کام سے بچنے کے لیے اپنے اغوا کا ڈراما رچانے والا گرفتار

ویب ڈیسک  ہفتہ 27 فروری 2021
نوجوان نے بتایا کہ دو نقاب پوشوں نے اسے اغوا کرلیا ہے جو اس کے ہاتھ پیر باندھ کر کسی ویران جگہ پر پھینک کر چلے گئے ہیں۔ (فوٹو: یوٹیوب اسکرین گریب)

نوجوان نے بتایا کہ دو نقاب پوشوں نے اسے اغوا کرلیا ہے جو اس کے ہاتھ پیر باندھ کر کسی ویران جگہ پر پھینک کر چلے گئے ہیں۔ (فوٹو: یوٹیوب اسکرین گریب)

ایریزونا: امریکی ریاست ایریزونا میں ایک نوجوان نے کام پر جانے سے بچنے کےلیے اپنے ہی اغوا کا ڈراما رچایا لیکن جلد ہی اس کا بھانڈا پھوٹ گیا اور اسے گرفتار کرلیا گیا۔

خبروں کے مطابق ایریزونا کے شہر کولج میں 10 فروری کے روز مقامی پولیس کو برینڈن سولز نامی ایک 19 سالہ نوجوان کی ایمرجنسی کال موصول ہوئی۔

نوجوان نے بتایا کہ دو نقاب پوشوں نے اسے اغوا کرلیا ہے جو اس کے ہاتھ پیر باندھ کر کسی ویران جگہ پر پھینک کر چلے گئے ہیں۔

پولیس ٹیم اس کے موبائل کی لوکیشن ٹریک کرتی ہوئی جائے وقوعہ پر پہنچی تو دیکھا کہ اس نوجوان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں لیکن آس پاس کوئی موجود نہیں۔

جب اس نوجوان کو ’’آزاد‘‘ کروایا گیا تو اس نے بتایا کہ دو نقاب پوش اغوا کاروں نے اس کے سر پر ضرب لگائی، کمر پر اس کے ہاتھ باندھے اور اسے وہیں پھینک کر چلے گئے۔

اغوا کی وجہ بیان کرتے ہوئے برینڈن سولز نے پولیس کو بتایا کہ نامعلوم اغوا کار اُس خطیر رقم کی تلاش میں تھے جو اس کی اور اس کے والد کی مشترکہ ملکیت تھی۔ یہ رقم اس کے والد نے کولج شہر ہی میں کسی جگہ چھپائی ہوئی تھی۔

تاہم تفتیش مزید آگے بڑھانے پر پولیس کو جلد ہی معلوم ہوگیا کہ وہ نوجوان نہ صرف جھوٹ بول رہا تھا بلکہ اس نے اپنے اغوا کا بھی ڈراما رچایا تھا۔

اس ’’خطیر رقم‘‘ کا کوئی وجود نہیں تھا جس کے بارے میں اس نے پولیس کو بتایا تھا اور نہ ہی کوئی نقاب پوش اغوا کار تھے۔

پولیس نے جب نوجوان پر سختی کی تو اس نے بتایا کہ وہ ایک ٹائر کمپنی میں ملازمت کرتا ہے اور اُس روز وہ کام پر جانا نہیں چاہتا تھا۔ اسی لیے اس نے یہ سارا ڈراما رچایا۔

اس بارے میں ’’اے بی سی 15 ایریزونا‘‘ چینل نے بھی یوٹیوب پر ویڈیو شیئر کرائی ہے:

حقائق سامنے آنے کے بعد کولج پولیس نے اغوا کی جھوٹی رپورٹ لکھوانے پر برینڈن کو حراست میں لے لیا ہے جبکہ کمپنی نے بھی اسے ملازمت سے نکال دیا ہے۔

اب مقامی عدالت میں اس کے خلاف پولیس کی جانب سے مقدمہ بھی دائر کردیا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔