاضے ہیں ایسی چیزیں جو اس کو ناپسند ہے اسے نہیں کرنا چاہیے جو اسے پسند ہے اس پر عمل کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہم اس کی محبت کے مستحق بن سکتے ہیں اور دنیا کے ساتھ ہماری عاقبت بھی سنور سکتی ہے۔

یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ جس سے محبت کی جاتی ہے اس کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اﷲ کی محبت کا یہ تقاضا ہے جو چیز اسے ناپسند ہے اسے نہیں اختیار کرنا چاہیے، جو پسند ہے اسے اختیار کرنا چاہیے۔

اﷲ کو جو چیزیں ناپسند ہے ان میں سے چند یہ ہیں کہ ہمیں صرف اﷲ ہی کی عبادت کرنی چاہیے، کسی بھی حالت میں شرک نہیں کرنا چاہیے اور ہر قسم کے شرک سے بچنا چاہیے کیوں کہ شرک ایک ایسا عمل ہے جو اﷲ کو انتہائی ناپسند ہے۔

اﷲ کی محبت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے، اس کی ہمیں قرآن سے بہتر راہ نمائی ملتی ہے۔ اﷲ پاک نے ارشاد فرمایا، مفہوم:

بے شک! اﷲ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

بے شک! اﷲ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

بے شک! اﷲ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

بے شک! اﷲ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

اور کچھ اخلاق ایسے ہیں جو اﷲ تعالیٰ پسند نہیں کرتا جیسے کہ

بے شک! اﷲ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

بے شک! اﷲ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

بے شک! اﷲ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

مختصراً ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں وہ اخلاق اپنانے چاہییں کہ جس سے ہم اﷲ کی محبت کے مستحق بن سکتے ہیں، جیسے اﷲ پسند فرماتا ہے انہیں اختیار کرنا چاہیے اور ان اخلاق کو ترک کرنا چاہیے جو اﷲ کو ناپسند ہیں اس طرح ہم اﷲ کی محبت حاصل کرسکتے ہے۔ ایک مومن ہونے کی حیثیت ہمیں ان تمام احکامات پر عمل کرنا چاہیے جس کا حکم اﷲ تعالی نے دیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے جیسا امت کو اپنے قول و فعل سے بتایا ہے۔ ہم دنیا کی عارضی محبت کی خاطر وہ کام کرتے ہیں جو آخرت میں ہماری پکڑ کا سبب بن کر ہماری عاقبت خراب کرسکتے ہیں۔ کیا یہ انتہائی نقصان اور خسارے کی بات نہیں ہے ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔