ہالی ووڈ کی فلمیں، دہشت گردی اور حقیقت

خرم سہیل  پير 6 جنوری 2014
khurram.sohail99@gmail.com

[email protected]

ہمارے ہاں فلم کا میڈیم صرف تفریح کے لیے استعمال ہوتا ہے، مگر مغرب نے اسے بطور ہتھیار استعمال کیا۔ جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان کے عوام نے ہمیشہ اس میڈیم سے تفریح حاصل کی اوراس سے متاثر بھی رہے۔ 2013 میں برصغیر کے سینما نے اپنے 100 برس پورے کرلیے، اگر ان برسوں کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو رومانوی فلموں کا تناسب 80 فیصد جب کہ ایکشن فلموں کا تناسب صرف 10 فیصد ہے اور باقی کے 10 فیصد میں مختلف نوعیت کی فلمیں بنیں، جن میں تاریخی اور آرٹ فلمیں شامل ہیں۔

بھارتی فلمی صنعت میں گزرتے وقت کے ساتھ کافی تبدیلی آئی، انھوں نے سنجیدہ اور بامقصد فلمیں بنائیں اور کسی حد تک اس میڈیم کو ایک ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا لیکن پاکستانی فلمی صنعت اپنے سنہرے ماضی کو سینے سے لگائے زوال پذیر ہوتی چلی گئی۔ امید ہے مستقبل قریب میں بہتری آئے گی، جیسے 2013 میں ریلیز ہونے والی ’’وار‘‘ سے ایک امید قائم ہوئی کہ ہمارے ہاں بھی بین الاقوامی سطح کی فلم بنائی جاسکتی ہے۔

مغرب میں خاص طور پر امریکی فلمی صنعت نے اس میڈیم کا صحیح استعمال کیا۔ انھوں نے اس کو ایک صنعت کے طور پر بنایا۔ امریکی جامعات میں فلم ایک مضمون کے طور پر شامل ہے۔ انھوں نے اس میڈیم کو مختلف درجات میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ اس کے مطابق تخلیق کاروں کو اس دھارے میں شامل کیا جاتا ہے۔ کون سا کہانی نگار کس موضوع پر اچھی کہانی لکھ سکتا ہے۔ کس موضوع پر ہدایت کاری کے لیے کون شخص موزوں ہوگا۔ کون سا کردار کس سے کروانا ہے ان سب پہلوؤں کو نظر میں رکھتے ہوئے اداکار کا انتخاب ہوتا ہے۔ جب اتنی باریک بینی سے کسی میڈیم کو تقسیم کیا جائے پھر صلاحیتیوں کے مطابق تخلیق کاروں کو مواقع دیے جائیں تو موضوعات میں جان کیسے نہیں پڑے گی؟ اسی وجہ سے ہالی ووڈ گزشتہ کئی دہائیوں سے جوفلمیں بنارہا ہے، وہ باکس آفس پر کامیاب ہیں۔

میں اگر ہالی ووڈ کی ایکشن فلموں کو تقسیم کروں تو چار مرکزی حصے بنتے ہیں پہلی قسم کی فلموں میں گینگ وار، سائنس فکشن اور ڈراؤنی فلمیںشامل ہیں۔ دوسری قسم کی فلمیں تاریخی کرداروں پر بنائی گئیں، ان میں حقیقی اور فرضی دونوں طرح کی فلمیں شامل ہیں۔ تیسری نوعیت کی فلموں کا تعلق پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے ہے۔ ہالی ووڈ نے ان جنگوں پر فلمیں بنا کر اپنے فوجیوں کی بہادری کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور خود کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ان کے نزدیک ہر جنگ کی وجہ وہ نہیں تھے بلکہ کوئی دوسرا تھا، امریکا نے ہر بار صرف اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھائے۔ چوتھی طرح کی فلمیں نائن الیون کے بعد تخلیق ہوئیں جس میں موضوع دہشتگردی ہے اور امریکا پر حملے سے لے کر اسامہ بن لادن کو مارنے تک تمام مراحل میں اپنے آپ کو حق کی لڑائی لڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

حقائق کیا ہیں، یہ تو سب جانتے ہیں مگر ان فلموں کے ذریعے فلم بینوں کے دماغ تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ امریکا نے کبھی اپنی دہشت گردی یا غنڈہ گردی پر کوئی فلم نہیں بنائی مثال کے طور پر پاکستان میں ڈرون حملوں کی وجہ سے بیگناہوں کی ہلاکتوں پر کوئی فلم تخلیق نہیں کی گئی جب کہ بہت سے امریکی شہری بھی ان حملوں کے مخالف ہیں لیکن اسامہ بن لادن کو مارنے کے لیے جو آپریشن کیا گیا، اس واقعے پر ایک برس کے اندر فلم بنادی گئی۔ ہالی ووڈ کے اس دہرے معیار کی وجہ سے اس کی حقائق پر بنائی ہوئی فلمیں بھی مشکوک لگتی ہیں۔ امریکا جس کا بھی دشمن ہوا، اس کی فلموں میں وہی ظالم کردار میں دکھائی دے گا۔ ویت نام اور نائن الیون ہو یا افغانستان اور عراق پر قبضہ، ہالی ووڈ کی فلمیں بھی انھی موضوعات کے اردگرد گھومتی رہی ہیں۔

دہشتگردی اور جنگی موضوعات پر بنائی گئی فلموں کی ایک مختصر فہرست سے قارئین کو اندازہ ہوسکے گا کہ وہ کون سی فلمیںہیں جن کے پیچھے ایک پراپیگنڈہ شامل ہے یا وہ کسی خاص مقصد کے تحت بنائی گئی ہیں، کیونکہ متوازن یا غیر جانبدار فلموں میں دونوں اطراف کی منظرکشی ہونی چاہیے، مگر ہالی ووڈ کی فلموں کے کردار صرف اپنی زبان بولتے ہیں اور یہ فطری بات ہے، وہ یہ میڈیم دشمنوں کے لیے استعمال کررہے ہیں، دوستوں کے لیے نہیں لہٰذا ان سے کوئی ایسی امید بھی نہیں رکھنی چاہیے، مگر وہ کیا بنارہے ہیں، اس کو تفریح سے ہٹ کر بھی کبھی دیکھ لینا چاہیے۔

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ہالی ووڈ نے مختلف دہائیوں میں جو فلمیں تخلیق کیں، ان کی تعداد 100 سے بھی زیادہ ہے، جن میں سے کچھ فلمیں بہت مشہور ہوئیں۔ 40 کی دہائی میں ٹو بی اور ناٹ ٹو بی، ہینگ مین آلسوڈائے، لسن ٹو بریٹن، ملینز لائیک اَس، اے واک اِن دی سَن، اے میٹر آف لائف اینڈ ڈیتھ، وینٹ دی ڈے وال، جیسی فلمیں شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر فلمیں نازی فوجیوں کے بارے میں بنائی گئی ہیں اور پہلی جنگ عظیم کی منظرکشی کو ان فلموں کے ذریعے بہتر طور پر پیش کیا گیا ہے۔

50 کی دہائی میں دی کرینز آر فلائنگ، آئس کولڈ ان ایلکس، نائٹ اینڈ فوگ، پاراٹروپ کمانڈ، برج آن دی ریورکوائی، اٹیک جیسی فلمیں بنیں، جن میں دل کش اوردل دہلا دینے والے مناظر تھے، لیکن یہ ابھی وہ وقت تھا جب فلموں میں ٹیکنالوجی شامل نہیں ہوئی تھی۔ 60 کی دہائی میںآرمی آف شیڈوز، دی ڈرٹی ڈوزین، ہیل ان دی پیسفک، دی گریٹ اسکیپ، بیٹل آف بریٹن، ویئر ایگلز ڈیئر، ہینی بال بروکس، مسٹر کلین جیسی فلمیں تخلیق کی گئیں۔ 70 کی دہائی میں سولجر آف اورنج، کیلیز ہیروز، کراس آف آئرن جیسی فلمیں بنیں۔ ’’بلیک سنڈے‘‘ نامی فلم کو ویت نام کے تناظر میں بنایا گیا۔اسی طرح 80 کی دہائی میں ’’کم اینڈ سی‘‘ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی، اس دہائی میں بننے والی دیگر فلموں میں گریو آف دی فائر فلائز، دی بِگ ریڈ ون، داس بوٹ، اسکیپ ٹو وکٹری، دی کیپ، دی لاسٹ میٹرو، ایمپائر آف دی سن، میپ ہسٹو، شوہو جیسی فلمیں بنیں۔ اس دور تک آتے آتے فلموں میں ٹیکنالوجی کا عمل دخل بھی ہوگیا اور فلمیں بلیک اینڈ وائٹ سے رنگین ہونے لگیں۔ 90 کی دہائی میںدی تھِن ریڈ لائن سیونگ پرائیویٹ ریان، یوروپا جیسی فلمیں تخلیق ہوئیں۔

نئی صدی کے آغاز پر ذہانت اور ٹیکنالوجی دونوں کا استعمال بھرپور طریقے سے ہونے لگا۔ اس صدی کے چودہ برسوں میں موضوعات بہت زیادہ بڑھ گئے اور پرانی جنگوں کے علاوہ نئی جنگوں پر بھی فلمیں بننے لگیں۔ ان برسوں میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے بننے والی فلموں میں ڈیز آف گلوری، دی پیانسٹ، ڈان فال اور دیگر فلمیں بنیں۔ اس دورکے بعد بھی مختلف ممالک نے ایک دوسرے کے لیے جاسوسی کا نظام بھی ترتیب دیا تھا، اس کی مناسبت سے 2010 میں انجلینا جولی کی فلم ’’سالٹ‘‘ ریلیز ہوئی، جو روس اور امریکا کے سرد جنگ کے زمانے کی فلم ہے، جس میں بتایا گیا کہ کس طرح یہ ایک دوسرے کے خلاف جاسوسوں کو تربیت دے کر استعمال کیا کرتے تھے۔نائن الیون، افغانستان اور عراق کے حوالے سے بنائی گئی فلموں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

ان فلموں کو دہشت گردی کے خلاف جدوجہد قرار دیتے ہوئے فلمیں بنائی گئیں۔ ریسٹروپ، ورلڈ ٹریڈ سینٹر، اے مائٹی ہارٹ، لوائنز فور لیمب، فائر اُوور افغانستان، اسامہ، قندھار، دی ہرٹ لاکر، جنریشن کِل، دی فور ہارسمین، اِن دی ویلی آف اِلاہ، ہوم آف دی بریو، بیٹل فور ہدایتا، اسٹاپ لاس، زیرو ڈارک تھرٹی شامل ہیں۔میں آخری فلم کا تذکرہ کرنا چاہوں گا، یہ فلم پاکستان میں ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے متعلق بننے والی فلم ہے۔ اس فلم کے ذریعے یہ دکھایا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں ہی روپوش تھا۔ اس فلم کو تکنیکی لحاظ سے اتنا اچھا بنایا گیا ہے کہ پراپیگنڈہ ہونے کے باوجود فلم میں اتنی کشش ہے کہ اسے دیکھا جائے۔ اسے کہتے ہیں صلاحیت اور ڈیجیٹلائزیشن کا درست استعمال، جس کا مظاہرہ اکثر ہالی ووڈ کرتا ہے۔

ویت نام میں امریکا کے ہارنے کے بعد ہالی ووڈ نے درجنوں فلمیں بنائیں، جن میں ریمبو سیریز کی فلم بھی شامل ہے، جب کہ نائن الیون سے روس اور امریکا کی سرد جنگ پر بھی کافی فلمیں بنیں اور نائن الیون کے بعد افغانستان، عراق، ایران، پاکستان پر بھی سیکڑوں فلمیں ہالی ووڈ کی طرف سے بنائی جاچکی ہیں۔ نہ جانے ہالی ووڈ کب ریڈانڈین کے قتل عام، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کا حملہ اور پاکستان میں ڈرون حملوں پر فلمیں بنانے کی سوچے گا یا شاید یہ ہالی ووڈ کا پسندیدہ موضوع نہیں ہے۔ ہم نے تو سنا تھا کہ فنکار غیر جانبدار ہوتے ہیں، مگر امریکا کے تو فلم ساز و فنکار بھی اس تعریف پر پورے نہیں اترتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔