بھارت سے سستی بجلی بنانا سیکھئے

سید عاصم محمود  اتوار 28 فروری 2021
پڑوسی حکمران قابل تجدید ذرائع توانائی کی مدد سے کم قیمت بجلی بنا کر ملک وقوم کو ترقی وخوشحالی کے راستے پہ گامزن کر چکے۔

پڑوسی حکمران قابل تجدید ذرائع توانائی کی مدد سے کم قیمت بجلی بنا کر ملک وقوم کو ترقی وخوشحالی کے راستے پہ گامزن کر چکے۔

ماہ جنوری میں حکومت پاکستان نے بجلی کی قیمت میں فی یونٹ تقریباً دو روپے اضافہ کر دیا۔اس سے قبل تیل اور گیس کی قیمتیں بھی وقتاً فوقتاً بڑھائی جا چکیں۔

حکومت کا دعوی ہے کہ تیل وگیس کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لہذا یہ اضافہ عوام کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ تمام ذرائع توانائی کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی بڑھتی ہے کیونکہ عام استعمال کی ہر شے کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔گویا قیمتیں بڑھنے سے آخرکار عوام پہ ہی مالی بوجھ پڑتا ہے جو پہلے ہی منگائی کے ہاتھوں پریشان اور بدحال ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ذرائع توانائی کی قیمت میں اضافے کے شیطانی چکر سے عوام کو کیونکر نجات دلائی جائے؟کیونکہ قیمتوں میں مسلسل بڑھوتری نے عوام میں بے چینی اور گھبراہٹ پھیلا دی ہے۔

آنے والی نسلوں کی بہتری
ایک حل یہ ہے کہ ’’قابل تجدید ذرائع توانائی‘‘(renewable energy)زیادہ اپنائے جائیں جن میں پانی،ہوا، دھوپ وغیرہ سے بجلی بنتی ہے۔بھارت کے حکمران طبقے نے یہی حل اختیار کیا اور آج ہمارا پڑوسی رکازی ایندھن(تیل،گیس ،کوئلہ)کی قیمتیں بڑھنے کے شیطانی چکر سے نجات پانے کے راستے پہ گامزن ہو چکا۔بھارتی حکمران طبقے کی روش بتاتی ہے کہ اس میں شامل سیاست داں،جرنیل،سرکاری افسر دوراندیش اور محب وطن ہیں۔وہ آنے والی نسلوں کی بہتری کا سوچتے اور ان کی بھلائی کے منصوبے بناتے ہیں۔

ان کی نظر محض ذاتی ووقتی مفادات پر نہیں ہوتی،وہ ملک وقوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے طویل المعیادی پلان تیار کرتے ہیں۔بھارتی حکمران طبقے کی خامیاں اپنی جگہ!وہ بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوںپہ جو مظالم ڈھا رہا ہے،ڈھکے چھپے نہیں۔ پاکستان کے لیے بھی مذموم عزائم رکھتا ہے۔لیکن بھارتی حکمرا ن جو عوام دوست اقدامات کر رہے ہیں،پاکستان کے حکمران طبقے کو ان سے سبق سیکھنا چاہیے۔مقصد یہ ہے کہ ویسے ہی منصوبے پاکستان میں بھی معرض وجود میں آ جائیں۔

اس وقت عالمی معیشت سے لے کر تہذیب وتمدن و معاشرت تک، انسانی دنیا کا پہیہ بجلی اور رکازی ایندھنوں نے رواں کر رکھا ہے۔ان ایندھنوں کا منفی پہلو یہ ہے کہ وہ اگلے تیس چالیس برس میں ختم ہو جائیں گے۔نیز جیسے جیسے ان کے ذخائر میں کمی آئے گی،ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔دوسرا بڑا نقصان یہ کہ وہ ماحول میں آلودگی پھیلاتے ہیں۔اس آلودگی سے انسانوں میں نت نئی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔یہی وجہ ہے، دنیا بھر میں حکومتیں قابل تجدید ذرائع توانائی اختیار کر رہی ہیں۔گویا مستقبل میں بجلی انسانی تہذیب وتمدن کو ترقی دینے اور چلانے کا بنیادی ذریعہ بن جائے گا۔اب وسیع پیمانے پر الیکٹرک گاڑیاں بھی بن رہی ہیں۔

ایک بہت بڑی تبدیلی
ماضی میں رواج تھا کہ جن ممالک میں دریا ہیں،ان پہ چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر بہتے پانی سے بجلی بنا لی جاتی۔یہ چلن اب بھی جاری ہے۔جن ملکوں میں دریا نہیں ،وہ بجلی گھروں میں کوئلہ، تیل یا گیس جلا کر بجلی بنانے لگے۔

دراصل تب ہوا اور دھوپ سے بجلی بنانا بہت مہنگا پڑتا تھا۔لیکن خصوصاً پچھلے دس سال سے سائنس وٹیکنالوجی میں جدتوں کی وجہ سے ہوا اور دھوپ سے بجلی بنانا خاصا سستا عمل بن چکا۔درحقیقت اب طویل المعیاد لحاظ سے ہوا اور دھوپ سے چلتے بجلی گھر تیل،کوئلے اور گیس جلاتے بجلی گھروں سے نسبتاً سستی بجلی پیدا کرنے لگے ہیں،خاص طور پہ اس وقت جب انھیں وسیع پیمانے پر لگایا جائے۔یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جو انسانی دنیا میں انقلاب لانے کا بوتا رکھتی ہے۔اس سے نہ صرف انسانیت کو مفت ذرائع توانائی سے مسلسل سستی بجلی میسر آئے گی جس سے عالمی معیشت کا پہیہ چلے گا بلکہ کرہ ارض کاخراب ہوتا ماحول بھی صاف ہو جائے گا۔انسانیت کے لیے یہ مثبت سرگرمی اپنانے میں بھارتی حکومت صف اول پہ استادہ ہے۔یہ قابل تحسین اور تقلید کے لائق فعل ہے۔

2010ء میں بھارت ہوا اور دھوپ سے صرف تین ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرتا تھا۔آج وہ ’’75‘‘ہزار میگاواٹ بجلی ان دونوں قابل تجدید ذرائع سے پیدا کر رہا ہے۔اس عدد کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ پاکستان میں کل بجلی ’’38‘‘ہزار میگاواٹ پیدا ہوسکتی ہے۔

بھارتی حکومت کی منصوبہ بندی ہے کہ اگلے دو سال میں ان دونوں ذرائع توانائی سے’’ ایک لاکھ سرسٹھ ہزار‘‘ میگاواٹ بجلی بنانے کا ہدف حاصل کیا جائے۔غرض پچھلے بارہ برس میں بھارتی حکومت نے مملکت کے طول وعرض میں ہوا اور دھوپ سے بجلی بنانے والے پلانٹ لگا کر انقلاب برپا کر دیا۔خاص بات یہ کہ یہ بجلی مہنگی نہیں بلکہ مسلسل سستی ہو رہی ہے۔حال ہی میں مودی جنتا نے ریاست گجرات میں شمسی توانائی سے چلنے والا500 میگا واٹ کا بجلی گھر لگایا ہے۔اس میں فی یونٹ بجلی صرف ’’1.90‘‘روپے میں تیار ہو گی۔گویا بھارت میں دھوپ سے بنی بجلی کی لاگت ڈیموں میںبہتے پانی سے بنتی بجلی کی لاگت سے بھی کم ہو چکی جو وہاں دو روپے سے زیادہ ہے۔

سستی بجلی کے فوائد
بھارتی حکومت مزید براں ماہانہ دو سو یونٹ استعمال کرنے والوں پہ ٹیکس بھی کم عائد کرتی ہے۔اسی لیے بیشتر بھارتی ریاستوں میں دو سو یونٹ تک بجلی کی قیمتیں پاکستان کی نسبت خاصی کم ہیں۔مثال کے طور پہ دہلی حکومت اپنے شہریوں سے صرف تین روپے فی یونٹ لیتی ہے۔ریاست گوا میں 2.25روپے لیے جاتے ہیں یعنی وہاں بجلی مذید سستی ہے۔ریاست ہماچل پردیش تین سو یونٹ تک بجلی کی قیمت فی یونٹ 2.95روپے لیتی ہے۔جیسا کہ بتایا گیا ،بجلی کے بل میں ٹیکسوں کی بھرمار نہیں ہوتی۔شہریوں سے بس ایک دو ٹیکس لیے جاتے ہیں اور ان کی شرح بھی معمولی ہے۔صنعتوں کو بھی سستی بجلی دستیاب ہے۔اسی باعث بھارتی کارخانوں میں بنی سستی اشیا دنیا بھر میں بک رہی ہیں اور بھارت سالانہ اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کمانے لگا ہے۔پاکستان میں پہلے ہی فی یونٹ بجلی کے ریٹ زیادہ ہیں۔اوپرسے ٹیکسوں کی بھرمار بل کو تقریباً دوگنا کر دیتی ہے۔بھارت میں تین سو یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے بھی فی یونٹ ریٹ چھ سے دس روپے کے مابین ہے۔

آج بھارت بجلی پیدا اور استعمال کرنے والا (چین اور امریکا کے بعد)دنیاکا تیسرا بڑا ملک بن چکا۔ایک اہم وجہ تو آبادی کا زیادہ ہونا ہے جو ایک ارب تیس کروڑ تک پہنچ چکی۔دوسری اہم وجہ یہ کہ وہاں بجلی سستی ہونے سے مانگ بھی بڑھ گئی۔بھارت میں فی الوقت ’’تین لاکھ پچھتر ہزار‘‘میگاواٹ بجلی بنتی ہے۔اس میں سے دو لاکھ میگاواٹ بجلی(54فیصد)کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بناتے ہیں جو عالمی ماحول کے لیے خطرہ ہیں۔تقریباً ’’پچاس ہزار‘‘ میگاواٹ بجلی (13.3فیصد) ڈیموں میں پانی سے بنتی ہے۔ہوا سے بجلی بنانے والے ’’38‘‘ہزار میگاواٹ (10.2فیصد)بجلی بناتے ہیں۔شمسی توانائی کے پلانٹس میں ’’36‘‘ ہزار میگاواٹ سے زیادہ (9.7فیصد)بجلی بنتی ہے۔گیس سے چلنے والے بجلی گھر تقریباً ’’25‘‘ہزار میگاواٹ بجلی(6.7فیصد)بناتے ہیں۔سوا دس ہزار میگاواٹ بجلی (2.8فیصد)گوبر اور کوڑے کرکٹ سے بنتی ہے۔بقیہ بجلی ایٹمی بجلی گھر(1.8فیصد)اور تیل والے (0.1فیصد)بناتے ہیں۔

بھارت کا روشن مستقبل
بھارتی صنعت کار ،گوتم ایڈانی کی کمپنی،ایڈانی پاورزاس وقت شمسی توانائی سے بجلی بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن چکی۔اس کمپنی کے زیراہتمامبھارت میں چلنے والے شمسی بجلی گھر بارہ ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی بناتے ہیں۔گوتم ایڈانی کا وژن یہ ہے کہ وہ 2050ء تک اپنے ادارے کو قابل تجدید ذرائع توانائی سے بجلی بنانے والی دنیاکی سب سے بڑی کمپنی بنا دے۔پچھلے دنوں ایڈانی نے ایک عالمی کانفرنس میں بھارت کے معاشی مستقبل کے بارے میں پیشن گوئیاں کیں۔اس کی تقریر کے اہم مندرجات ملاحظہ فرمائیے۔:

’’میں سمجھتا ہوں کہ بھارت اس سمّے نہایت اہم اور ڈرامائی موڑ پر کھڑا ہے۔قدرت نے اسے ترقی کرنے اور خوشحال بننے کے بے پناہ مواقع دیئے ہیں۔اگر ہم نے ان سے فائدہ اٹھایا تو اگلے تین عشروں میں یعنی 2050ء تک بھارت سپرپاور بن جائے گا۔راستے میں بہت سی رکاوٹیں آئیں گی۔ہمیں ذہانت وتدبر سے انھیں دور کرنا ہو گا۔خصوصاً ہماری معیشت قدرتی و غیر قدرتی مسائل سے سست رو ہو سکتی ہے لیکن بھارتی قوم کو مواقع ملنے کا احساس ہونا چاہیے۔

’’مثال کے طور پہ ابھی دنیا کا جی پی ڈی 85ٹریلین ڈالر ہے۔اس میں بھارت کا حصہ2.8 ٹریلین ڈالر ہے۔ماہرین کے مطابق2050ء میں دنیا کا جی ڈی پی 170ٹرلین ڈالر ہو گا۔ہم نے بھرپور ترقی کی تو تب بھارت کا جی ڈی پی 28ڈالر پہنچ جائے گا۔گویا بھارت عالمی معیشت کی تعمیر وترقی میں 15فیصد حصہ ڈالے گا۔

’’مجھے یقین ہے، 2050 ء تک بھارت سپرپاور ہو گا۔بھارتی حکومت پورا حکومتی ڈھانچہ بدلنے کی خاطر جامع اصلاحات کر رہی ہے۔اس طرح بھارت ان مسائل اور خرابیوں سے نجات پائے گا جو معاشی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔رکاوٹوں کے خاتمے سے ہماری معاشی ترقی کی رفتار تیز ہو گی۔

’’ 2050 ء میں بھارت کی آبادی ایک ارب ساٹھ کروڑ پہنچ سکتی ہے۔تب دنیا بھر میں پائے جانے والے میں متوسط طبقے کے تین صارفین میں سے ایک بھارتی ہو گا۔گویا بھارت سب سے بڑا متوسط طبقہ رکھے گا۔یہ طبقہ عالمی سطح پر صنعت وتجارت اور کاروبار کو فروغ دے گا۔انسانی تاریخ میں پہلے کسی قوم نے اتنا بڑا متوسط طبقہ تخلیق نہیں کیا۔2050ء میں صرف بھارتی متوسط طبقہ سالانہ 108ٹریلین ڈالر کی مصنوعات استعمال کرے گا۔تب دنیا کی ہر کمپنی بھارت میں سرمایہ لگائے گی۔کوئی بھی بھارت سے غیرمتعلق ہو کر پنپ نہیں سکے گی۔

’’دنیا بھر کے سرمایہ کار بھارت سٹاک مارکیٹ میں پیسا ڈالیں گے۔ ہماری مارکیٹ کا انڈکس بڑھے گا۔ 2050ء تک وہ ’’چھ لاکھ‘‘ تک پہنچ سکتا ہے۔ ہماری سٹاک مارکیٹ میں کل سرمایہ کئی ٹریلین ڈالر ہو گا۔اگلے تین عشروں کے دوران ہی ایسی کئی بھارتی کمپنیاں وجود میں آئیں گی جن میں ہر ایک کی مالیت ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہو گی۔

’’حاضرین کرام،صنعتی انقلاب کا آغاز 1760ء میں ہوا تھا۔تب سے ہر قوم کی معیشت کو ذرائع توانائی ہی آکسیجن دے رہے ہیں۔آج ہر ملک کے لیے توانائی زندگی بخش اور لائف لائن ہے۔دور جدید میں کمپیوٹر ٹکنالوجی اور کمیونکیشن ٹکنالوجی بہت اہمیت اختیار کر چکیں۔یہ دونوں معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ کرتی ہیں اوران کا دارومدار توانائی پہ ہے۔انھیں اپنا کر ہر قوم اپنی صنعت وتجارت اور کاروبار میں انقلاب لا سکتی ہے۔ہم بھارتیوں کو توانائی،کمپیوٹر اور کیمونکیشن ٹکنالوجیوں میں تحقیق و تجربے کرنا ہوں گے تاکہ انھیں جدید تر بنا سکیں۔دنیا بھر میں سائنس داں ان میں جدتیں لا رہے ہیں۔

’’میں سمجھتا ہوں،بھارتی قوم نے درج بالا ٹکنالوجیوں پہ دسترس پا لی ،ان میں طاق ہو گئے تو کوئی بھارت کو معاشی وعسکری سپرپاور بننے سے نہیں روک سکتا۔یہی ہنرمندی کروڑوں بھارتیوں کو غربت،جہالت اور بیماری سے نجات دلائے گی۔یہی نہیں ،وہ متوسط طبقے میں شامل ہوں گے۔ان کی وجہ سے نئی صنعتیں لگیں گی اور کاروبار بڑھے گا۔یوں معاشی ترقی کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔

’’قابل تجدید ذرائع توانائی سستا کرنے کے لیے دنیا بھر میں سائنس داں تحقیق و تجربے کر رہے ہیں۔پچھلے دس برس سے انھیں اہم کامیابیاں ملی ہیں۔مقصد یہ ہے سستے آلات اور سستی ٹیکنالوجیوں تخلیق پائیں۔ اسی لیے ان ذرائع سے بنی بجلی کی لاگت مسلسل کم ہو رہی ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے ازحد مسّرت ہے،پوری دنیا میں بھارت ہی میں ہوا، دھوپ، پانی اور سمندری لہروں سے بجلی بنانے والے پلانٹ لگ رہے ہیں۔بھارت آج قابل تجدید ذرائع توانائی کے شعبے میں عالمی لیڈر بن چکا۔چناں چہ مستقبل میں ہمارے ہاں بجلی مزید سستی ہو گی۔

’’ہمیں ہوا ،دھوپ ،پانی اور سمندر مفت دستیاب ہیں۔ان قدرتی ذرائع سے ہم لامحدود بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔زیادہ بجلی بنانے سے ہمیں تیل و گیس خریدنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔یوں ہم ان پہ خرچنے والے اربوں ڈالر بچا سکیں گے۔نیز ماحول خراب کرنے والے کوئلے کے بجلی گھروں سے بھی نجات پا لیں گے۔

’’یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت میں براڈ بینڈ سروسسز اور موبائل فون دنیا بھر میں سب سے زیادہ سستے ہیں۔پچھلے پانچ برس میں انٹرنیٹ ڈیٹا کی قیمت بہت کم ہو چکی۔اسی لیے اب کروڑوں بھارتی انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔وہ اکثراوقات آن لائن رہتے ہیں۔ چناں چہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے فروغ اور سستی بجلی ملنے سے ایک عام بھارتی کو ترقی کرنے کے بہترین مواقع ملنے لگے۔

’’سستی بجلی اور کمپیوٹر ٹکنالوجی کے ملاپ کو معمولی مت سمجھئے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں آج مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ، فائیو جی،ا نٹرنیٹ آف تھنگس، کلائوڈ انفراسٹرکچر ،سینسر یعنی جنم لیتی سبھی اہم و نئی ٹیکنالوجیاں شامل ہیں۔اگر عام بھارتی باشندوں تک یہ سبھی ٹیکنالوجیوں پہنچ گئیں تو وہ مل کر بھارت کو نہایت مضبوط ومستحکم معاشی وسائنسی طاقت میں تبدیل کر دیں گی۔‘‘

دنیا کا سب سے بڑا شمسی وہوائی بجلی گھر
بھارتی ضلع کچھ کے علاقے میں پاکستانی سرحد کے نزدیک خادوا نامی گائوں واقع ہے۔حالیہ دسمبر میں بھارتی وزیراعظم مودی نے وہیں دنیا کے سب سے بڑے شمسی وہوائی بجلی گھر بنانے کا سنگ بنیاد رکھا ۔اپنی تکمیل کے بعد یہ بجلی گھر ’’30ہزار میگا واٹ‘‘بجلی پیدا کرے گا۔یہ بجلی گھر پاکستانی شہر،ڈپلو کے نزدیک واقع ہے۔اس کی تعمیر کے لیے بھارتی فوج نے 72,600ہیکٹر زمین حکومت کو تحفے میں دی۔بھارتی وزارت توانائی نے وزیراعظم مودی کو بتایا تھا کہ رن کچہ میں لاکھوں ہیکٹر رقبہ ویران پڑا ہے۔

لہذا وہاں ہوا اور دھوپ سے بجلی بنانے والے پلانٹ لگ سکتے ہیں۔پاکستانی سرحد کے بہت نزدیک ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ کافی حساس تھا۔تاہم مودی کی کوششوں سے زمین آخر فوج نے وزارت کو عطیہ کر دی۔اب 49,600ہیکٹر رقبے پر ہوا اور شمسی توانائی کے بجلی گھر لگیں گے۔جبکہ 23ہزار ہیکٹر رقبے پہ صرف ہوائی چکیاں نصب ہوں گی۔یہ منصوبہ پاکستانی سرحد سے صرف چھ کلومیٹر دور ہے۔تین سے پانچ سال میں مکمل ہو گا۔

بجلی کی قیمت کیوں بڑھ رہی ہے؟
وطن عزیز کے ماہر معاشیات اور سابق وزیر خزانہ،مفتاح اسماعیل نے بجلی کی بڑھتی قیمت کی وجوہ اپنی ٹوٹیس کے ذریعے اجاگر کیں۔ان کا ترجمہ پیش خدمت ہے جو معاملے کا ایک رخ سامنے لاتا ہے:

پی ٹی آئی حکومت نے ماہ جنوری میں بجلی کی بیسک(بنیادی)قیمت میں1.95روپے فی یونٹ کا اضافہ کیا۔ماہ فروری میں سرکاری ادارے،نیپرا نے فیول ایڈجسمنٹ 1.53روپے فی یونٹ اور 0.83پیسے سہہ ماہی ایڈجسمنٹ کی مد میں بلوں میں شامل کیے۔گویا ہر پاکستانی کا ماہ فروری کا بل 4.31روپے فی یونٹ بڑھ گیا۔یہ ہے بلوں میں آنے والی تبدیلی!مگر حکومت قیمت میں اضافے کا ذمے دار ن لیگی حکومت کو قرار دیتی ہے۔وہ اپنی غلطیاں تسلیم نہیں کرتی۔مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل بجلی کا ملک گیر بریک ڈائون ہوا تو وزیر توانائی نے کہا،انھیں وجہ معلوم نہیں۔ اب انکشاف ہوا ہے کہ وزارت توانائی کے آئن سٹائن پچھلے موسم گرما میں سسٹم کی معمول کی دیکھ بھال کرنا بھول گئے تھے۔مگر انھیں ن لیگی حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ کرنا یاد رہتا ہے۔

پی ٹی آئی حکومت کا دعوی ہے کہ ن لیگی گورنمنٹ نے اپنے دور میں جو بجلی گھر لگائے،ان کا فکسڈ ریٹ زیادہ ہے۔اسی لیے بجلی کی قیمت اب بڑھ رہی ہے۔مگر یہ بات درست نہیں۔مشرف دور حکومت میں فرنس آئل سے چلنے والے جو بجلی گھر لگے ،ان کا فکسڈ ریٹ دو روپے فی یونٹ تھا۔جبکہ ایندھن کی قیمت تیرہ روپے فی یونٹ تھی۔ہم نے ایل این جی سے چلنے والے جو بجلی گھر لگائے، ان میں فی یونٹ فکسڈ ریٹ چار روپے تھا جبکہ ایندھن کی قیمت چھ روپے فی یونٹ تھی۔گویا ہم نے پانچ روپے کی بچت کی۔پھر یہ ایل این جی بجلی گھر پاکستانی حکومت کی ملکیت ہیں لہذا پیسا باہر نہیں جاتا۔ن لیگی حکومت کے لگائے کوئلے کے بجلی گھروں میں بھی بجلی نو دس روپے فی یونٹ بنتی ہے۔

درج بالا حقائق سے واضح ہے کہ بجلی کی قیمت دس روپے کے آس پاس ہے۔لیکن موجود حکومت صنعتوں کو 20.73روپے میں فی یونٹ بجلی دے رہی ہے۔کمرشل کا ریٹ 23.55روپے فی یونٹ ہے۔جبکہ پانچ سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والے شہری 22.65روپے فی یونٹ کے حساب سے ادائیگی کرتے ہیں۔جب حکومت اتنا زیادہ کما رہی ہے تو پھر گردشی قرضے میں اضافہ کیوں ہوا؟اور حکومت بجلی کی قیمت کیوں مسلسل بڑھا رہی ہے؟اس معاملے کی پانچ اہم وجوہ ہیں:

٭…پاکستان میں 88فیصد شہری بل دیتے ہیں۔بقیہ 12فیصد کے بل عوام کو دینے پڑتے ہیں۔ن لیگی دور میں 93فیصد آبادی بل دینے لگی تھی۔اب وہ 87فیصد دیتی ہے۔
٭…ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نقصانات سے بجلی ضائع جاتی ہے۔یہ شرح اب 19فیصد پہنچ چکی۔ن لیگی حکومت اسے 18فیصد پر لے آئی تھی۔
٭…ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت اچانک اور بہت زیادہ گھٹانے سے آئی پی پیز کو دی گئی رقومات میں اضافہ ہو گیا ۔کیونکہ ان کو ادائیگی ڈالر میں ہوتی ہے۔اور اسی لیے گردشی قرضے میں بھی اضافہ ہوا۔
٭…پی ٹی آئی حکومت نے پچھلے سال ایل این جی بہت مہنگی خریدی۔اگر حکومت بھارت اور بنگلہ دیش کی طرح بر وقت یہ گیس خرید لیتی تو ہم اربوں روپے بچا لیتے۔
٭…حکومت کا یہ عقل دنگ کر دینے والا فیصلہ کہ بجلی فرنس آئل سے بھی بنائی جائے۔فرنس آئل اور ڈیزل مہنگے ترین ذرائع ایندھن ہیں۔حتی کہ سعودی عرب بھی ان سے بجلی نہیں بناتا۔مگر پاکستان میں آئی پی پیز کو فرنس آئل سے بجلی بنانے کی اجازت دے دی گئی۔اس لیے بھی بجلی کی قیمت بڑھی۔

پاکستان کا نظام ِبجلی
درست کہ 1947ء کی نسبت آج لاکھوں پاکستانی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے حکمران طبقہ مملکت کو ترقی یافتہ نہیں بنا سکا۔اس ملک کے لوگ تو امیر ہیں مگر حکومت غریب…یہ خرابی حکمران طبقے کی پیدا کردہ ہی ہے۔مثلاً بجلی کے نظام کو لیجیے۔دور جدید میں بجلی وتیل معاشی ترقی کے پہیے بن چکے مگر ہمارے حکمران طبقے نے ان پہیوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے۔دور اندیشی اور جذبہ حب الوطنی سے کام نہیں لیا۔اس باعث وطن عزیز میں نظام ِبجلی برے حال میں ہے۔

پاکستان میں پڑوسیوں کی نسبت بجلی ’’30فیصد‘‘زیادہ مہنگی ہے۔اور یہ مزید مہنگی ہو رہی ہے۔اس لیے پاکستان میں اشیا کی لاگت پر زیادہ خرچ آتا ہے اور عالمی مارکیٹ میں مہنگی ہونے پہ ان کا خریدار نہیں ملتا۔یوں قومی صنعتی وتجارتی پیداوار گھٹ گئی جس سے بیروزگاری جنم لیتی ہے۔گویا بجلی سستی ہو جائے تو صنعت وتجارت اور کاروبار کو بڑھوتری ملے گی۔اس سے روزگار میں اضافہ ہو گا اور عوام کے مالی مسائل کم ہوں گے۔سستی بجلی کے ان بیش بہا فوائد کے باوجود غریبوں کی ہمدرد کہلانے والی پی ٹی آئی حکومت نے بھی اسے سستا کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔الٹا آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے چکر میں بجلی،تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھا دی گئیں۔کیا یہ روش غریب دوست ہے؟

یہ درست ہے کہ لوڈ شیڈنگ خاصی کم ہو چکی(البتہ اہل کراچی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے)مگر بجلی کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔یہ عمل پاکستان میں مہنگائی بڑھا رہا ہے۔بجلی کی قیمت گھٹانے کا ایک طریق وہ ہے جو بھارتی حکمران اختیار کر چکے ۔وہ قابل تجدید ذرائع توانائی کی طرف پوری طرح متوجہ ہیں۔ان سے فائدہ اٹھانے کے سبب بھارت میں بجلی کی قیمت کم ہو رہی ہے۔لیکن ہمارا حکمران طبقہ اب بھی مہنگے فرنس آئل ،گیس،تیل اور آلودگی پیدا کرنے والے کوئلے سے بجلی بنانا چاہتا ہے۔

اعداد وشمار کی رو سے پاکستان سالانہ 37 سے 38 ہزار میگاواٹ بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔موسم سرما میں بجلی کی طلب کم ہوتی ہے اور گرما میں زیادہ۔سرکاری رپورٹ کے مطابق دسمبر2020ء میں 29.15فیصد بجلی کوئلے،22.70 فیصد پانی(آبی)،15.37فیصد قدرتی گیس، 13.88 فیصد ایل این جی گیس،8.67فیصد ایٹمی پروسیس،3.73فیصد فرنس آئل،2.79فیصد ہوا اور0.63 فیصد دھوپ سے پیدا ہوئی۔گرما میں زائد بجلی ایل این جی ،کوئلہ اورفرنس آئل جلا کر بنائی جاتی ہے۔فرنس آئل سے بننے والا بجلی کا یونٹ سب سے مہنگا ہے۔وہ قوم کو 12.27 روپے میں پڑتا ہے۔آبی بجلی کی فی یونٹ لاگت تقریباً چار روپے ہے۔کوئلے کی بجلی6.34روپے، ایل این جی کی 7.58روپے اور قدرتی گیس کی 7.58روپے فی یونٹ پڑتی ہے۔ہم ایران سے بھی فی یونٹ9روپے پہ بجلی خرید رہے ہیں۔

بھارت میں شمسی توانائی اور ہوا سے چلنے والے نئے بجلی گھروں میں بجلی فی یونٹ تقریباً دو روپے سے بن رہی ہے۔اگر پاکستان میں یہ قیمت چارروپے فی یونٹ بھی پہنچ جائے تو یہ ڈیموں میں بنی بجلی کی لاگت کے برابر ہو گی۔گویا عقل سلیم یہ کہتی ہے کہ اب پاکستانی حکومت کو قابل تجدید ذرائع توانائی سے بجلی بنانا چاہیے۔وہ نہ صرف ماحول دوست بلکہ سستی بھی ہے۔مگر ہمارا حکمران طبقہ حسب معمول خواب غفلت میں مبتلا ہے۔یہی نہیں اپنے مالی مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر بیوروکریسی قابل تجدید ذرائع توانائی کے بجلی گھرلگانے میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔

دی پاکستان فارن انویسٹرز فورم (The Pakistan Foreign Investors Forum)بیرون ملک مقیم پاکستانی سرمایہ کاروں کی ایک تنظیم ہے۔یہ تنظیم پاکستان میں شمسی توانائی اور ہوا کے بجلی گھر لگانا چاہتی ہے جن میں چھ روپے سے بھی کم قیمت پر فی یونٹ بجلی بن سکے گی۔اخباری رپورٹ کی رو سے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا،وزارت توانائی نے تنظیم کو درج بالا بجلی گھر لگانے کے لے اجازت نامہ جاری نہیں کیا۔اس دوران وزارت توانائی نے دسمبر 2020ء میں مہنگے ذریعہ توانائی،فرنس آئل سے نجی بجلی گھروں کو بجلی بنانے کی اجازت دے دی۔

یہ ملک وقوم کے ساتھ کیسا مذاق ہو رہا ہے؟اعداد وشمار کے مطابق نومبر2020ء میںفرنس آئل سے 27.77گیگاواٹ ہاور بجلی(کل بجلی کا 0.35فیصد)بنی تھی۔دسمبر2020ء میں فرنس آئل سے 293.92گیگاواٹ ہاور بجلی(کل بجلی کا 3.73فیصد)بنائی گئی،حالانکہ اب تو بچہ بچہ بھی جان گیا کہ فرنس آئل سے مہنگی ترین بجلی بنتی ہے۔آخر حکمران طبقہ اور بیوروکریسی پاکستانی قوم کے ساتھ کس قسم کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے؟زخموں پر نمک یہ حقیقت چھڑکتی ہے کہ ماہرین کی رو سے پاکستان میں ہوا اور دھوپ کے ذریعے کم از کم ’’ایک لاکھ میگاواٹ‘‘ بجلی بن سکتی ہے۔

1994ء سے پاکستان میں 60سے 70فیصد بجلی غیر سرکاری بجلی گھر (independent power producers )المعروف بہ آئی پی پیز (IPPs)تیار کررہے ہیں۔ان نجی بجلی گھروں سے جتنے بھی معاہدے کیے گئے،ان سے پاکستانی حکومت کو نقصان ہی ہوا۔حکمران طبقے پر الزام لگتا ہے کہ اس نے کمپنیوں سے کمیشن(رشوت)لے کر انھیں مراعات دے ڈالیں۔ان مراعات کے ذریعے کمپنیوں کو پچھلے پچیس برس کے دوران کھربوں روپے کی کمائی ہو چکی۔

ان معاہدوں کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ اب پاکستانی حکومت نے آئی پی پیز کو دو ہزار تین سو ارب روپے کی خطیر رقم ادا کرنی ہے۔حکومت پہ واجب یہ رقم عرف عام میں گردشی قرضہ(Circular debt) کہلاتی ہے۔بجلی ،تیل اور گیس کی قیمتیں اس لیے بھی بڑھائی جاتی ہیں کہ حکومت عوام کی جیبوں سے مذید اربوں روپے نکلوا کر اپنے اوپر چڑھا گردشی قرضہ اتار سکے۔یہ قرضہ2008ء میں صرف چار سو ارب روپے تھا مگر حکمران طبقے کی نااہلی اور کرپشن کے باعث مسلسل بڑھتا چلا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔