بالی وڈ کے بکاؤ ایکٹر اور ایکٹرسیں

سید عاصم محمود  اتوار 7 مارچ 2021
چند ٹکوں کی خاطر جنھوں نے سیاسی مہم چلانا قبول کر کے اصول واخلاقیات کی اقدار پامال کر دیں…ایک خفیہ آپریشن کا سنسنی خیز ماجرا

چند ٹکوں کی خاطر جنھوں نے سیاسی مہم چلانا قبول کر کے اصول واخلاقیات کی اقدار پامال کر دیں…ایک خفیہ آپریشن کا سنسنی خیز ماجرا

وسط جنوری 2012ء میں انکشاف ہوا کہ بھارت میں ایک ٹی وی نیٹ ورک ،ری بپبلک کا مالک اور ٹی وی اینکر،ارنب گوسوامی مودی حکومت کا منہ چڑھا دست راست بن چکا۔حکومتی ایوانوں میں اس کی رسائی اتنی زیادہ بڑھ گئی تھی کہ وہ وہاں طے پانے والے اہم ترین اور انتہائی خفیہ فیصلوں سے بھی آگاہ رہتا۔مگر گوسوامی کوئی غیرجانبدار صحافی نہیں بلکہ ہندتوا نظریے کا انتہاپسند مبلغ تھا۔اسی خصوصیت نے اسے ہندو قوم پرست جماعتوں ،آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈروں کی آنکھوں کاتارا بنا دیا۔

رفتہ رفتہ یہ جماعتیں گوسوامی کو اپنے خفیہ وعیاں ایجنڈے سے مطلع رکھنے لگیں تاکہ موصوف ری بپبلک ٹی وی اور اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے بھارتی عوام میں اس کی اشاعت کر سکے۔بھارت میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ اختلافات پیدا کرنا،مسلمانوں کو دہشت گرد اور جھگڑالو قرار دینا ،اسلام کو بدنام کرنا اور پاکستان کی پُرزور مخالفت اس ایجنڈے کے بنیادی نکات ہیں۔

گوسوامی اپنے ٹی وی نیٹ ورک اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی وساطت سے بڑے جنونی اور اشتعال انگیز انداز میں ہندو قوم پرست جماعتوں کے ایجنڈے کی ترویج واشاعت کرنے لگا۔بھارتی مسلمان اور پاکستان اس کا خاص نشانہ تھے۔انھیں نقصان پہنچانے اور بدنام کرنے کی خاطر وہ جھوٹی خبریں بھی تخلیق کرنے لگا اور زورشور سے ان کا پروپیگنڈا کرتا۔یوں گوسوامی نے عوام تک معلومات اور علم فراہم کرنے والے میڈیا  کو اپنی شر انگیز سرگرمیوں سے نفرت و دشمنی پھیلانے والا بھونپو بنا ڈالا۔دولت،شہرت اور عزت پانے کے لیے گوسوامی نے تمام انسانی اور اخلاقی اقدار پیروں تلے روند ڈالیں۔آخر مکافات عمل کا پہیہ چلا اور اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

پیسے کا راج

دکھ وغم کی بات یہ کہ مادہ پرستی اور تعصب کے جراثیم دنیا میں فلموں کے بہت بڑے مرکز،بالی وڈ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکے۔اخبار،رسائل اور ٹی وی کی طرح فلم بھی ایک موثر ذریعہِ ابلاغ ہے۔اچھی فلمیں انسان کو نیکی و بدی میں تمیز کرنا سکھلاتی اور اس کی روحانی واخلاقی تربیت کرتی ہیں۔ماضی میں بالی وڈ کئی عمدہ اور اخلاق سدھار فلمیں پیش کر چکا۔فلموں کے اداکار عموماً انسان دوست ہوتے اور نفرت پہ مبنی سیاسی سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں۔افسوس، بالی وڈ میں یہ روش قصہ ِپارنیہ بن چکی۔اب وہاں بھی بیشتر فلمی ستارے لالچ وہوس کا اسیر ہو کر پیسے کے پجاری ہیں۔بالی وڈ  اداکار،اداکارائیں،ڈائرکٹر،پروڈیوسر،گلوکار،رقاص وغیرہ چند ٹکوں کی خاطر اپنا دھرم بیچ ڈالتے ہیں۔کوبرا پوسٹ کے ایک خفیہ آپریشن نے یہی تلخ سچائی بڑے بے رحمانہ طریقے سے اجاگر کر دی۔

کوبرا پوسٹ بھارت کا غیرمنافع بخش آن لائن میگزین ہے۔یہ اپنے ’’انڈر کور‘‘یا بھیس بدل کر انجام دئیے گئے آپریشنوں کی وجہ سے مشہور ہے۔میگزین کے صحافی مختلف روپ دھار کر بظاہر شریف و ایمان دار مگر حقیقت میں گناہ آلودہ زندگی گذارتے مردوزن سے ملتے اور ان کی اصلیت عوام کے سامنے لانے کی سعی کرتے ہیں۔انھوں نے بھارت کے پارلیمانی الیکشن 2019ء سے قبل ایک ایسی ہی خفیہ مہم انجام دی جسے ’’آپریشن کراؤکے‘‘(Operation Karaoke)کا نام ملا۔

سیاسی پارٹی کے پٹھو

آپریشن کراؤکے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے سب سے پہلے اگست 2018 ء میں ایک فرضی ایڈورٹائزنگ ایجنسی تخلیق کی گئی جو سیاسی پارٹیوں کی تشہیر کا کام کرتی تھی۔پھر کوبرا پوسٹ کے صحافی ایجنسی کے افسروں کی حیثیت سے بالی وڈ کے مختلف ہیرو،ہیروئنوں،گلوکاروں وغیرہ سے ملے۔ان سے بس ایک سوال پوچھا گیا:’’کیا آپ اپنے سوشل میڈیا (فیس بک،ٹویٹر،انسٹا گرام اور وٹس اپ)اکاؤنٹس سے کسی سیاسی جماعت کے نظریات کی تشہیر کر دیں گے چاہے وہ نفرت و دشمنی پھیلاتے ہوں؟‘‘

بھارتی صحافی یہ جان کر بھونچکا رہ گئے کہ بالی وڈ کی جن فلمی شخصیات سے رابطہ کیا گیا،ان کی اکثریت نے ہامی بھر لی…شرط مگر یہ تھی کہ انھیں اس کام کا معقول معاوضہ دیا جائے۔گویا وہ پیسے کے لیے اپنے تمام اصول وضابطے توڑتے کسی سیاسی پارٹی کے منفی اور اشتعال انگیز پیغامات و نظریات بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے لاکھوں فاؤلرز میں پھیلانے کو تیار ہو گئے۔آن لائن میگزین کے صحافیوں نے بالی وڈ کی چالیس نامی گرامی ہستیوں سے رابطہ کیا۔ان میں سے 90فیصد نے سیاسی جماعتوں میں بی جے پی کو ترجیح دی اور کہا کہ وہ اس کے لیے بخوشی کام کرنے کو تیار ہیں۔یہ سبھی فلمی ستارے سوشل میڈیا میں مجموعی طور پر کروڑوں فاؤلر رکھتے ہیں۔

بالی وڈ کی جن فلمی شخصیات سے میگزین کے صحافی بھیس بدل کر ملنے میں کامیاب رہے ان  کے نام یہ ہیں:

(ایکٹر اور ایکٹرسیں):۔ جیکی شیرف،شکتی کپور،ویوک اوبرائے،سونو سود،امیشا پٹیل،ماہیما چودھری،سنی لیون،امان ورما،راکھی ساونت،شریاس تلپڈے،سریندر پال،پنکج دھیر،روہیت رائے،پونم پانڈے،منیشا لامبااور دیگر۔

(کامیڈین ):۔راج پال یادو،راجو سری واستا،سنیل پال،کرشنا ابھیشک،اپسنا سنگھ اور وجے ایشور لال۔

(گلوکار):۔ابھیجیت بھٹ چاریہ،کیلاش کھیر،میکا سنگھ اور بابا سہگل۔

(کوریوگرافر):۔گنیش اچاریہ…(رقاص)سمبھاونا سیٹھ ۔

صحافی ودیا بالن،ارشد وارثی ،رضا مراد اور سومیا ٹنڈن سے بھی رابطہ کرنے میں کامیاب رہے مگر ان فلمی ستاروں نے پیسے لے کر کسی سیاسی جماعت کا پٹھو بننے سے معذرت کر لی۔ان کا ضمیر شاید زندہ تھا۔

چونکا دینے والے انکشافات

بھارتی آن لائن میگزین کے آپریشن کراؤکے کا اہم ترین انکشاف یہی ہے کہ بالی وڈ کی کئی مشہور ہستیاں پیسے پانے کی خاطر غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرمیاں انجام دینے کے لیے بھی تیار ہو گئیں۔آپریشن سے یہ چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے:

٭…فلمی ستاروں نے ہامی بھر لی کہ پارلیمانی الیکشن 2019ء سے قبل وہ متعلقہ سیاسی پارٹی کو مقبول بنانے کے لیے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس کے نظریات کی ترویج کرنے والی پوسٹس لگائیں گے۔ان میں پارٹی کی خوبیاں بیان ہوں گی۔کچھ ستاروں نے تو پیسے پانے سے پہلے ہی پوسٹس لگا دیں تاکہ اپنا شوق وجذبہ (جعلی) ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو دکھا سکیں۔

٭…بیشتر ایکٹر و ایکٹرسیں نقد رقم حاصل کرنے پر آمادہ ہو گئیں۔گویا انھیں سیاہ دھن لینے میں کوئی عار نہ تھا۔

٭…کئی فلمی ہستیوں نے یہ عندیہ ظاہر کیا کہ وہ سیاسی پارٹی سے موصول ہونے والے مواد میں اپنے جملے بھی شامل کر دیں گے۔مدعا یہ تھا کہ عوام کو بتایا جا سکے، یہ مواد ان کا تخیلق کردہ ہے۔

٭…بیشتر نے ہامی بھر لی کہ وہ متنازع معاملات میں بھی پارٹی کی حمایت کریں گے، مثلاً مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنا،ریپ کے واقعات ،پلوں کا گرنا وغیرہ۔

٭…بالی وڈ کے سبھی ستاروں نے ایڈورٹائزنگ کمپنی کے نمائندوں کو یقین دلایا کہ وہ اپنی سرگرمی خفیہ رکھیں گے تاکہ فاؤلرز اس کی حقیقت نہ جان سکیں۔

٭…چند فلمی شخصیات نے  تجویز دی کہ اگر انھیں زیادہ رقم مل جائے تووہ اپنی فلموں کی پروموشنل تقریبات میں بھی سیاسی پارٹی کے ایجنڈے کی حمایت کرنے والی باتیں کر سکتے ہیں۔

٭…اسی طرح بعض فلمی ستاروں نے تجویز دی کہ وہ اپنے اکاؤنٹس پر وڈیوز بھی شئیر کر دیں گے۔انھیں پھر فاؤلرز کی مدد سے وائرل کر دیا جائے گا۔

جیسا کہ بتایا گیا،نوے فیصد بالی وڈ شخصیات ہندو قوم پرست جماعت،بی جے پی کی حمایت کرنا چاہتی تھیں۔ان کی تمنا تھی کہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے اسی کی انتخابی مہم بہ عوض معاوضہ چلائی جائے۔بقیہ دس فیصد نے کانگریس اور عام آدمی پارٹی کی مہم چلانے کا فیصلہ کیا۔

سیاہ دھن کے عاشق

آپریشن کراؤکے میں شامل صحافی بتاتے ہیں کہ تقریباً سبھی فلمی ہستیوں نے آنکھ جھپکے بغیر انتخابی مہم چلانے کے لیے ’’ہاں‘‘کر دی اور پھر یہ گفتگو کرنے لگے کہ رقم کتنی اور کیسے ملے گی اور کام کیونکر انجام پائے گا۔سوشل میڈیا پہ فالورز کی تعداد اور معاشرے میں اپنی مقبولیت کے لحاظ سے ان کا ریٹ فی پوسٹ ’’دو لاکھ سے پچاس لاکھ روپے‘‘کے درمیان تھا۔بعض ستاروں نے تجویز دی کہ ان سے نو ماہی معاہدہ کر کے انھیں یکمشت رقم ادا کی جائے۔سبھی نے نقد لینے میں کوئی پریشانی محسوس نہ کی۔ یاد رہے، بھارت میں زیادہ بڑی رقم اب سیاہ دھن کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ 2012ء میں کوبرا پوسٹ نے بالی وڈ انڈسٹری میں سیاہ دھن کا چلن افشا کرنے کی خاطر ایک اسٹنگ آپریشن کیا تھا۔اس پوشیدہ مہم کے دوران مشہور پروڈیوسروں مثلاً وشو بھگوانی،انیس بزمی اور ڈائرکٹر انوبھا سنہا نے بہروپ بدلے صحافیوں کو بتایا کہ وہ سیاہ دھن لے کر فلمیں بنانے کے لیے تیار ہیں۔آپریشن کراؤکے سے انکشاف ہوا کہ بالی وڈ میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی اور سیاہ دھن کا چلن اب بھی وہاں عام ہے۔

مثال کے طور پر اداکارہ منیشا لامبا کو اپنا پورا معاوضہ نقد میں درکار تھا۔جب اسے پتا چلا کہ 10فیصد رقم بذریعہ چیک ملے گی تو وہ پریشان ہو گئی۔بولی:’’لیکن آپ نے تو مجھے بولا تھا کہ سارا (مال)کیش ہو گا۔‘‘اسی طرح اداکار امان ورما کو بھی سارا روپیہ نقد چاہیے تھا۔اس نے بتایا’’مجھے روکڑے سے محبت ہے۔‘‘

بالی وڈ کا نامی گرامی ولن،شکتی کپور بھی کیش کا متوالا نکلا۔اس نے صحافیوں کو صاف کہہ دیا:’’بھئی مجھے نمبروں کے کھیل میں نہیں ڈالنا۔‘‘(یعنی چیک وغیرہ نہیں دینا)۔ایکٹر پنکج دھیر کا کہنا تھا:’’یار،کیش ہی مجھے تسلی دیتا ہے۔چیک تو سر گھما دیتا ہے۔‘‘

 فن میں استاد ایجنٹ

آپریشن کراؤکے میں شامل صحافی چند ایجنٹوں کی وساطت سے بیشتر فلمی شخصیات تک پہنچے۔پہلے وہ اسی ایجنٹ کو کام کی بابت بتاتے۔پھر وہ فلمی ہستی سے رابطہ کر کے اسے کام کی نوعیت سے آگاہ کردیتا۔اکثر میٹنگوں میں وہ ایجنٹ بھی شریک رہے۔اس دوران صحافیوں کے خفیہ کیمرے ساری گفتگو اور مناظر ریکارڈ کرتے رہتے۔مدعا یہ تھا کہ آن لائن میگزین کو ٹھوس ثبوت مل جائیں ورنہ سبھی ایکٹر اور ایکٹرسیں بعد میں اپنے کہے سے مکر سکتی تھیں۔ایجنٹوں میں سمیر متانی نامی ایجنٹ صحافیوں کے خوب کام آیا۔وہ اپنے فن میں استاد تھا۔اس کا کہنا تھا کہ فیس کے بارے میں صرف اسی سے بات کی جائے۔

سمیر متانی کی وساطت سے جب صحافی چند فلمی ہستیوں سے ملاقات کر چکے تو اسے شک ہو گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔اس نے پھر اصرار کیا کہ وہ ایڈورٹائزنگ کمپنی کا دفتر دیکھنا چاہتا ہے جس کا کوئی وجود نہ تھا۔صحافیوں نے اسے مطمئن کرنے کی پوری کوشش کی مگر وہ دفتر دیکھنے کے لیے بضد رہا۔آخر اس سے رابطہ منقطع کرنا پڑا۔اس دوران مگر سمیر صحافیوں کو ان فلمی شخصیات کے نام ای میل کر چکا تھا جو سوشل میڈیا پہ سیاسی پارٹی کی انتخابی مہم پیسے کی خاطر چلا سکتے تھے۔اور یہ کہ ان کی متوقع فیس کتنی ہو گی۔یہ معلومات پا کر آپریشن کراؤکے انجام دینے میں مدد ملی۔

اہل خانہ بھی متحرک

بعض اوقات فلمی ہستیاں صحافیوں کو دیگر ستاروں سے ملوانے میں مددگار بن گئے۔مثلاً سریندر پال نے انھیں پونیت ایسار اور اپسنا سنگھ سے ملوا دیا۔مزے کی بات یہ کہ کچھ فلمی شخصیات نے پیش کش دی کہ سیاسی جماعت کی انتخابی مہم چلانے کے لیے اس کے اہل خانہ بھی مدد کر سکتے ہیں(تاکہ انھیں بھی معاوضہ مل سکے)۔مثلاً اداکارہتین تجوانی نے اپنی بیوی،گوری پردھان کو بھی منصوبے میں شامل کر لیا۔اسی طرح پنکج دھیر نے کہا کہ وہ اپنے بیٹے اور بہو کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بھی انتخابی مہم چلا سکتا ہے۔گلوکار میکا سنگھ اپنے دوستوںکو منصوبے میں شامل کرنے پہ تیار تھا۔اداکار روہیت رائے نے صحافیوں کو میسج کیا کہ اس کا بھائی بھی انتخابی مہم چلا سکتا ہے۔

بڑھ چڑھ کر بولی لگی

اکثر کیسوں میں فلمی شخصیات نے مالی معاملات اپنے مینجروں کے سپرد کر دئیے تاہم وہ بھی باتوں باتوں میں اشارے دے گئے کہ ان کی فیس کتنی ہو گی۔بیشتر نے بڑھ چڑھ کر عدد بیان کیا حالانکہ وہ سوشل میڈیا میں ان کے فاؤلرز کی تعداد سے لگا نہیں کھاتا تھا۔مثلاً ماہیما چودھری اب فلموں میں کام نہیں کرتی البتہ سوشل میڈیا میں خاصی متحرک ہے۔اس نے کہا کہ وہ ایک پوسٹ کے ایک کروڑ روپے لے گی۔صحافیوں نے اتنی زیادہ رقم پر اظہار حیرت کیا تو وہ بولی:’’بی جے پی تو کچھ بھی دے سکتی ہے۔اس کے لیے ایک کروڑ روپے معمولی رقم ہے۔‘‘

اداکار سونو سود کا کہنا تھا کہ وہ نو ماہ تک بی جے پی کی انتخابی مہم چلانے کے بیس کروڑ روپے لے گا۔اس نے بتایا کہ وہ روزانہ پانچ سے سات پوسٹس کرے گا۔یہ سبھی بہت زبردست اور شاندار ہوں گی جن سے بی جے پی کو فائدہ ہو گا۔صحافیوں نے اسے بتایا کہ وہ اس کی کل فیس ڈیرھ کروڑ روپے ہی دے سکتے ہیں۔سونو کہنے لگا:’’جناب،یہ کام بہت مشکل ہے۔اس میں بہت کھپنا پڑتا ہے۔لہذا محنت دیکھتے ہوئے ڈیرھ کروڑ روپے کم ہیں۔آپ یہ رقم ڈھائی کروڑ روپے کر دیں۔‘‘

مسلمان مخالف گلوکار

بیشتر فلمی ستاروں کا کہنا تھا کہ سیاسی پارٹی کی مشہوری کے لیے انھیں جو مواد ملا،وہ اسے بہتر بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔(مسلمانوں اور پاکستان کے کٹر مخالف)گلوکار ابھیجیت بھٹ چاریہ نے بھیس بدلے صحافیوں کو بتایا:’’میں ایسی وڈیوبنا کر پوسٹ کروں گا جو نیچرل لگے ۔مثلاً کار چلاتے ہوئے بی جے پی کی تعریف کرنا۔یا چائے پیتے ہوئے اس کے حق میں بیان دینا۔اس طرح یہ وڈیوز فطری لگیں گی۔‘‘بھٹ چاریہ ملاقات میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے سے باز نہیں آیا۔کہنے لگا:’’راجا سنگھ بھائی نے بہت اچھا کیا۔وہ حیدرآباد(دکن)سے میرے پاس آتے رہتے ہیں۔وہاں کے یوگی(ادتیہ ناتھ)ہیں۔اس نے بولا تھا کہ روہنگیا (مسلمانوں)کو اتنا سر پہ کیوں چڑھا رہے ہو؟سیدھا گولی مار دو۔جو ہندو ان کو سپورٹ کرتے ہیں،میں کہتا ہوں کہ پہلے ان کو گولی مارو، پھر روہنگیا کی باری آئے۔‘‘

واضح رہے،اس گلوکار نے ستمبر2016ء میں یہ کہہ کر بھارت میں خاصا ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا کہ کرن جوہر اور مہیش بھٹ غدار اور واجب القتل ہیں۔کیونکہ وہ پاکستانی فلمی ستاروں کی نشونونما کرتے اور انھیں ترقی دیتے ہیں۔یہ آدمی خواتین کی بے عزتی کرنے میں طاق ہے۔کئی بار پولیس اس اخلاق باختہ شخص کو گرفتار کر چکی مگر وہ شیطانی حرکتیں کرنے سے باز نہیں آتا۔

سب سے بڑا روپیا

کیلاش کھیر مشہور بھارتی گلوکار ہے۔2004ء میں ’’اللہ کے بندے‘‘نامی گانا کر شہرت پائی۔وزیراعظم مودی نے بھارت بھر میں صفائی کی مہم(سوچھ بھارت ابھیہان)کا آغاز کیا تو اس کا تعارفی گانا بھی کیلاش نے گایا۔صوفی مت کا عاشق یہ گویّا بھی مگر پیسے کا متوالا نکلا۔اس نے نہ صرف پیسے کمانے کے لیے بی جے پی جیسی متعصب پارٹی کی حمایتی مہم چلانے کی ہامی بھر لی بلکہ وہ سیاہ دھن لینے پر بھی آمادہ نظر آیا۔اس نے صحافیوں کو کہا’’آپ میرے مینجر سے بات کر لیں۔آپ جو کہیں گے ،وہی ہو گا۔بس ہمارا بھی خیال رکھیں۔‘‘

اسٹینڈ اپ کامیڈین، سنیل پال تو کانگریس کا کٹر مخالف ثابت ہوا۔اس نے ایڈورٹائزنگ کمپنی کے نمائندوں کے سامنے بصد شوق راہول گاندھی کا مذاق اڑاتا لائیو شو پیش کیا۔کہنے لگا:’’راہول بولتا ہے کہ ہماری پارٹی نے ساٹھ سال عوام کی خاطر کیا کچھ نہیں کیا۔میری دادی نے اس دیس کو آگے بڑھایا۔پاپا نے اسے ڈبل کر دیا…اب مجھے حکومت سونپ دو،میں سب کچھ چوپٹ کر دوں گا…اور سونیا جی کے بارے میں تو پوچھو متی،وہ ایک سنکی کی ماں ہے۔میں یہ سب کچھ بول کر وڈیو بنا آپ کو سینڈ کروں گا۔‘‘

سنیل پال کو احساس ہو گیا کہ بی جے پی کا حمایتی بن کر وہ لاکھوں روپے ماہانہ کما سکتا ہے۔اسی لیے انٹرویو کے چند ہفتے بعد وہ ایک تقریب میں کانگریس پر برس پڑا۔مگر وہاں کانگریس کے پرستار بھی موجود تھے جنھوں نے شور مچا دیا۔منتظمین نے سخت احتجاج پر مجبوراً سنیل کو تقریب سے نکال دیا۔لیکن وہ باز نہیں اور ٹویٹر پر راہول گاندھی کے خلاف توہین آمیز ٹویٹس کر ڈالے۔

سوشل میڈیا کے نقصان

ابھیجیت بھٹ چاریہ اور سنیل پال کی مثالوں سے عیاں ہے کہ سوشل میڈیا فوائد رکھتا ہے اور نقصان بھی!خصوصاً اگر اس دنیا میں شیطان صفت انسان داخل ہو جائیں تو وہ اپنے اکاؤنٹس کے ذریعے معاشرے میں جھوٹ پھیلا کر خاصی تباہی پیدا کر سکتے ہیں۔اور یہی ہو رہا ہے کہ آج کل فیس بک،ٹویٹر،وٹس اپ وغیرہ کے ذریعے بہت سی جھوٹی باتیں لوگوں میں پھیل کر مختلف نقصان پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔یہ عمل بھارت جیسے ملک میں زیادہ خطرناک بن جاتا ہے جہاں مختلف اقوام بستی ہیں اور ان کے مابین مذہبی،معاشرتی،معاشی اور سیاسی اختلافات پائے جاتے ہیں۔مودی دور میں سوشل میڈیا پر پھیلائے جھوٹ کئی بھارتی مسلمانوں کی جانیں لے چکے۔

آن لائن میگزین نے جن فلمی شخصیات سے رابطہ کیا،ان میں اکثر سوشل میڈیاکی دنیا میں لاکھوں پرستار یا فاؤلر رکھتے ہیں۔مثال کے طور پر صرف ویوک اوبرائے کے تیس لاکھ فالورز تھے۔اور بھٹ اچاریہ کے بیس لاکھ۔امیشا پٹیل کے ساٹھ لاکھ اور میکا سنگھ کے کل ایک کروڑ۔ان میں سرفہرست سنی لیون ہے،بالی وڈ کی سیکس سمبل جو دو کروڑ فالورزکھتی ہے۔غرض یہ فلمی ہستیاں محض چند کلکس سے کروڑوں بھارتیوں کے دل ودماغ پر اثرانداز ہونے کی طاقت رکھتے ہیں۔وہ صرف سمارٹ فون بھی اسعتمال کریں تو اپنی پوسٹس کے پروپیگنڈے سے لاکھوں پرستاروں کو کسی سیاسی پارٹی کا حمایتی یا مخالف بنا دیں۔

اکثر ترقی پذیر ممالک کی طرح بھارت میں بھی بیشتر آبادی ناخواندہ یا کم پڑھی لکھی ہے۔یہ کروڑوں بھارتی ظاہری و سطحی باتوں پہ توجہ دیتے اور باطن میں جھانکنے کی زحمت نہیں کرتے۔اسی لیے انھیں گمراہ کرنا آسان ہے۔وہ منفی باتوں کو قبول کر کے اندھا دھند اپنے لیڈروں کے بتائے راستے پہ چل پڑتے ہیں۔مودی دور حکومت میں خصوصاً بھارت منفی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا۔یہ عمل اس لیے اپنایا گیا تاکہ آر ایس ایس اور بی جے پی بھارت کو سیکولر سے ہندو مملکت میں تبدیل کر سکیں۔

تاریکی میں روشنی کی کرنیں

کوبرا پوسٹ کے صحافیوں کو تاریکی میں کہیں کہیں روشنی بھی دکھائی دی۔جب انھوں نے اداکارہ سومیا ٹنڈن کو ٹیلی فون پر اپنے منصوبے سے آگاہ کیا تو وہ بولی:’’میں ذاتی فائدے کے لیے کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ نہیں ہوتی کیونکہ یہ بات میرے اصولوں کے خلاف ہے۔بہت سارے اداکار پیسے کی خاطر کچھ بھی کر لیتے ہیں مگرمیں کوئی کام صرف اسی وقت کرتی ہوں جب مجھے اس سے دلی سکون حاصل ہو۔‘‘

سینئر اداکار رضا مراد بھی نہایت اصرار کے باوجود کسی سیاسی پارٹی کا بھونپو بننے کو تیار نہیں ہوئے۔انھوں تو صاف کہہ دیا کہ وہ سوشل میڈیا میں سرگرم نہیں اور نہ ان کا ٹویٹر اکاؤنٹ ہے۔انھیں کہا گیا کہ وہ اکاؤنٹ بنا لیں اور کمائی کا سنہرا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں۔وہ بولے:’’بھئی،مجھے نہیں بنانا اور نہیں بنانا…‘‘

ممتاز اداکار ارشد وارثی کے مینجر کو صحافیوں نے اپنے مقصد کی بابت بتایا۔انھیں یقین تھا کہ یہ ایکٹر پیسے لے کر کام کر دے گا۔مگر اگلے دن ارشد کے مینجر نے بتایا:’’سندیپ جی،میں نے سر سے بات کی ہے۔وہ کسی پارٹی کی پوسٹ اپنے اکاؤنٹس پر نہیں لگانا چاہتے۔‘‘مینجر کو بتایا گیا کہ یہ ڈائرکٹ اشتہار بازی نہیں ہے۔وہ بولا:’’آپ درست کہتے ہیں۔مگر سر ایسے چکروں میں نہیں پڑتے۔پیسے کے لیے انھوں نے کبھی کسی کی انتخابی مہم نہیں چلائی۔‘‘

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ بالی وڈ کی چند نامور فلمی ہستیوں سے بہروپ بھرے صحافیوں کی کیا گفتگو ہوئی۔

جیکی شیرف

بالی وڈ کے اس ممتاز ایکٹر سے صحافی ہوٹل تاج میں ملے۔اس کا مینجر،ششی بھی موجود تھا۔یہ اداکار تب فیس بک پر 3.5لاکھ،انسٹاگرام پہ 3.27لاکھ اور ٹویٹر پر 2.25لاکھ فاؤلرز رکھتا تھا۔اسے بتایا گیا کہ الیکشن 2019ء سے قبل بی جے پی کی ڈیجٹل تشہیر کرنا مقصود ہے۔کیا وہ اس میں حصہ لے گا؟جیکی دادا نے فوراً ہامی بھر لی۔اسے بتایا گیا کہ سوشل میڈیا پہ یہ انتخابی مہم ڈھکے چھپے انداز میں چلانی ہے تاکہ لوگ اس کو بی جے پی کا کھلم کھلا حمایتی نہ سمجھ لیں۔جیکی نے کہا:’’اپن کو معلوم ہے کہ سیاسی لوگ کیا گیم کھیلتے ہیں۔اپن کو ان کی گیم سے کوئی لینا دینا نہیں،تم ہمیں دھن دو گے اور ہم ان (بی جے پی)کی باتیں پھیلا دیں گے۔اوپر والے سے فقیر اور کیا مانگے؟‘‘

جیکی کو تفصیل سے بتایا گیا کہ اس نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے کیونکر بی جے پی کے حق میں پروپیگنڈا کرنا ہے۔وہ بولا:’’بالی وڈ کے پانچ چھ بچے سوشل میڈیا پر بہت باتیں کرتے ہیں۔تم لوگوں نے ان سے بات کی؟اکشے کمار سے بھی کہو،وہ میرا یارہے۔‘‘جیکی سے کہا گیا کہ اکشے کمار،انوپم کھیر اور بہت سے ایکٹر وایکٹرسیں علی اعلان کسی نہ کسی جماعت کے ساتھ ہیں۔اس لیے ان سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔وہ صرف ایسی فلمی شخصیات سے مل رہے ہیں جو واضح سیاسی وابستگی نہیں رکھتے۔

جیکی نے پھر پوچھا کہ کام کائے دن چلے گا؟بتایا گیا کہ ستمبر 2018ء سے شروع ہو کر مئی 2019ء میں الیکشن کے خاتمے تک۔وہ ہنس کر بولا:’’ارے باپ رے،اتنی دیر تک۔نو مہینے میں تو بچہ آ جاتا ہے۔خیر کام ہو جائے گا۔‘‘

صحافیوں نے پھر اسے بتایا کہ بی جے پی کی حمایتی پوسٹس اس انداز میں پوسٹ ہوں گی کہ کسی کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ پارٹی کا لیڈر ہے۔جیکی بولا:’’ہاں ،یہ کام سوچ سمجھ کر کرنا ہے۔یہ تو میں سمجھ گیا۔‘‘پھر وہ بے تکلفانہ طریقے سے بولا:’’وہ اولمپین ہے نہ،وہ میرا یار ہے۔فکر نہ کرو۔‘‘وہ یہاں ایک بی جے پی وزیر کی بات کر رہا تھا۔پھر کہنے لگا:’’دیکھو ،میں ایک نان کمیونل آدمی ہوں۔کسی قسم کے لفڑے میں نہیں پڑتا۔خاص طور پر پیسے کی خاطر کوئی دنگا نہیں کرتا۔مجھے تو کئی ستّو بھی دے تو اپنے حال میں مست رہتا ہوں۔‘‘

آخر میں یہ بات ہوئی کہ جیکی کام کا کتنا معاوضہ لے گا۔اس نے بتایا کہ یہ بات میرے مینجر سے کرو۔پھر بولا’’ا:دیکھو بھائی،ہم نے تمھارے لیے اپنے دل کا دروازہ کھول دیا۔اب تم بھی اپنی تجوری کا دروازہ کھولو نہ۔‘‘اسے یقین دلایا گیا کہ منہ مانگا معاوضہ ملے گا۔وہ فلسفیانہ اندازمیں بولا:’’تم لوگ مجھے دادا سمجھتے ہو۔سچ یہ ہے کہ میں دنیا سے خالی ہاتھ جاؤں گا…بس بیچ مں جو کھیل چل رہا ہے،کھیلے جا رہا ہوں۔‘‘

جیکی کو بتایا گیا کہ منیجر سے بات ہو جائے گی۔ وہ پھر فلسفی کی طرح بولا:’’اور مجھے سنبھال کو کھیلنا،میری عمر کو سنبھال کر کھیلنا۔‘‘صحافی اسے اندر چھوڑ کر مع مینجر باہر آئے۔مینجر نے جو معاوضہ بتایا،اسے قبول کر لیا گیا۔مینجر بولا:’’کم از کم 20فیصد رقم دادا کے اکاؤنٹ میں آئے۔کیونکہ کل کوئی لفڑا ہو تو اسے سنبھال سکیں۔‘‘پوچھا گیا کہ 80فیصد رقم کیش چل جائے گی؟اس نے اثبات میں سر ہلایا۔یوں معاہدہ ہو گیا۔

شکتی کپور

اس مشہور ولن سے صحافی اسی کی رہائش گاہ پر ملے۔وہ جلد سارا کام سمجھ گیا۔بولا:’’میں تو ویسے بھی مودی جی کے ساتھ ہوں۔اترکھنڈ میں ایک جلسہ ہوا تو وہاں مودی جی کے ساتھ بھاشن دیا تھا۔‘‘

معاوضے کی بات ہوئی تو شکتی نے کسی پس وپیش کے بغیر کہا:’’میں اس کام کے نو کروڑ لوں گا۔ہو ماہ ایک کروڑ روپے۔اور ہاں،مجھے نمبروں کے کھیل میں نہ ڈالنا ۔‘‘یاد رہے،جب مودی حکومت نے بڑے کرنسی نوٹ ختم کیے تو شکتی کپور ٹی وی پہ سیاہ دھن کے خلاف بھاشن دیتا رہا۔اب پتا چلا کہ یہ پندونصائح صرف عوام کے لیے تھا۔ایلیٹ طبقے میں کالا مال قانونی بن جاتا ہے۔

سنی لیون

کوبرا پوسٹ کے بھیس بھرے صحافی ایکٹرس کے دفتر میں اس سے ملے۔وہ سنی لیون کے مینجر کو پہلے ہی سارا معاملہ سمجھا چکے تھے۔ملاقات میں سنی کا شوہر،ڈئینل ویبر اور میجر بھی موجود تھے۔صحافیوں نے انھیں بتایا کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے انتخابی مہم خفیہ طریقے سے چلانی ہے۔ڈئینل بولا:’’ہاں ہم جانتے ہیں…ہمیں غیر محسوس انداز میں عوام کی ذہنیت بی جے پی کے حق میں کرنی ہے۔‘‘

آخر میں معاوضے کی بات ہوئی۔سنی کا مینجر بولا:’’ہم فیس بک،ٹویٹر اور انسٹاگرام پر کوئی فرمائشی پوسٹ لگانے کے پندرہ لاکھ لیتے ہیں یعنی فی اکاؤنٹ پانچ لاکھ۔اگر ہم نے ہر ماہ ان اکاؤنٹس پر پندرہ پوسٹس لگائیں تو آپ کو 75لاکھ دینے ہوں گے۔جعلی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے افسروں نے ہامی بھر لی۔یوں معاہدہ طے پاگیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔