سینیٹ الیکشن سے سبق سیکھ لیجیے

محمد عمران چوہدری  جمعـء 5 مارچ 2021
خان صاحب کو اپنی عزت کی خاطر اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ (فوٹو: فائل)

خان صاحب کو اپنی عزت کی خاطر اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ (فوٹو: فائل)

دھونس، دھاندلی، ممبران کی یرغمالی، معزز ممبران کی خریدو فروخت، اور وہ سب کچھ جو نہیں ہونا چاہیے تھا، وہ ہوا، اور سینیٹ الیکشن انجام پذیر ہوگئے۔

سینیٹ الیکشن کی بدولت حکومت اور اپوزیشن اراکین اسمبلی کی ’’پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں‘‘ کی سی کیفیت رہی۔ جیسے عام طور پر یہ اراکین اسمبلی اپنے حلقوں میں عین انتخابات کے وقت نظر آتے ہیں اور ہر ایک کو شرف ملاقات بخشتے ہیں، ایسے ہی ان کے لیڈران کو بھی ہر ایرے غیرے رکن اسمبلی کی ایسے مواقعوں پر ہی یاد آتی ہے۔

حکومت کی جانب سے نہ صرف اراکین اسمبلی کےلیے 50/50 کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز جاری کیے گئے، جو ناقدین کی نظر میں سیاسی رشوت ہیں۔ بلکہ کمال فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بادشاہ سلامت عمران خان نے بنفس نفیس اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں بھی فرمائیں۔ عین ممکن ہے اس موقع پر آپ نے اراکین اسمبلی کے مسائل کے تدارک کےلیے موقع پر ہی احکامات بھی صادر فرمائیں ہوں۔ حکومت کو چونکہ اپنی کارکردگی کا بخوبی اندازہ تھا، اس لیے اس نے حفظ ماتقدم کے طور سینیٹ الیکشن کو اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن عدالتی فیصلے کی وجہ سے حکومت کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ جس کی بدولت بظاہر ایسا محسوس ہوا دھتکارے ہوئے اراکین اسمبلی کو غصہ نکالنے اور اخراجات پورے کرنے کا موقع مل گیا۔ اور بیچارے خان صاحب کو اپنی عزت کی خاطر اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

غور طلب امر یہ ہے کہ حکومت کو ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ حکومت کےلیے سینیٹ الیکشن کڑوی گولی کیوں ثابت ہوئے۔ حکومت کو غیروں کے ساتھ اپنوں کی جانب سے کیوں مسائل کا سامنا کرنا پڑا؟ اگر ہم پی ٹی آئی سرکار کی گزشتہ ڈھائی سالہ کارکردگی کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت نوشتہ دیوار نظر آتی ہے کہ حکومت پر یہ دن آنا ہی تھا۔ کیونکہ حکومت اقتدار میں آنے کے بعد روزمرہ مسائل میں الجھی رہی اور ایسے منصوبے شروع کرنے میں ناکام رہی جن کی بدولت وطن عزیز میں معاشی سرگرمیوں کو پنپنے کا موقع مل سکے۔ حکومت نے ترقی کے دعوے تو ضرور کیے لیکن حکومت کو ترقی مرغیوں، انڈوں اور کٹوں میں ہی نظر آئی۔ اور پھر ستم بالائے ستم کہ اس کے متعلق بھی کوئی قابل ذکر پیش رفت نہ ہوسکی۔ حکومت نے ادارہ جاتی اصلاحات کے دعوے تو کیے، لیکن عمل نظر نہ آیا۔ خاص طور پر پولیس اصلاحات، جن کی بدولت پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا میں عوام کے دل جیت لیے تھے، وہ اصلاحات پنجاب میں نظر نہ آئیں۔ صحت کا محکمہ بھی حکومتی نظر کرم کا منتظر ہی رہا۔ اور ایسے کاموں کی ایک طویل فہرست ہے جو حکومت کی جانب سے کیے جاتے تو آج حکومت کےلیے سینیٹ الیکشن ایک کڑا امتحان نہ ثابت ہوتے۔

آج ڈھائی سال کے بعد بھی پی ٹی آئی کا ڈھائی سال پہلے والا بیانیہ ہے۔ ڈھائی سال قبل بھی خان صاحب اور ان کے رفقا میاں نواز شریف اور زرداری کو برا بھلا کہہ کر عوامی توجہ حاصل کیا کرتے تھے، اور آج بھی وہ ان کو برا بھلا کہہ کر، ان کی کرپشن کو بیان کرکے عوام کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ ڈھائی سال بعد وہ عوام کے سامنے اپنی کارکردگی رکھتے۔ عوام کو بتاتے کہ ہم نے ان مسائل کو کس طرح حل کیا۔ مگر صد افسوس پی ٹی آئی سرکار ابھی تک مسائل کی نشان دہی میں مصروف ہے۔ اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ غیر کیا ان سے آکر ملتے، اپنے بھی اخراجات پورے کرتے رہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سینیٹ الیکشن سے سبق سیکھتے ہوئے جنرل الیکشن کی منصوبہ بندی کی جائے۔ کرپشن کرپشن کا راگ الاپنا چھوڑ کر، مہنگائی کم کرنے کی جانب توجہ مرکوز کی جائے۔ صنعتی ترقی کے ذریعےعوام کےلیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ حکومت کی جانب سے جاری کردہ 50/50 کروڑ روپے کے فنڈز کا درست استعمال یقینی بناکر عوام کی زندگی کو آسان بنایا جائے۔ ادارہ جاتی اصلاحات کو فوری طور پر مکمل کیا جائے۔ اداروں میں جزا و سزا کے عمل کو تیز تر کرکے کرپٹ عناصر کا قلع قمع کیا جائے۔ بصورت دیگر آنے والے الیکشن پی ٹی آئی سرکار کےلیے توقع سے زیادہ مشکل ترین ثابت ہوں گے۔ اور عوام بیچارے پھر ان ہی چور، ڈاکو، لٹیروں (بقول عمران خان) کو بھاری اکثریت سے منتخب کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عمران چوہدری

محمد عمران چوہدری

بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور ای ایچ ایس سرٹیفکیٹ ہولڈر جبکہ سیفٹی آفیسر میں ڈپلوما ہولڈر ہیں اور ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں؛ آپ کوچہ صحافت کے پرانے مکین بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔