نجی کمپنی نے دیوقامت پہیے جیسا خلائی اسٹیشن بنانے کا اعلان کردیا

ویب ڈیسک  پير 1 مارچ 2021
اس خلائی اسٹیشن میں 400 افراد مصنوعی کششِ ثقل کے ماحول میں رہ سکیں گے جیسے وہ زمین پر رہتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس خلائی اسٹیشن میں 400 افراد مصنوعی کششِ ثقل کے ماحول میں رہ سکیں گے جیسے وہ زمین پر رہتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

امریکی کمپنی ’آربٹل اسمبلی کارپوریشن‘ نے زمین کے گرد مدار میں ایک بہت بڑے پہیے جیسے خلائی اسٹیشن کی تعمیر کا اعلان کردیا ہے جو اپنے محور پر چکر لگاتے دوران مصنوعی کششِ ثقل (آرٹی فیشل گریویٹی) بھی پیدا کرے گا۔

واضح رہے کہ میلوں پر پھیلے ہوئے دیوقامت پہیوں جیسے خلائی اڈوں کا تصور کم از کم 70 سال سے سائنس فکشن فلموں میں پیش کیا جارہا ہے۔

اس طرح کے تصوراتی خلائی اسٹیشن اپنے محور (axis) کے گرد چکر لگاتے ہیں جس سے ان کے بیرونی کناروں پر مرکز گریز قوت (سینٹری فیوگل فورس) پیدا ہوتی ہے جو اسٹیشن پر موجود ہر چیز کو باہر کی طرف دھکیلتی ہے۔

اس طرح سائنس فکشن فلموں کے خلائی اسٹیشنوں میں، جناتی ٹیوبوں جیسے بیرونی کناروں کے اندر، مصنوعی کششِ ثقل پیدا کی جاتی ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں انسانوں والی بستیاں آباد دکھائی جاتی ہیں۔

آربٹل اسمبلی کارپوریشن کا منصوبہ اسی خیال کو حقیقت کا جامہ پہنانے سے متعلق ہے۔

تفصیلات کے مطابق، اس مجوزہ خلائی اسٹیشن کو ’’وائیجر کلاس اسپیس اسٹیشن‘‘ کا نام دیا گیا ہے جس کی تعمیر کا آغاز 2025 سے بتدریج کیا جائے گا اور ممکنہ طور پر مزید دس سے پندرہ سال میں مکمل کرلیا جائے گا۔

اسٹیشن کا تعمیراتی سامان خلاء میں پہنچانے کےلیے ’’کم خرچ خلائی پروازوں‘‘ سے استفادہ کیا جائے گا جبکہ اس سامان کو ٹکڑا ٹکڑا کرکے جوڑ کر خلائی اسٹیشن بنانے کا سارا کام خاص طرح کے خودکار روبوٹس انجام دیں گے جنہیں مختصراً ’’اسٹار‘‘ (STAR) کا نام دیا گیا ہے۔

وائیجر کلاس اسپیس اسٹیشن کے پہلے پروٹوٹائپ کا پہیہ ’’صرف‘‘ 200 فٹ چوڑا ہوگا جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جائے گا کہ سطح زمین جیسی مصنوعی کششِ ثقل پیدا کرنے اور مکمل جسامت والا خلائی اسٹیشن کتنا بڑا ہونا چاہیے۔

آربٹل اسمبلی کارپوریشن کا منصوبہ ایک ایسا خلائی اسٹیشن بنانے کا ہے جس میں 400 افراد کی گنجائش ہو اور جہاں رہنے کےلیے مقامات کے علاوہ کھیل کود اور دیگر تفریحات کی جگہیں بھی موجود ہوں۔

سرِدست اس کی لاگت اور ممکنہ تاریخِ تکمیل کے بارے میں صرف اندازے ہی پیش کیے گئے ہیں تاہم ابتدائی فنڈنگ کے مد میں یہ ادارہ اس منصوبے کےلیے دس لاکھ ڈالر ضرور جمع کرچکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔