دادا طفیل اختر

سعید پرویز  اتوار 28 فروری 2021

بڑے شہروں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ خون بھی بڑا مانگتے ہیں، خون کی مشکیں بھر بھر کے تخلیق کار لاہور کے ہوں یا بیرون لاہور کے آئے ہیں، اور تمنا بس اتنی ہوتی ہے کہ لاہور قبولیت کی سند دے دے۔ کہنے کو تو یہ اتنی سی تمنا ہوتی ہے مگر اس اتنی سی تمنا کی قدر و قیمت کیا ہے، کیا کہا جائے۔

کہنے والے کہتے ہیں جس کو لاہور نے مان لیا دنیا بھی اسے مان لیتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بہت سے تخلیق کار مشکیزے بھر بھر کے خون لائے مگر بڑے شہروں کی طرح لاہور نے بھی قبول نہ کیا، پھر ناکام، نامراد چلے گئے اور خون جمع کیا، پھر لاہور آئے۔ قسمت آزمائی کے لیے خود کو پیش کیا۔ وہ زمانے میں خوش نصیب ٹھہرے کہ جنھیں لاہور نے آخر قبولیت کی سند دے دی۔

منٹو ، احمد ندیم قاسمی ، وزیر آغا ، مولانا ظفر علی خان ، احمد الٰہی، علامہ اقبال ، فیض احمد فیض ، حبیب جالب ، احمد فراز ، ساغر صدیقی، قتیل شفائی ، منیر نیازی ، استاد دامن، طفیل ہوشیار پوری ، حفیظ جالندھری ، مجید امجد ، شکیل جلالی ، مجید لاہوری ، ریاض شاہد ، ملکہ ترنم نور جہاں، ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم ، شہنشاہ غزل مہدی حسن، غزل گائیک غلام علی ، مایہ ناز فوک سنگر طفیل نیازی ، میلوں ٹھیلوں کے گلوکار عنایت حسین بھٹی یا عالم لوہار، موسیقار خواجہ خورشید انور، رشید عطرے، ماسٹر عنایت حسین، ماسٹر عبداللہ، سلیم اقبال، صفدر حسین، شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خان، اداکاروں میں صبیحہ خانم، مسرت نذیر، نیر سلطانہ، زیبا، دیبا، محمد علی، ندیم، وحید مراد، سلطان راہی، طالش، علاؤ الدین، ظریف، منور ظریف اور وہ سب جو لاہور کے سند یافتہ ٹھہرے، اگر سب کے نام لکھنے بیٹھا تو پوری کتاب بن جائے گی۔

انھی شخصیات میں ایک معصوم سا نام طفیل اختر کا بھی شامل ہے جنھیں دوست احباب دادا کہہ کر پکارتے تھے۔ میں نے ان کے لیے لفظ معصوم لکھا ہے جو دادا طفیل اختر سے واقف ہیں وہ یقینا اس بات کی گواہی دیں گے کہ دادا معصومیت ہی معصومیت تھے۔

اس شہر لاہور میں دادا طفیل اختر نے بڑے کشٹ جھیلے، بڑا خون جلایا۔ دادا زمانے کے ’’زخم کھاتا رہا‘ مسکراتا رہا‘‘ مسکراہٹ دادا کی خاص پہچان تھی۔ تلخ سے تلخ بات بھی ہنس کر مسکرا کر، سہ جانا انھیں خوب آتا تھا۔ جھوٹ اور پتھریلے سماج میں وہ چلتا رہا، کانٹوں بھری راہیں تھیں مگر اسے چلنا تھا، سو پاؤں زخمی ہوتے رہے، جسم پر خراشیں، روح زخمی، مگر وہ چلتا رہا۔ اسی امید پر اسی آس پر کہ ’’کوئی ہنس کر ملے غنچۂ جاں کھلے‘ چاک دل کا سلے‘ وہ اسی آس امید پر ’’ہر قدم پر نگاہیں بچھاتا رہا۔‘‘

دادا بڑا باریک بیں آدمی تھا، شاید اسی لیے انھوں نے روزی روٹی کے لیے رفوگری بھی کی۔ لاہور نے دادا سے یہ امتحان بھی لیا۔ سمن آباد لاہور میں ایک ڈرائی کلینر کی دکان کے باہر رفوگر طفیل اختر پھٹے کھونچ لگے کپڑوں کو اس مہارت سے رفو کرتا کہ دھاگے سے دھاگہ یوں ملاتا کہ نشان بے نشان ہو جاتا۔

میری دادا طفیل اختر سے پہلی ملاقات الحمرا لاہور میں ہوئی تھی۔ میں کہہ رہا تھا کہ میں ایک روز پہلے ہی لاہور پہنچا تھا، صبح کا اخبار دیکھا اس میں خبر تھی کہ نوجوان شاعر آفتاب خان کی شعری کتاب کے لیے الحمرا میں پروگرام ، مقررین میں معروف شاعر اعزاز احمد آذر، افتخار مجاز اور معروف شاعر ناصر بشیر کا نام شامل تھا، میرے لیے یہ تینوں نام ہی بہت تھے کہ میں اس محفل میں شرکت کروں۔

مارچ کا مہینہ تھا، لاہور پر بادل چھائے ہوئے تھے، ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی، الحمرا کے سبزہ زار، پھولوں بلکہ رنگ برنگے پھولوں سے مہک رہے تھے۔ لال اینٹوں کی پرشکوہ عمارت، سرخ راہداریاں، میں چلتا ہوا ہال نمبر 3 کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ کچھ احباب کھڑے تھے، میں ان کے لیے اور وہ میرے لیے اجنبی تھے۔ میں ہال میں داخل ہوا، وہاں بھی اجنبیت ہی نے میرا استقبال کیا۔ جن کے لیے خصوصاً میں آیا تھا وہ احباب ابھی نہیں پہنچے تھے۔ میں ہال میں خاموش بیٹھ گیا۔

ہال کے دروازے پر آہٹ ہوئی اور پھر مسکراہٹ اندر داخل ہوئی، یہ افتخار مجاز تھے، مسکراہٹ ان کی بھی پہچان تھی، میں اپنی سیٹ سے اٹھا، مجاز نے مجھے دیکھا تو میری جانب لپکے۔ ’’آپ کب آئے؟‘‘ مجاز پوچھ رہے تھے ’’میں کل ہی پہنچا ہوں۔‘‘ میں نے بتایا۔ پھر مجاز ہال میں بیٹھے اپنے قریبی دوستوں کو بتا رہے تھے ’’سعید پرویز، حبیب جالب صاحب کے بھائی ہیں، کراچی میں رہتے ہیں۔‘‘

سبھی نے سنا اور پلٹ کر مجھے دیکھا (میں قدرے پچھلی نشستوں پر بیٹھا تھا) مگر ایک شخص اپنی نشست سے اٹھا وہ مجھے دیکھ رہا تھا، پیار اس کے چہرے اس کی آنکھوں سے چھلک رہا تھا، پھر وہ شخص پچھلی نشستوں پر میرے پاس آیا، عقیدے سے ہاتھ ملایا، گلے لگایا، افتخار مجاز بھی ساتھ کھڑے تھے ’’یہ طفیل اختر ہیں، دادا طفیل اختر‘‘ افتخار مجاز نے تعارف کروایا۔ یہ میری محبتی طفیل اختر سے پہلی ملاقات تھی۔ پھر یوں ہوا کہ لاہور میرے لیے طفیل اختر بن گیا، میں جب بھی لاہور جاتا دادا میرے لیے محفلیں سجاتا، کبھی پاک ٹی ہاؤس، کبھی بیٹھک الحمرا، کبھی لاہور پریس کلب۔

اچھے دوست اللہ کا بہت بڑا انعام ہوتے ہیں، دادا میرے لیے ایسا انعام ہی تھے۔ دادا کے دنیا سے کوچ کر جانے پر سوچتا ہوں بقول ناصر کاظمی (شاعر سے معذرت کے ساتھ کہ میں قصداً لاہور لکھ رہا ہوں)

وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا

میں لاہور جاؤں کس کے لیے

ویسے بھی میرے لیے لاہور خالی ہوتا جا رہا ہے، میرے پیارے چلے جا رہے ہیں، اعزاز احمد آذر، افتخار مجاز، اظہر جاوید، احمد راہی، احمد عقیل روبی، سلیم شاہد، خالد احمد، حسن رضوی، قتیل شفائی، اسرار زیدی، سائیں اختر حسین، جاوید شاہین کلاسک والے سپوٹنک کے مدیر امیر قزلباش ودیگر۔

دادا طفیل اختر نے اپنے اظہاریے کے لیے فلم نگر کو چنا اور ساری حیاتی اسی نگری میں گزار دی۔ نگری اجڑی، ویران ہوئی تب بھی اجاڑ، ویران نگری نہیں چھوڑی۔ اسی اجڑے ویران دیار میں ہی دادا کا دل لگتا تھا۔ دادا اور طرح کے بادشاہ تھے، اسی لیے ان کا کہنا تھا ’’لگتا ہے خوب دل مرا اجڑے دیار میں‘‘ (بادشاہ بہادر شاہ ظفر سے معذرت)

دادا طفیل اختر کی طرح زندگی گزارنا، ہر کسی کا نصیب نہیں ہوتا، وہ زندگی بھر میٹھے میٹھے بول بولتا چلا گیا۔ ’’زہر اگلتے تھے جب مل کر دنیا والے‘‘ تب دادا میٹھے بولوں کی نگری میں کھو جاتا تھا۔ دادا کے دنیا سے جانے کے بعد سب انھیں اچھے لفظوں میں یاد کر رہے ہیں۔ دادا بے داغ دامن کے ساتھ گئے ہیں۔

دادا طفیل اختر ادبی دنیا میں بھی خوب رواں دواں رہے، وہاں بھی اپنا نام و مقام بنایا۔ دادا نہ کہیں جھکے، نہ کہیں بکے۔ انھوں نے علامہ اقبال کے کہے کو مجسم دکھا دیا ’’خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر‘‘۔بڑا شہر بڑا خون مانگتا ہے، دادا نے بھی اپنا خون جگر دان کیا اور لاہور نے دادا کو قبولیت کی سند عطا کردی۔ لاہور کے لیے کہا جاتا ہے ’’اچے برج لہور دے‘‘۔ یہ اچے برج لاہور کے بڑے انسان ہیں۔ یہ اونچے برج سدا بلند رہیں گے۔

دادا طفیل اختر کو بھلایا نہیں جاسکے گا، دادا سچائیوں کے ساتھ زندہ رہا اور اب زمانہ اس کے گن گا رہا ہے۔ دادا کے حق میں گواہیوں کا سلسلہ جاری ہے اور اللہ ایسے بندوں کو بخش دیتا ہے جس کے زمانہ گن گائے۔ اس دعا کے ساتھ اجازت کہ اللہ دادا طفیل اختر کو جنت کے اعلیٰ مقام پر فائز کرے (آمین)۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔