موسیقی ’’راگ‘‘ سے ’’روگ‘‘ تک

 راؤ محمد شاہد اقبال  اتوار 28 فروری 2021
’’روح کی غذا‘‘ کے وہ منفی پہلو جو موسیقی کے شائقین پر اثرانداز ہوتے ہیں

’’روح کی غذا‘‘ کے وہ منفی پہلو جو موسیقی کے شائقین پر اثرانداز ہوتے ہیں

تاریخ انسانی میں موسیقی کے متعلق سب سے بہترین جملہ جو اَب تک کہا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ’’موسیقی روح کی غذاہے۔‘‘

اَب اس جملہ میں صداقت کتنی ہے اورمبالغہ آمیز اجزاء کی مقدار کتنی شامل ہے۔ اس کا حتمی فیصلہ تو ہم اس لیے بھی نہیں کرسکتے کہ روحوں سے ملاقات کی خواہش کبھی ہم نے کی نہیں اور نہ ہی اُن کی جانب سے کبھی کوئی سلسلہ جنبانی ہمارے ساتھ دراز ہوا ہے۔

لہٰذا روح کے کام و دہن کی لذتوں کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے۔ ہاں! موسیقی انسانی جسم پر کس قسم کے مثبت و منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ یقیناً سائنس کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کی ایک مختصر کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے اور زیرنظر مضمون میں موسیقی کے انسان کے احساسات، جذبات، معمولات اور کیفیات پر پڑنے والے غیرمعمولی اثرات کا اجمالی سا جائزہ سائنسی تحقیقات اور مطالعات کے تناظر میں پیش خدمت ہے۔

بلند آواز موسیقی اور ہمارے بجتے کان
موسیقی چاہے کتنے بھی ہلکے سُروں کی کیوں نہ ہو لیکن اگر آپ اُسے اپنے ایکو ساؤنڈ سسٹم پر تیز آواز پر بجانا شروع کردیں گے تو وہ سننے والوں کی سماعت پر بہت بھاری یعنی ہتھوڑا بن کر بھی برس سکتی ہے۔ ویسے تو ہر زمانے کے نوجوانوں نے ہمیشہ سے ہی موسیقی سننے کے لیے اونچی آواز کو ہی ترجیح دی ہے، لیکن آج کل نت نئے جدید ترین آلاتِ موسیقی کی دست یابی کے باعث تیز آواز موسیقی سے انسانی سماعت کو مستقل اور سنگین نقصان پہنچنا ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ آسان اور سہل ہوگیا ہے۔

کینیڈا میں میک ماسٹر کے شعبے میں نفسیات کے تحت نیوروسائنس پر کی جانے ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نوعمر افراد میں سماعت کی خرابی کے زیادہ تر امراض بلند آواز میں موسیقی سننے کے باعث پیدا ہورہے ہیں۔ اس تحقیقی مطالعے میں 170 بچوں کو زیرمشاہدہ رکھا گیا تھا، جن میں سے کچھ کو مخصوص عرصے تک باقاعدگی کے ساتھ ہلکی آواز اور چند کو بلند آواز میں موسیقی سنانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ نتائج کے مطابق جن بچوں کو بلند آواز کی موسیقی کے گروپ میں شامل کیا گیا ، اُن میں اکثر کو ’’ٹنائٹس‘‘ کی علامات کا سامنا کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ ’’ٹنائٹس‘‘ سماعت کا ایک ایسا مرض ہے، جس کی علامت ایک کان میں عارضی یا مستقل طور پر سننی خیز آواز کا بجنا ہے اور یہ عموماً 50 سال سے زائد بالغ افراد میں ظاہر ہوتا ہے۔

اگرچہ ’’ٹنائٹس‘‘ کی علامات عارضی بھی ہوسکتی ہیں (مثلاً! کسی خاص طور پر تیز محافل موسیقی کے بعد) کان میں کسی شئے کے بجنے کا احساس پیدا ہونا، جیسا کہ دورانِ مطالعہ بچوں نے بتایا ہے کہ تیز موسیقی سننے کے بعد اُن کے کان بجتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بچوں کے جس گروپ کو ہلکی آواز میں یا بالکل بھی موسیقی سنائی نہیں گئی تھی، اُن کی جانب سے دورانِ تحقیق کان بجنے کی ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ اس تحقیق کے مصنف، لیری رابرٹس(Larry Roberts) نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ ’’اگر وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے عمررسیدگی سے قبل سماعت کے مسائل کا شکار نہ ہوں تو پھر یقینی بنائیں کہ آپ کے بچے بلند آواز میں موسیقی نہ سُن سکیں۔‘‘ نیز کانوں پر ہیڈفونز لگا کر موسیقی سننے کے بھی بہت بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ماہرین علم سماعت (Audiologists) قوتِ سماعت کے نقصان کا براہ راست ذمے دار ہیڈ فونز کو ٹھہراتے ہیں۔ نیز اونچی آواز میں موسیقی کو کسی بھی ذریعے سے لگاتار سننے سے انسان کی سننے کی صلاحیت مستقل طور پر ناکارہ ہو سکتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ موسیقی اونچی آواز میں سننے کے بُرے اثرات صرف کانوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ اونچی آوازوں کے غیرسمعی (Non-auditory) اثرات بھی ہوتے ہیں جو قوتِ سماعت کو متاثر نہ بھی کریں لیکن انسانی جسم کو دیگر عوارض کا شکار بنا سکتے ہیں۔ مثلاً بلڈپریشر کا بڑھ جانا، بے خوابی، سانس لینے میں دقّت، دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا اور خون کی شریانوں کا سکڑنا وغیرہ ایسے اثرات ہیں جو اونچی آواز میں موسیقی کو سننے سے پیدا ہوسکتے ہیں۔

دُکھی موسیقی کے ہیں دُکھ ہزار
یہ تو یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ فِن لینڈ کے عوام دنیا بھر میں سب سے زیادہ موسیقی کے شیدائی یا رسیا ہیں لیکن اُن کے بارے میں ایک بات ضرور پورے تیقن کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ فن لینڈ کے محققین نے جتنی سائنسی مطالعے موسیقی کے نیک و بد اثرات جاننے کے بار ے میں کیے ہیں بلاشبہہ دنیا کے کسی اور ملک کے محققین اُس کا عشر عشیر بھی نہیں کرسکے۔ دراصل فن لینڈ کے سائنس داں انسانی دماغ پر موسیقی کے اثرات کو جاننے کے متعلق بہت زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں میں اُن کی جانب سے متعدد سائنسی مطالعات سامنے آچکے ہیں، جن میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ موسیقی کے ذریعے انسانی جذبات کو موثر انداز میں کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے فن لینڈ کے محققین کی جانب سے 2015 میں کیے جانے والے ایک مطالعے کا دنیا بھر میں بہت چرچا ہوا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ ’’اچھی موسیقی انسان میں نظم و ضبط کا سبب بنتی ہے۔‘‘

یاد رہے کہ اس تحقیق کے نتائج سامنے آنے کے بعد موسیقی کے ذریعے تھراپی کے منفرد کاروبار کو خوب رواج ملا اور کئی ممالک میں تو باقاعدہ موسیقی تھراپی کے لیے کلینک قائم کردیے گئے۔ حال ہی میں فن لینڈ کے سائنس دانوں کی جانب سے ایک تحقیقی مطالعہ سامنا آیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ’’غم گین موسیقی زیادہ سننے سے انسانی دماغ کی کارکردگی پر شدید نوعیت کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور دُکھی موسیقی صرف سننے والے کو افسردگی میں ہی مبتلا نہیں کرتی بلکہ کبھی کبھار خودکشی جیسے اقدام کی طرف بھی راغب کرسکتی ہے۔‘‘

اس تحقیق کے دوران بے شمار رضاکاروں کا معائنہ ایم آر آئی ٹیسٹنگ طرز کے جدید آلات سے کیا گیا تھا، جس میں انکشاف ہوا کہ دکھی موسیقی کے دوران سننے والے کے دماغ وہ حصے بہت زیادہ متحرک ہوجاتے ہیں، جو منفی افعال کے براہ راست ذمے دار ہوتے ہیں، جب کہ ذہن کے وہ گوشے جن کا بنیادی وظیفہ مثبت طرزفکر کو پروان چڑھانا ہوتا ہے، دکھی موسیقی مسلسل سماعت کیے جانے سے دماغ کے یہ گوشے غیرمتحرک اور خوابیدہ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے دکھی موسیقی سماعت کرنے والے افراد کو اپنی اردگرد کی دنیا انتہائی بے ثبات اور فضول محسوس ہوتی ہے اور اگر دُکھی موسیقی سماعت کرنے کی عادت حد سے تجاوز کرجائے تو زندگی کا اختتام خودکشی پر بھی منتج ہوسکتا ہے۔

موسیقی مطالعے میں خلل ڈالتی ہے
ہمارے بزرگ تو یہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’مطالعے کے لیے سب سے اچھا وقت طلوع آفتاب کے بعد کا ہوتا ہے، کیوںکہ دن کے ابتدائی لمحات میں ہر شئے پر مکمل خاموشی طاری ہوتی ہے۔ لہٰذا صبح کے اوقات میں کیا گیا مطالعہ یادداشت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے۔‘‘ مگر پھر دورِجدید آیا اور اپنے جلو میں نئی عادات لایا۔ سب سے پہلے مطالعے کے اوقات کار بدلے گئے، بعدازاں پس منظر میں ہلکی ہلکی موسیقی لگاکر مطالعہ کیا جانے لگا اور اَب تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ بعض نجی اسکولوں میں موسیقی کے ساتھ بچوں کو مطالعہ کروائے جانے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔

موسیقی کے ساتھ مطالعہ کرنا انسانی ذہانت کے لیے کس قدر نفع یا نقصان کا باعث ہے؟ اس متعلق یونیورسٹی آف ویلز کی ایک دل دہلا دینے والی سائنسی تحقیق سامنے آئی ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ موسیقی سنتے ہوئے مطالعہ کرنا سخت ضرر اور نقصان کا سبب ہے۔ اس تحقیقی مطالعے میں سیکڑوں افراد کو پانچ مختلف گروہوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

ایک گروہ کو مطالعے کے لیے مکمل خاموشی کا ماحول فراہم کیا گیا، دوسرے گروہ کو مطالعے کے ساتھ ہلکی موسیقی سننے کو دی گئی، تیسرے گروہ کو تیز موسیقی میں مطالعہ کرنے کو کہا گیا، چوتھے گروہ کو مطالعے کے لیے پرہجوم ماحول دیا گیا جب کہ پانچویں گروہ میں شامل افراد کو مطالعے کے ساتھ آپس میں بات چیت کرنے کا بھی کہا گیا۔ اس مطالعاتی تحقیقی کے حیران کن نتائج برآمد ہوئے جن کے مطابق سب سے بُری کارکردگی کا مظاہرہ اُس گروہ کی جانب سے سامنے آیا جسے تیز یا ہلکی موسیقی میں مطالعے کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ تحقیق میں اس زاویے پر بھی توجہ دی گئی کہ اگر کوئی اپنی پسندیدہ موسیقی سنتے ہوئے مطالعہ کرتا ہے تو کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ بہرکیف اپنی پسندیدہ موسیقی کے ساتھ مطالعہ کرنے والوں کی کارکردگی بھی انتہائی خراب رہی۔ حیران کن طور پر سب سے اچھی کارکردگی صرف اُس گروہ کی رہی جسے مکمل خاموشی میں مطالعے کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ اس تحقیقی عمل کو کئی ادوار میں باربار دہرایا گیا لیکن نتیجہ ہر بار یہی سامنے آیا کہ موسیقی سنتے ہوئے مطالعہ کرنے والے افراد کی کارکردگی سب سے خراب تھی۔

سفر، موسیقی اور حادثات
اگرچہ ہم میں سے اکثر احباب ڈرائیونگ کے دوران موسیقی سننے کا اہتمام سفر کو زیادہ سے زیادہ پرلطف اور پرکیف بنانے کی نیت سے ہی کرتے ہیں، لیکن بعض سائنسی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران سفر موسیقی سننے سے حادثات کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ موسیقی، سفر اور حادثات میں باہمی سراغ لگانے کے لیے دنیا بھر میں اَب تک کئی سائنسی تحقیقات اور مطالعات کے نتائج سامنے آچکے ہیں۔ مثال کے طور پر 2004 میں کینیڈا کے ایک سائنس داں کی جانب سے کی جانے والی تحقیق سے اخذ کردہ یہ نتیجہ سامنے آیا تھا کہ ڈرائیونگ کے دوران اگر کوئی ڈرائیور 95 ڈیسیبل سے 110 ڈیسیبل یا اس سے زیادہ تیز آواز میں موسیقی سُنتا ہے تو اُس کی گاڑی کے حادثے کا شکار ہونے کے امکانات 20 فی صد تک بڑھ جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ 2013 میں بین گوریون یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے موسیقی کے ساتھ ڈرائیونگ کرنے کی عام شاہراہ پر کئی عملی آزمائشیں کی تھیں، جن میں زیادہ توجہ اس بات پر دی گئی تھی کہ اگر کوئی ڈرائیور اپنی پسندیدہ موسیقی سماعت کرتے ہوئے ڈرائیونگ کرتا ہے تو وہ عام شاہراہ پر گاڑی چلاتے ہوئے کتنی بار غلطیاں کرتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت ہوگی کہ پسندیدہ موسیقی کے ساتھ ڈرائیونگ کرنے والے 98 فی صد افراد نے اوسطاً تین غلطیاں کیں، جن میں سے 20 فی صد کو حادثے اور تصادم سے بچنے کے لیے اچانک بریک لگانے کی ضرورت بھی پیش آئی۔ اس کے مقابلے میں ایسے افراد جو ڈرائیونگ کے دوران موسیقی نہیں سُن رہے تھے اُن میں سے فقط10 فی صد افراد نے اوسطاً صرف ایک غلطی کی، جب کہ وہ غلطی بھی معمولی نوعیت کی تھی، جس کو درست کرنے کے لیے بریک لگانے کی بھی کوئی حاجت نہیں تھی۔ اس تحقیقی میں طویل اور مختصر سفر دونوں کو بیک وقت شامل کیا گیا تھا۔

پاپ میوزک آپ کی تخلیقی ذہانت کو ختم کر سکتا ہے
وہ مثل تو آپ نے ضرور سُنی ہوگی کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ بالکل اسی طرح موسیقی کی بھی کئی اقسام ہیں، مثلاً کلاسیکی، پاپ، جاز وغیرہ۔ سائنس داں برسوں سے فقط موسیقی ہی نہیں بلکہ اُس کی اقسام اور دُھنوں کے انسانی جذبات اور احساسات پر پڑنے والے اثرات کے سائنسی تجزیے میں مصروف ہیں۔ دراصل وہ جاننا چاہتے ہیں کہ مختلف اقسام کی موسیقی میں کونسی دُھن یا قسم انسانی احساسات کی نشوونما پر مثبت اور کونسی منفی انداز میں اپنا اثر ڈالتی ہے۔

اس حوالے سے موسیقی کی دنیا کے معروف محقق گریفتھ (Griffith) نے کئی برس قبل بلحاظ اقسام موسیقی کی درجہ بندی کرکے ایک مطالعاتی جائزے کا آغاز کیا تھا، جس میں اُس نے موسیقی کو پسند کرنے والے مختلف افراد کی عادت و اطوار کا تفصیلی مشاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کئی برسوں کی تحقیق کے بعد گریفتھ کا کہنا ہے کہ ’’پاپ میوزک پسند کرنے والے افراد سب سے کم تخلیقی ذہانت کے حامل ہوتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہ لے لیا جائے کہ پاپ موسیقی سننے والے بے وقوف ہوتے ہیں، بلکہ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاپ موسیقی کی پسند کرنے والے افراد شاذ ہی کبھی کسی قسم کے تخلیقی کام کی جانب رغبت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘‘

گریفتھ کے مطابق ’’پاپ موسیقی سے تعلق رکھنے والے گلوگار، موسیقار اور فن کار بھی زیادہ تر ناخواندہ یا واجبی سی تعلیم کے حامل ہی ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں پاپ گلوگار اکثر و بیشتر ایسے سطحی قسم کے تنازعات میں خود کو شریک کرلیتے ہیں جو عقلیت پسندی کے سخت خلاف ہوتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اکثر پاپ گلوگار بڑی محنت سے کمایا ہو پیسہ پس انداز کرنے کے بجائے فضول خرچی میں اُڑا دیتے ہیں۔‘‘

ضروری نہیں ہے کہ گریفتھ کی تحقیق سے لازمی مکمل اتفاق ہی کیا جائے۔ ہاں! اس پر تفکر ضرور کیا جاسکتا ہے، کیوںکہ موسیقی بڑی حد تک انسان کو اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر کردیتی ہے اور سائنس کے دبستان میں اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ موسیقی کی کئی اقسام ذہن پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں جس سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کم زور ہوجاتی ہ۔ مثلاً دو مختلف یونیورسٹیوں میں کی گئی تحقیقات میں یہ دریافت ہوا کہ جب راک (Rock) میوزک لگایا گیا تو چوہوں کے لیے بھول بھلیوں میں اپنا راستہ معلوم کرنا عام حالت کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ مشکل ہوگیا۔ دوسرے الفاظ میں چوہوں کی سیکھنے کی صلاحیتیں موسیقی کے زیراثر کم زور پڑگئیں۔

موسیقی اور بڑھاپا
اسّی کی دہائی میں ہمارے یہاں ایک نغمہ ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ بہت مشہور ہوا تھا۔ اس گانے کو ملکہ پکھراج اور اُن کی صاحب زادی طاہرہ سید نے مل کر گایا تھا۔ اس نغمہ کی سب سے خاص بات جوانی اور بڑھاپے کا دل فریب انداز میں تذکرہ اور موازنہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نغمے نے اپنے وقت میں بے شمار ضعیف العمر افراد میں ’’جوانی‘‘ کی نئی روح پھونک دی تھی۔

واضح رہے کہ جوانی اور بڑھاپے کے موضوع پر دنیا بھر میں موسیقار اور گلوگار ہمیشہ سے ہی نغمے ترتیب دیتے رہے ہیں، جنہیں نوجوان اور بزرگ سب ہی پسندیدگی سے سنتے آئے ہیں ۔ ایسے نغموں، جن میں بڑھاپے اور جوانی کا ذکر ہو، اُن نغمات کے بارے میں انگلیہ یونیورسٹی، کیمبرج، انگلینڈ کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے گانے مسلسل سماعت کرنے سے قبل ازوقت عمررسیدگی کے خطرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اس جملہ کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ جوانی اور بڑھاپے کے موضوعات پر بنائے گئے گانوں کو اگر بڑی عمر کے افراد تواتر کے ساتھ سماعت کریں تو اُن کے بوڑھا ہونے کی رفتار معمول سے زیادہ بڑھ بھی سکتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یونیورسٹی کے محققین نے 76 ایسے مقبول ترین نغموں کی تجزیاتی فہرست بھی مرتب کی ہے، جنہیں سننے سے بڑھاپا تیزخرام قدموں سے سننے والے تک پہنچ سکتا ہے۔ اس اہم ترین اور منفرد تحقیقی مطالعے کی مصنف جینکٹا کیلی (Jacint Kelly) لکھتی ہیں کہ ’’گانوں میں جوانی اور بڑھاپے کا تذکرہ سننے والوں میں مایوسی اور پژمردگی پیدا کرتا ہے، جس سے اُن کی قوت مدافعت پر شدید قسم کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ منفی اثرات خرابی صحت، بیماری کی طوالت کے ساتھ ساتھ اچانک موت کا سبب بھی بن سکتے ہیں، کیوںکہ بڑھتی عمر اپنے ساتھ بے پناہ فراغت بھی لاتی ہے۔ بالخصوص زیادہ سوچ، دقیانوسی خیالات اور بڑھاپے یا جوانی کے موضوع پر بننے والی موسیقی کے باہمی ملاپ سے ایک ایسا ملغوبہ بن جاتا ہے، جو بڑھتی عمر کے افراد کے لیے انتہائی مہلک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘

موسیقی، باہمی تعلقات کمزور کرتی ہے
نوجوانوں میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتاہے کہ شاید رومانوی موسیقی اور نغمات سننے سے ہمارے رومانوی تعلقات کو زبردست مہمیز ملتی ہے اور رومان پرور رشتے مستحکم ہوتے ہیں، مگر سائنس چوںکہ جذبات کے بجائے عقل، دلیل اور مشاہدے کی بنیاد پر کسی شئے کے اچھے یا برُے ہونے کی تصدیق یا پھر تردید کرتی ہے۔ اس لیے سائنسی تحقیقات اور مشاہدات یہ ہی بتاتے ہیں کہ موسیقی کے حد سے زیادہ رسیا اور شیدائی عملی تعلقات استوار کرنے کے معاملے میں انتہائی غیرسنجیدہ اور غیرذمہ دار واقع ہوتے ہیں۔ درحقیقت یہ نتائج2006 میں کیے گئے اُس سائنسی مطالعے کے اختتام پر اخذ کیے گئے تھے، جس میں 1500نوجوان افراد کی عادات و اطوار کا باریک بینی سے نفسیاتی مشاہدہ کیا گیا تھا۔

اس مطالعے کے مصنفین نے دورانِ تحقیق مشاہدہ کیا کہ موسیقی سے جنون کی حد تک محبت کرنے والے زیادہ تر افراد چاہے اُن کا تعلق کسی صنف یا جنس سے کیوں نہ ہو۔ عموماً آپس کے باہمی تعلقات میں زبردست بے پرواہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔‘‘ ایسا آخر کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب محققین کے مطابق کچھ یوں تھا کہ ’’ہر وقت موسیقی سننے سے انسانی ذہن ایک خودساختہ افسانوی دنیا تعمیر کرلیتا ہے اور وہ اپنے ساتھی میں ایسی ایسی خوبیاں اور عادتوں کی توقع کرنے لگتا ہے، جن کا کسی ایک فرد میں مجتمع ہونا کم و بیش ناممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا جب تعلقات میں خیالی توقعات پوری نہیں ہوپاتیں تو وہ شخص مطلوبہ خوبیوں کی تلاش و جستجو میں کسی دوسرے فرد کی جانب ملتفت ہونا شروع ہوجاتا ہے۔‘‘

نیز تحقیقی مطالعے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسان کے تمام جذبات و احساسات مثلاً غصہ، خوف، جوش، نفرت، خوشی اور غم وغیرہ سب دماغ کے جس حصے میں پیدا ہوتے ہیں اُسے لمبک سسٹم(Limbic System) کہا جا تا ہے اور حیران کُن طور پر موسیقی دماغ کے اسی حصے کو متحرک کردیتی ہے۔ دماغ کا یہ حصہ زیادہ متحرک ہوجانے سے طبیعت میں عدم برداشت اور تشدد پسندی کے جذبات پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ بعدازآں یہی جذبات تعلقات کے خاتمے کا سبب بن جاتے ہیں۔

جدید موسیقی اور غیرصحت مندانہ طرزِزندگی کا فروغ
چند برس قبل جدید موسیقی کے متعلق نیویارک اسکول آف میڈیسن کے زیراہتمام ایک انتہائی حیران کن مطالعاتی تحقیق کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں 2000 سے 2014 کے درمیان اس پہلو کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی کوشش گئی تھی کہ مشہور و معروف پاپ گلوگاروں کے ذریعے دنیا بھر میں زیادہ تر کس قسم کی مصنوعات کی تشہیر کی جاتی ہے؟ اور کن مقاصد کے تحت کی جاتی ہے؟ چودہ برس کی طویل تحقیق اور مطالعے کے اختتام پر محققین کے سامنے حیران کن اعداد و شمار آئے کہ جدید موسیقی اور معروف پاپ گلوگاروں کے ذریعے جنک فوڈ اور سافٹ ڈرنکس بنانے والی کمپنیاں اشتہارات پر تقریباً 2 ارب امریکی ڈالر جس کی مالیت پاکستانی روپے میں تین کھرب روپے بنتی ہے، خرچ کردیتی ہیں۔

محققین نے اپنی دستاویز میں یہ بھی انکشاف کیا کہ یہ کمپنیاں عوام بالخصوص نوجوانوں کو اپنی غذائیت سے عاری مصنوعات کی جانب راغب اور متوجہ کرنے کے لیے جدید موسیقی اور پاپ گلوکاروں کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔ چوںکہ نوجوان نسل موسیقی اور گلوگاروں سے انسیت رکھتی ہے، اسی لیے جنک فوڈ اور سافٹ ڈرنکس بنانے والی کمپنیاں مشہورومعروف گلوکاروں کے ہاتھ میں اپنی مصنوعات تھماکر ایسے مہنگے اشتہار تیار کرواتی ہیں، جنہیں ملاحظہ کرنے کے بعد نوجوان سمجھتے ہیں کہ شاید اپنے پسندیدہ گلوگار کے ہاتھ میں موجود جنک فوڈ یا سافٹ ڈرنکس پینے کے بعد وہ بھی اُن جیسے خوب صورت، پرکشش اور سُریلے بن جائیں گے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ 1999 سے 2012 کے درمیانی مدت کا احاطہ کرتے ہوئے ویک فارسٹ(Wake Forest) اور یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا کے محققین کی طرف سے ہزاروں افراد کے مطالعے کے بعد یہ نتائج اخذ کیے گئے ہیں کہ ’’گذشتہ 14 سال کے دوران ہر طبقۂ عمر کے لوگوں میں مُٹاپے میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا، جس کی بنیادی وجہ غیرمعیاری جنک فوڈز اور سافٹ ڈرنک کا بے تحاشہ استعمال ہے اور لمحہ فکر تو یہ ہے کہ اِس غیرصحت مندانہ طرزِ زندگی کی طرف لوگوں کو سب سے زیادہ ترغیب جدید موسیقی کے اُن پروگراموں سے ملتی ہے، جنہیں کثیر سرمائے کے ساتھ جنک فوڈز اور سافٹ ڈرنکس بنانے والی کمپنیاں دنیا بھر میں اسپانسر کرتی ہیں۔‘‘ اس طرح سے جدید موسیقی بالواسطہ طور پر دنیا بھر میں غیرصحت مندانہ طرززندگی فروغ دینے میں اہم ترین کردار ادا کررہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔