مولانا محمد علی جوہر

شکیل فاروقی  پير 6 جنوری 2014
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

رئیس الاحرار مولانا محمدعلی جوہر بے شمار صفات کا مجموعہ تھے۔ تحریک خلافت کے سپہ سالار کی حیثیت سے ان کا نام مثل خورشید تا قیامت روشن رہے گا۔ صحافت اور سیاست ان کا طرہ امتیاز تھا۔ ان کے قلم میں تلوار جیسی کاٹ تھی۔ اس لحاظ سے اگر انھیں صاحب سیف و قلم کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ اردو میں ’’ہمدرد‘‘ اور انگریزی میں ’’کامریڈ‘‘ نامی بے مثل اخبارات میں انھوں نے اپنی قابلیت کے خوب خوب جوہر دکھائے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ محض گفتار کے ہی نہیں کردار کے بھی غازی تھے۔ وہ سر سے پیر تک ایک عملی انسان تھے جن کے قول و فعل میں ذرا سا بھی تضاد نہیں تھا۔ اس اعتبار سے وہ عہد حاضر کے سیاست دانوں اور صحافیوں سے قطعی مختلف تھے۔ ان کے یہاں سیاست اور صحافت دونوں کو ہی عبادت کا درجہ حاصل تھا۔ لہٰذا ان کے اوصاف اور خوبیوں کو بیان کرنا اور ان کی ہمہ جہت شخصیت کا احاطہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے

اسلام صرف ان کا دین نہیں بلکہ مقصد حیات اور زندگی بھر کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ اس حوالے سے ان کی زندگی کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں۔

1923 کا آخری زمانہ تھا۔ مولانا کراچی کے مشہور و معروف خالق دینا ہال میں چلنے والے تاریخی مقولے کے بعد دوسری باراسیری سے رہا ہوکر تازہ تازہ دلی تشریف لائے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی شہرت اور مقبولیت بام عروج پر تھی۔ گلی گلی،کوچہ کوچہ اورشہر درشہر بس ان ہی کے چرچے تھے۔ کانگریس کے سرکردہ رہنما گاندھی جی کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان میں ان کی بھی جے جے کار ہو رہی تھی اور کانگریس کے سالانہ اجلاس کی صدارت کے لیے متعدد صوبوں سے ان کا نام منظور ہوچکا تھا۔ ان حالات میں علی گڑھ کے ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران انھوں نے برجستہ فرمایا کہ عقائد کے اعتبار سے ایک عام فاسق مسلمان کو بھی گاندھی جی پر فوقیت حاصل ہے۔ مولانا کے ان کلمات پر ہندو چراغ پا ہوگئے اور کانگریسی حلقوں میں تو ایک طوفانی ہلچل مچ گئی۔ بعض کانگریسی رہنماؤں نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ایسا فرقہ پرست شخص کانگریس کا بھلا کیسے بن سکتا ہے؟محمد علی جوہر کی جگہ اگر کوئی اور شخص ہوتا تو گھبرا کر معذرت خواہی پر اتر آتا۔ مگر اللہ کا یہ شیر پوری جرأت اور استقامت کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔

مشہور و معروف امین الدولہ پارک کے ایک اہم جلسہ عام میں انھوں نے ببانگ دہل یہ بھی کہا کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہیے۔’’جہاں تک سیاست کا تعلق ہے گاندھی جی ہم سب کے پیشوا ہیں لیکن جہاں تک مذہب کا تعلق ہے میرا یہی عقیدہ ہے کہ ایک فاسق و فاجر کلمہ گو بھی اپنے عقائد کے لحاظ سے تنہا مہاتما گاندھی ہی نہیں بلکہ دنیا جہان کے تمام بہتر سے بہتر سارے غیر مسلموں سے بڑھ چڑھ کر ہے۔‘‘ مولانا کی اس جرأت مندی کے نتیجے میں پورے مجمع پر سناٹا چھا گیا۔

اسی طرح جب پونا کے ایک ہندو اخبار میں گؤرکھشا یعنی گائے کے تقدس کی حمایت میں ہندو انتہا پسند رہنما بال گنگا دھر تلک کے حمایت یافتہ ایڈیٹر این سی کیلکر کا ایک متعصبانہ مضمون شایع ہوا تو مولانا بری طرح تڑپ اٹھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ان کا مشہور انگریزی اخبار کامریڈ فرنگی حکومت کے زیر عتاب ہونے کی وجہ سے بند پڑا ہوا تھا۔ یہ اشتعال انگیز مضمون مسلمانوں کے لیے کسی دھمکی سے کم نہ تھا۔ چنانچہ مولانا نے فوراً اس کے جواب میں ایک زبردست خط تحریر کرکے کیلکر کو ارسال کرنے کے لیے اپنے سیکریٹری حسن محمد حیات کے حوالے کردیا۔ اس خط کا لب لباب یہ تھا کہ اگر مسلمانوں پر ذرا بھی جبر کا کوئی پہلو پیدا ہوا تو میں پونا آکر خود اپنے ہاتھوں سے گائے ذبح کروں گا۔

اسی طرح انگریزوں کی حکومت کو للکارتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ’’میری بغاوت اس وقت سے شروع ہونے لگتی ہے جب دین و مذہب میں حکومت کی مداخلت شروع ہوجاتی ہے۔‘‘

ایک اور واقعہ 1928 کے درمیان کا ہے جب مولانا ذیابیطس کے علاج کے سلسلے میں فرانس اور برطانیہ گئے ہوئے تھے۔ ایک روز لندن کے ایک اخبار میں یہ خبر چھپی کہ ایک مسلمان کو پارلیمنٹ کی گیلری میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا گیا جوکہ بالکل انوکھی بات تھی۔ سب جان گئے کہ یہ مولانا محمدعلی جوہر کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

مولانا پر بس یہی دھن سوار تھی کہ پورا یورپ گھومیں اور قرآن کے انمول خزانے کو ایک ایک شخص تک پہنچائیں اور ہر اسٹیشن، ہر پارک اور ہر چوراہے پر نماز ادا کرکے لوگوں کو دین اسلام کے ابدی پیغام سے روشناس کرائیں۔
اسی سلسلے کا ایک اور واقعہ بھی ہے۔

رات آدھی سے زیادہ ڈھل چکی تھی۔ غالباً شب کا پچھلا پہر تھا۔ ستارے آسمان پر ٹمٹما رہے تھے۔ اس وقت مفتی اعظم فلسطین امین الحسین صاحب خانہ کعبہ کے پاس سے ہوکر گزر رہے تھے۔ دیکھتے کیا ہیں کہ ایک شخص نہایت عاجزی اور دلسوزی کے ساتھ گریہ و زاری میں مصروف ہے۔ آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک جھڑی لگی ہوئی ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ آواز بیٹھی ہوئی اور گردن سجدے میں جھکی ہوئی ہے۔ وہ شخص گڑگڑا کر اور رو رو کر پکار رہا تھا کہ ’’اے کارساز عالم چاہے تو میری کوئی اور آرزو پوری نہ کر، لیکن ایک بار ان آنکھوں کے سامنے خلافت راشدہ کا احیاء کرکے وہ مبارک اور مسعود زمانہ واپس لاکر دکھادے جس کا ذکر ہم نے صرف کانوں سے سنا ہے مگر آنکھیں جس کی دید سے اب تک محروم ہیں۔‘‘

مفتی اعظم فلسطین کا بیان ہے کہ میں حیرت سے یہ عجیب وغریب منظر دیکھ رہا تھا۔ پھر جب اس شخص نے اپنی پیشانی سجدے سے اٹھائی تو دیکھتا کیا ہوں کہ یہ مولانا محمد علی جوہر تھے جن کا نورانی چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔

اللہ تعالیٰ نے مولانا محمد علی کو شاعری کی نعمت سے بھی نوازا تھا اور جوہر ان کا تخلص تھا۔ اس بے بہا نعمت سے بھی انھوں نے وہی کام لیا جو ایک مرد مومن کے شایان شان تھا۔ ان کی شاعری و ارادت قلب سے عبارت ہے اور یہ ان کے دل کی زبان اور جذبہ صادق کی ترجمان ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
تجھ سے مقابلہ کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔