سینیٹ انتخابات۔ صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے

مزمل سہروردی  بدھ 3 مارچ 2021
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات کے حوالے  سے صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے دے دی ہے۔ سپریم کورٹ کی رائے پر حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی فتح کا جشن منا رہے ہیں اور دونوں فریق خوش ہیں۔ دونوں  کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے ان کے موقف کی تائید کر دی ہے۔

ویسے تو یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ اگر کسی فیصلے سے دونوں فریق ہی خوش ہوں اور اسے قبول کرنے کے شادیانے بجا رہے ہوںتو اسے منصف کی جیت بھی کہا جا سکتا ہے۔ ورنہ پاکستان میں تو عدالتی فیصلے متنازعہ بنانے کی ایک روایت ہے۔ ایک فریق خوش اور ایک ناخوش نظر آتا رہا ہے۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حکومت اور اپوزیشن  دونوںکی ہار ہوئی ہے اور فیصلہ دونوں کے خلاف آیا ہے۔ آپ دیکھیں حکومت کی خواہش تھی کہ سینیٹ انتخابات کو شو آف ہینڈ سے کرایا جائے۔ ارکان کو پابند بنایا جائے کہ وہ کھلے عام سب کے سامنے اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔ تا ہم سپریم کورٹ نے حکومتی استدعا مسترد کر دی ہے۔

اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکومت کے خلاف فیصلہ آیا ہے۔ حکومت کا یہ بھی موقف تھا کہ سینیٹ انتخابات آئین کے نہیں بلکہ الیکشن ایکٹ کے تحت ہوتے ہیں۔ اس لیے ایکٹ میں آرڈیننس یا پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت سے ترمیم کی جا سکتی ہے۔ تا ہم سپریم کورٹ نے حکومت کا یہ موقف بھی تسلیم نہیں کیا ہے اور واضح کر دیا ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہوتے ہیں۔ یہ بھی حکومت کی شکست ہے اور فیصلہ اس تناظر میں بھی حکومت کے خلاف ہی آیا ہے۔

دوسری طرف اپوزیشن کا موقف تھا کہ سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری سے ہوتے ہیں۔ اس لیے شو آف ہینڈ سے نہیں ہو سکتے۔ اپوزیشن کا سارا زور خفیہ رائے دہی پر تھا۔ ووٹ کو خفیہ رکھنے پر تھا۔ اپوزیشن کا موقف تھا کہ یہ کسی کو پتہ نہیں لگ سکتا کہ سینیٹ میں کس نے کس کووٹ ڈالا ہے۔ اس لیے ووٹ خفیہ ہی رہے گا۔ تا ہم اگر دیکھا جائے تو سپریم کورٹ نے اپوزیشن کے اس موقف کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا۔ اس ضمن میں ووٹ کو بعد ازاں قابل شناخت بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس اختیارات موجود ہیں۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کر سکتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو اپوزیشن سپریم کورٹ کو ووٹ خفیہ رکھنے پر قائل نہیں کر سکی ہے اور یہ اپوزیشن کے موقف کی شکست ہے۔

اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے جاری ہونے کے بعد عوام کی ملکیت ہو جاتے ہیں اور عوام کو ان پر رائے دینے اور ان پر مثبت انداز میں تبصرہ کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ جب تک کیس زیر سماعت ہو تب تک عدالت کے احترام میں تبصرے سے گریز کیا جا تا ہے۔ لیکن سیاسی معاملات میں پاکستان میں وہ بھی خیال نہیں کیا جا تااور سماعتوں کے دوران تبصرے بھی جاری رہتے ہیں، کوئی فیصلہ کا انتظار نہیں کرتا۔ تا ہم فیصلہ آنے کے بعد اس پر رائے دینا اور اس پر تبصرہ کرنے میں کوئی قانونی ممانعت نہیں ہے۔ اس لیے ہم اس فیصلہ پر اب رائے دے سکتے ہیں۔ تا ہم عدلیہ کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا لازمی ہے۔ ایسا تبصرہ نہیں کیا جا سکتا جس سے عدلیہ کی تضحیک کا پہلو نکلتا ہو۔

ووٹ کو ہمیشہ کے لیے خفیہ نہ رکھنے کی جو بات کی گئی ہے اس سے اکثر قانونی ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگار اختلاف کر رہے ہیں۔ میں بھی ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ یہ استدلال کمزور ہے کہ ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا۔ یہ درمیانی صورتحال کیسے قبول ہو سکتی ہے کہ ووٹ ڈالنے کے وقت تو خفیہ ہی رہے گا تا ہم بعد میں الیکشن کمیشن چاہے تو یہ جان سکے گا کہ کس نے کس کوووٹ ڈالا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح خفیہ رائے دہی کا سارا فلسفہ ہی ختم ہوگیا ہے۔ ووٹ یا تو خفیہ ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ہے۔ ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ رہے تب ہی اسے خفیہ کہا جا سکتا ہے۔ اگر ووٹ کا خفیہ ہونا کچھ وقت کے بعد ختم ہو سکتا ہے تو ووٹ خفیہ نہیں سمجھا جائے گا۔

مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آئی کہ سینیٹ انتخابات کی تمام تر خرابیوں کی ذمے داری ووٹر پر ہی کیوں ڈال دی گئی ہے۔ کیا سینیٹ کی ٹکٹوں کی تقسیم میں کرپشن نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت کو تو ٹکٹیں بیچنے کی کھلی اجازت ہے  لیکن ارکان پارلیمنٹ کو ان پر اعتراض کرنے اور ان سے اختلاف کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں کی قیادت پیسے لے کر سینیٹ کے ٹکٹ دیں تو وہ جائز ہے لیکن اگر ارکان پارلیمنٹ ان کے فرمان کے برعکس ووٹ ڈالیں تو وہ ناجائز ہے۔

اب آپ دیکھ لیں حکومتی جماعت تحریک انصاف کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ اور ان کے لیڈر ہی سینیٹ ٹکٹ میں پیسوں کا الزام لگا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ایک رکن نے تو ویڈیو بیان بھی جاری کیا ہے کہ وہ اے ٹی ایم کو ووٹ نہیں دے سکتا۔ تا ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح سے ارکان اسمبلی کو اختلاف کی اجازت نہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اختلاف کرنا ہے تو کھل کریں پھر ڈرنا کیا کہ کل کو پتہ لگ جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں سیاسی قیادت اختلاف پر اپنی پارٹی کے رکن کے خلاف انتقامی کارروائی کرنے کا اختیار رکھتی ہے لہٰذا اختلاف کا خفیہ رہنا ضروری ہے۔ آج جو  اختلاف کریں گے کل یہی سیاسی قیادت پھر ان کو ٹکٹ نہیں دے گی جس سے ان کا سیاسی کیریئر ختم ہو سکتا ہے۔ اسی لیے سیاسی جماعتوں کی قیادت نے اپنے ارکان اسمبلی کو اپنا غلام بنا لیا ہے۔جہاں اختلاف کو بغاوت سمجھا جاتا ہے۔

ووٹ خفیہ رکھنے کے اصول پر انسانیت کئی سو سال بعد پہنچی ہے۔ کمزور طاقتور کے خوف سے کھلے عام  اس سے اختلاف نہیں کرسکتا۔ مزارعے میں کھلے عام چوہدری کی مرضی کے خلاف ووٹ ڈالنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ اس لیے ووٹ کو خفیہ رکھا گیا ہے تا کہ کمزور طاقتور کے خلاف ووٹ ڈالنے کی ہمت کر سکے۔ لیکن اگر کمزور کو یہ خطرہ ہو کہ کل کو طاقتور کو یہ پتہ چل جائے گا کہ کمزور نے اس کی مرضی کے مطابق ووٹ ڈالا تھا کہ نہیں تو وہ طاقتو ر سے اختلاف کرنے کی جرات اور ہمت کھو دے گا۔ مزارعے چوہدریوں کے خلاف ووٹ ڈالنے کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیں گے۔ اس لیے خفیہ ووٹ تا حیات ہی نہیں بلکہ تا قیا مت خفیہ ہی رہنا چاہیے۔ اگر خفیہ رہنے کی کوئی مدت مقرر کر دی گئی تو سمجھیں ووٹ خفیہ نہیں ہے۔ مدت بے معنی ہو جائے گا۔ ووٹ پہلے دن سے ہی کھلا تصور ہوگا۔

سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں جس کیس کا حوالہ دیا ہے، وہ آئین بننے سے پہلے کا ہے۔وہ آمریت کے دور کا فیصلہ ہے۔ ایسے تو ان فیصلوں کے حوالے بھی دیے جاسکتے ہیں جن میں آمروں کو آئین میں ترمیم تک کرنے کا اختیار بھی دیا گیا تھا۔ ایسے فیصلے بھی موجود ہیں جن میں آئین کی معطلی اور آمریت کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ لیکن نہ تو ہمیں اور نہ ہی عدلیہ کو ان فیصلوں پر فخر ہے۔ ہمیں بیلٹ پیپر کی حرمت کو قائم رکھنے اور مزید مستحکم کرنے کی طرف جانا چاہیے۔

ووٹ کو مقدس بنانے کی طرف جانا چاہیے۔ میری رائے میں آج سینیٹ کے ووٹ پر بات ہو رہی ہے تو کل اسی کو بنیاد بنا کر یہ دلیل بھی دی جا ئے گی کہ امیدوار کو پتہ ہونا چاہیے کہ اس کے کس ووٹر نے اسے ووٹ دیا ہے یا نہیں۔ اس سے ملک کا جمہوری ڈھانچہ کمزور ہو جائے گا۔ اس سے زیادہ میں کچھ لکھنا نہیں چاہتا کیونکہ اعلیٰ عدلیہ کا احترام بھی ملحوظ خاطر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔