پاک جاپان دیرینہ تعلقات نئے دور میں داخل

 اتوار 28 فروری 2021
تجارتی حجم میں اضافہ، لاکھوں پاکستانی آئی ٹی انجینئرز جاپان جائیں گے۔ فوٹو : فائل

تجارتی حجم میں اضافہ، لاکھوں پاکستانی آئی ٹی انجینئرز جاپان جائیں گے۔ فوٹو : فائل

جن ممالک کا پاکستان کے اندر لوگ بڑے احترام سے ذکر کرتے ہیں، ان میں جاپان کا نام سر فہرست ممالک میں شامل ہے۔

پاکستانی جاپانی مصنوعات کے معیار پر اندھا یقین کرتے ہیں۔ لوگ کوئی بھی چیز فروخت کرتے ہوئے اس کی اہمیت میں اضافے کی غرض سے بتاتے ہیں کہ یہ جاپانی ہے۔ گاڑیوں سے لے کر ایک چھوٹے سے ڈنر سیٹ یا استری تک لوگ جاپانی مصنوعات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ جاپان کو پاکستان میں ایک اور طرح سے بھی عزت دی جاتی ہے، جو جاپانیوں کے جہد مسلسل کا ثمر ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جاپان کی تباہی سے ترقی کے سفر کو پاکستان میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور اس کی داستانیں سنائی جاتی ہیں۔

جہاں تک پاکستان اور جاپان کے باہمی تعلقات کی بات ہے تو ان کی تاریخ بھی پرانی ہے، جس کی ابتداء کلچر سے ہوئی۔ تقسیم ہند سے قبل بدھ مت کے آثار جب ان علاقوں میں ملے جو اب پاکستان میں ہیں تو جاپانی بدھ مت زائرین نے کثیر تعداد میں ادھر کا رخ کیا۔ 1935 میں جاپان کے شہر کوبہ میں مسجد بنائی گی۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن ممالک کے درمیان تعلقات میں مذہب کا عنصر شامل ہوجائے وہ پھر مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

جاپان میں ٹوکیو سکول آف لینگویجز فارن نے 1908ء میں اْردو زبان کو ایک کورس کے طور پر شامل کیا۔ عالمی فورمز پر پاکستان اور جاپان نے ہمیشہ ایک دوسرے کے لئے مثبت رویہ اپنایا، جس کی ایک مثال اقوام متحدہ کی رکنیت ہے، جس کے لئے پاکستان نے جاپان کا بھرپور ساتھ دیا، اسی طرح تجارت بھی وہ اہم عنصر ہے، جس سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات مضبوط ہوئے اور آج یہ تاریخ کے ایک نئے موڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔

جاپان پاکستان سے کپاس بر آمد کرتا تھا، یہی وجہ تھی کہ تقسیم ہند سے قبل ہی جاپان کی کئی کمپنیوں نے پاکستانی علاقوں میں اپنی شاخیں بنا لی تھیں۔جاپان نے پاکستان کو سپننگ مشینری فروخت کی، جس سے دھاگہ اور کپڑا پاکستان کی جاپان کو برآمدات کا اہم جزو بن گئے۔

1960ء کی پاکستانی حکومت نے صنعت کاری کے حوالے سے پالیسی بنائی، جس میں اسے جاپان کی طرف سے بھرپور تعاون حاصل ہوا، یوں پاک جاپان تجارتی تعلقات کے آغاز سے ہی وطن عزیز ٹیکسٹائل، لیدر اور دھاگہ کی برآمدات کا مرکز بننے لگا، جس کی بدولت 1968,69 میں جاپان پاکستانی مصنوعات کا پانچواں بڑا درآمد کنندہ بن چکا تھا۔

2012ء میں جاپان کی پاکستان کو برآمدات 1547 ملین ڈالر اور پاکستان سے درآمدات 438.6 ملین ڈالر تھیں۔ 2015ء میں دونوں ممالک کے درمیانی تجارتی حجم 2 بلین ڈالر تھا، لیکن یہ حجم جاپان کے حق میں زیادہ تھا۔ جاپان نے پاکستان میں متعدد پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کی، جن میں انڈس ہائی وے، توانائی کے کئی پراجیکٹس، این۔ 70 ہائی وے کوہاٹ ٹنل پراجیکٹ، غازی بھروتھا ڈیم پراجیکٹ، سوزوکی ، ٹیوٹا اور ہنڈا موٹرز وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان ایک تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے جہاں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں اور پاکستان کی سرمایہ کاری کے حوالے سے پالیسی میں بھی تسلسل ہے، وطن عزیز دہشت گردی اور فرقہ واریت کے عفریت سے بھی کافی حد تک کامیابی سے نکل آیا، یوں سکیورٹی کی صورت حال بہتر ہونے سے پاکستان میں سرمایہ کاری کا ماحول بن چکا ہے، جو دیگر ممالک کے ساتھ پاک جاپان تجارتی تعلقات میں بھی مزید بہتری لائے گا۔

جاپان کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے 2019ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت جاپان میں 18 ہزار سے زیادہ پاکستانی مقیم ہیں، جبکہ اس کے برعکس صرف 1048 جاپانی شہری پاکستان میں رہتے ہیں۔

جاپانی مشیر برائے معاشیات ہائزو تاکی ناکا نے حال ہی میں جاپان کے وزیرِ اعظم کو بتایا کہ سنہ 2030 تک جاپان 64 لاکھ افرادی قوت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا کو پْر کرنے کے لیے جاپان کو افرادی قوت کی ضرورت ہوگی۔ چوں کہ اس وقت جاپان میں کام کرنے والے افراد کی زیادہ تر آبادی معمر افراد پر مشتمل ہے، اس لیے اب جاپان کو دوسرے ممالک کی طرف دیکھنا پڑے گا اور مختلف شعبوں کے لیے غیر ملکی ملازمین ڈھونڈنے پڑیں گے، لہذا اس صورت حال کا گنجان آبادی والے ملک یعنی پاکستان کو بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

اس حوالے سے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی زلفی بخاری اور پاکستان میں مقیم جاپانی سفیر ماتسودا کونی نوری کی گزشتہ دنوں ایک ملاقات بھی ہوئی، جس میں جاپانی سفیر نے وزیراعظم کے معاون خصوصی کو بتایا کہ ان کے ملک میں تقریباً آٹھ لاکھ آئی ٹی انجینیئرز کی ضرورت ہے، جس پر زلفی بخاری نے 2021ء میں آٹھ لاکھ پاکستانی آئی ٹی انجینئیرز جاپان بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔

جاپان میں موجود پاکستانی سفارت خانہ بھی دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کے حوالے سے بھرپور کام کر رہا ہے، جس کے لئے خصوصی انتظامات بھی کئے جا رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے طاہر حبیب چیمہ کو 2019ء میں خصوصی طور پر پاکستان ایمبیسی ٹوکیو میں تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے تعینات کیا۔ کرونا وائرس جیسی مہلک وبا کے باوجود انہوں نے محض ایک سال کی قلیل مدت میں پاکستان اور جاپان کے درمیان سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور سہولیات فراہم کرنے کے لئے کامیاب کوششیں کیں، متعدد وفود جاپان سے پاکستان آئے۔ کامیاب مذاکرات کی وجہ سے جاپان کے اینیمل کورنٹین ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان سے اینیمل کیسنگ کی درآمد پر عائد پابندی ختم کرکے اس کی درآمد کی اجازت دے دی۔

انہوں نے جاپان کی مختلف آئی ٹی کمپنیوں سے بات چیت جاری رکھی اور بالاخر اس سلسلے میںبھی انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس طرح پاکستان اور جاپان کے آئی ٹی کے شعبوں میںباہمی روابط استوار ہوئے، جس سے جاپان میں پاکستان کے آئی ٹی انجینئرز کی مانگ میں بھی بھرپور اضافہ ہوا اور 100 سے زائد جاپانی آئی ٹی کمپنیوں نے جاپان میں پاکستانی ایمبیسی سے رابطہ بھی کر لیا ہے۔ ان کے بڑے کارناموں میں سے ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے جاپان میں پاکستانی آم کی برآمدات کو بڑھاوا دیا۔ اس سے پہلے کرونا وائرس کی وجہ سے جاپان کی جانب سے تقریبا ہر ممکن حد تک پاکستان سے آم کی درآمدات سے گریز کیا جا رہا تھا۔ پاکستان کے آم کی برآمدات جو کہ 2019ء میں 100 میٹرک ٹن تھیں وہ دو گنا سے بھی زیادہ یعنی 222 ایم ٹی تک پہنچ گئیں۔ طاہر حبیب چیمہ نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے آپشن پاکستان کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے پریزنٹیشنز تیار کیں، جن میں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے مواقع اور فوائد کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل معلومات جمع کی گئیں۔

یہ پریزنٹیشنز جاپان کے مختلف بزنس چیمبرز اور ایسوسی ایشنز میں دی گئیں، جن کی بدولت کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدہ صورت حال سے تجارت اور سرمایہ کاری میں ممکنہ نقصانات سے بچت ہوئی اور تجارتی روابط عارضی طور پر بھی ختم ہونے سے نہ صرف بچ گئے بلکہ یہ بتدریج مضبوط ہو رہے ہیں۔ ان کوششوں کے باعث انہوں نے جاپان میں پاکستانی طلباء کے لئے زراعت اور آئی ٹی کے شعبوں میں انٹرن شپ کے بھی مواقع پیدا ہوئے۔

بلاشبہ کسی بھی ادارے، مشن یا ہدف کے حصول میں ٹیم ورک ہی اہمیت کا حامل ہوا کرتا ہے، اس لئے جاپان میں پاکستانی سفارت خانے کی بہترین کاکردگی کا سہرا بھی کسی ایک شخص کو نہیں جاتا بلکہ یہ وزیراعظم سے لے کر جاپانی ایمبیسی میں کام کرنے والے تمام پاکستانیوں کو جاتا ہے۔ جو دن رات ایک کر کے ملک کے لیے بہتر سے بہتر اقتصادی و تجارتی مواقع پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔