اچّھی عادات کام یابی کا راز

شہروزہ وحید  جمعـء 5 مارچ 2021
کام یابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو لوگوں کو کام یاب ہونے میں مدد دیں۔ خوش حالی چاہتے ہیں، تو دوسروں کو خوش حال ہونے میں مدد دیں۔ فوٹو: فائل

کام یابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو لوگوں کو کام یاب ہونے میں مدد دیں۔ خوش حالی چاہتے ہیں، تو دوسروں کو خوش حال ہونے میں مدد دیں۔ فوٹو: فائل

عادات ہماری زندگی میں طاقت ور عوامل کا درجہ رکھتی ہیں، کیوں کہ وہ غیر محسوس طریقے سے ہمارے کردار پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

آپ کی عادات آپ کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہیں۔ آپ جیسا انسان بننا چاہتے ہیں، اس میں سب سے بڑی رکاوٹ آپ کی بَد عادات ہیں۔ اگر آپ بہت کام یاب ہونا چاہتے ہیں، تو آپ کو اپنی بعض عادات ترک کرنا ہوں گی۔ مثال کے طور پر دیر سے اٹھنا، محنت سے جی چرانا، کام میں لیت و لعل کرنا، جلدی فیصلہ نہ کرنا، غیر مستقل مزاج ہونا۔ کام یابی کے لیے آپ کو ان عادات کے بہ جائے اچھی عادات اپنانا ہوں گی۔

اگر آپ بھی کام یاب ہونا چاہتے ہیں، تو آپ کو بھی یہ عادات اپنانا ہوں گی۔ کام یاب ہونے کے لیے ایمان دار ہونا ضروری ہے۔ کام یابی خصوصاً مالی کام یابی کی سب سے بڑی وجہ ایمان داری ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’سچے اور امانت دار تاجر کو (آخرت میں) نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کی رفاقت نصیب ہوگی۔‘‘ (ترمذی)

ایمان داری کا مطلب یہ ہے کہ آپ کبھی اپنے حصے سے زیادہ نہ لیں، اور کسی بھی طرح اس چیز کو قبول نہ کریں، جس پر آپ نے محنت نہیں کی۔ بَددیانتی کی بہت سی صورتیں ہیں۔ مثال کے طور پر کم تولنا، کم ماپنا، اچھی کہہ کر خراب چیز دینا، وعدہ خلافی کرنا وغیرہ۔ بددیانتی کبھی چُھپی نہیں رہتی، آج نہیں تو کل پکڑی جائے گی۔ بددیانتی کی بنیاد جھوٹ ہے۔

مومن کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا یہ ناصرف گناہ کبیرہ ہے، بل کہ اس کے اور بھی بہت سے نقصانات ہیں۔ اس سے فرد کا پورا کردار ہی مشکوک ہو جاتا ہے۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے بہت سے جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ جب ہم لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں، تو اپنے آپ کو چالاک اور ہوشیار محسوس کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ احساسات عارضی اور خود فریبی ہوتے ہیں اور جب جھوٹ پکڑا جاتا ہے، تو ہماری ساری ساکھ تباہ ہو جاتی ہے۔ اگر آپ دنیا اور آخرت میں کام یابی چاہتے ہیں، تو ایمان دار بنیں۔ یہ آپ کے لیے کام یابی کے دروازے کھول دے گی۔

شُکر ایک اسلامی صفت ہے۔ ہمیں ہر حال میں شُکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اﷲ تعالی کے فرمان کا مفہوم ہے کہ جو شخص جس نعمت پر شُکر کرے گا، میں اسے وہ نعمت اور زیادہ دوں گا۔ شُکر گزاری، درحقیقت احساس کا نام ہے۔ شُکر گزاری کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالی نے جو دیا ہے، وہ اس کی راہ میں استعمال ہو۔ شُکر گزاری کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ اﷲ تعالی نے جو نوازشیں، آسانیاں اور جو نعمتیں بھی آپ کو عطا کی ہیں، وہ دوسروں میں بھی بانٹنا شروع کر دیں۔ اپنے رویّے سے، انداز سے، اپنے برتاؤ سے شُکرگزار بنیں، کیوں کہ اس کا پتا برتاؤ یا عمل سے چلتا ہے کہ بندہ کتنا شُکرگزار ہے۔

ایک برتاؤ ادب ہے، جو آدمی ادب نہیں کرتا، وہ شُکرگزار نہیں ہوسکتا۔ جو احترام سے بات نہیں کرسکتا، وہ شُکرگزار نہیں ہو سکتا۔ جو اپنے رزق میں دوسروں کو شامل نہیں کرتا، وہ شُکرگزار نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا آپ جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں، اسے حاصل کرنے اور مزید حاصل کرنے کے لیے اپنے رب کا شُکر ادا کریں اور اس کی مخلوق کا بے حد خیال رکھیں۔

اپنے رب کی نعمتوں کا شُکر ادا کرنے کے لیے ان نعمتوں کی فہرست بنائیں، جن کے لیے آپ اپنے رب کریم کے شُکرگزار ہیں۔ مثال کے طور پر: بینائی، سماعت، چلنا پھرنا، دوڑنا، اچھی صحت، اچھی تعلیم، چھوٹی یا بڑی کام یابی اور معمولی اور غیر معمولی خوش حالی وغیرہ۔ اس فہرست میں ہر وہ چیز شامل کریں، جس کے لیے آپ شُکرگزار ہیں۔ خصوصاً وہ چیزیں جو آپ حاصل کرنا یا مزید حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جب بھی موقع ملے، اﷲ کی نعمتوں کے لیے، اپنے رب کے بے حد شُکرگزار ہوں۔

صبر کرنا بھی کام یاب لوگوں کی ایک اہم خوبی ہے۔ جب ہم صبر کرتے ہیں، تو چیزیں تیزی سے ہماری طرف آتی ہیں۔ صبر کرنے سے مراد یہ نہیں کے آپ آنکھیں بند کرکے اور کوشش کو ترک کرکے پُرامید ہو کر انتظار کرتے رہیں۔ انتظار بامقصد ہو۔ یہ نئی معلومات اکٹھی کرنے اور مناسب منصوبہ بندی پر مشتمل ہو۔ اگر آپ صبر نہیں کریں گے اور بے صبری کا مظاہرہ کریں گے، تو آپ کو ناکامی کا سامنا ہوگا۔ غرور، حرص اور لالچ بے صبری کی سب سے بڑی وجوہات ہیں۔ ہر فرد جلد کام یاب ہونا چاہتا ہے، جب کہ کام یابی صبر مانگتی ہے۔ بے صبری کی وجہ سے اکثر بڑی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔

یہ بات یاد رکھیں! کوئی بھی مقصد جلد حاصل نہیں ہوتا۔ کسی اہم منزل کی طرف کوئی مختصر راستہ نہیں ہوتا۔ صبر کریں، ان شاء اﷲ آپ کو منزل جلد مل جائے گی۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ خدا اس کے ساتھ ہے، جس نے صبر کیا اور جس نے صبر کیا، وہ کام یاب ہُوا۔

آپ کے پاس جو کچھ ہے، وہ دوسروں کو بھی دیں۔ لوگوں کو اس میں شریک کریں۔ یہ صرف مادی چیزیں ہی نہیں ہوتیں، بل کہ لوگوں کو اپنا وقت دیں، مسکراہٹ دیں، سب کی بات کو غور سے سن لیں، اپنے منصوبے میں دوسروں کو شریک کریں، تاکہ وہ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ بنیادی طور پر اﷲ تعالی نے آپ کو جو نعمتیں دی ہیں، اردگرد کے لوگوں کو اس میں شریک کریں۔ اﷲ تعالی کے ارشاد کے مطابق ہم جو کچھ دیتے ہیں، اس سے اس سے کئی گنا زیادہ ہمیں اس دنیا ہی میں مل جاتا ہے اور آخرت میں تو اﷲ تعالی اپنی شان کے مطابق عطا فرمائیں گے۔

لیکن دیا صرف اﷲ تعالی کی رضا کے لیے جائے، نہ کہ بدلے کے لیے، یا نمود و نمائش اور واہ واہ کے لیے۔ دیتے وقت ہمارا روّیہ یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں صرف اﷲ کی رضا کے لیے دوسروں کی مدد کرنی ہے۔ اس کے بدلے کسی چیز کی توقع نہیں کرنی ہے۔ جو کچھ ہم کماتے ہیں اس سے صرف زندگی چلتی ہے، مگر جو کچھ ہم دیتے ہیں اس سے ہماری زندگی بنتی ہے۔ کام یابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو لوگوں کو کام یاب ہونے میں مدد دیں۔ خوش حالی چاہتے ہیں، تو دوسروں کو خوش حال ہونے میں مدد دیں۔

کام یابی کے لیے خطرہ مول لینا لازم ہے۔ کوئی اہم اور بڑی کام یابی خطرہ لیے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ اگر آپ عظیم کام یابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو بہادر بننا ہوگا۔ اپنے خالق پر یقین رکھیں، اس سے مدد طلب کریں اور حالات و واقعات سے خوف زدہ مت ہوں اور مایوسی کو اپنے قریب بھی نہ آنے دیں۔ خوف کے بغیر کوئی فرد بہادر نہیں ہوتا، بہادر بنیں، مگر بے وقوف نہ بنیں۔ بے وقوفی اور بہادری میں یہ فرق ہے کہ بہادری میں ہم حالات کا اچھی طرح جائزہ لیتے ہیں، پوری منصوبہ بندی کرتے ہیں، تمام معلومات اکٹھی کرتے ہیں، اور پھر خوف کے باوجود عملی قدم اٹھاتے ہیں۔

حماقت میں ہم حالات کا جائزہ نہیں لیتے، تیاری نہیں کرتے، بل کہ بلا سوچے سمجھے کسی دانا سے مشورہ کیے بغیر ہی عملی اقدام اٹھا لیتے ہیں۔ ناکامی کی صورت میں شرمندگی کا خوف ہوتا ہے۔ اگر آپ نے کام یاب ہونا ہے، تو ناکامی کا سامنا کریں۔ اس سے سبق سیکھیں۔ جو کچھ سیکھیں، پھر ان کی بنیاد پر نئے سرے سے کام شروع کریں۔ کم ہمت افراد کبھی نہیں جیتے، جب کہ کام یابی کی بنیادی خاصیت بہادری ہے۔ لہذا اگر آپ نے کام یاب ہونا ہے، تو بہادر بنیں اور ان لوگوں میں شامل ہوجائیں، جنہوں نے خطرات مول لیے، اور کام یابیاں حاصل کیں۔

ہمارے حالات، ہماری کام یابی اور ناکامی ہماری عادات کا نتیجا ہوتے ہیں۔ یہ ہماری انتہائی خوش قسمتی ہے کہ بد عادات کو ختم کرنا ہمارے اختیار میں ہے۔ اچھی عادات کی وجہ سے کوئی بھی کام آسان ہو جاتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ تمام عادات سیکھی جا سکتی ہیں۔ اگر آپ زندگی میں مؤثر اور کام یاب ہونا چاہتے ہیں، تو اپنی عادات کو بہتر بنائیں۔ اوپر بیان کی گئی پانچ عادات کو اگر اپنی ذات کا حصّہ بنا دیا جائے تو یہ مؤثر باہمی تعلقات کے قابل بنا دیتی ہیں۔ ان کے ذریعے آپ کام یابی حاصل کر سکتے ہیں۔

اپنے تباہ کن روّیوں اور پُرانی عادات کو نئی پُراثر اور خوش کن عادات سے تبدیل کر سکتے ہیں اور اپنی زندگی کو سہل اور بامقصد بنا سکتے ہیں۔ اگر آپ نے دین اسلام کے احکامات پر جس طرح رسالت مآب ﷺ نے فرمائے ہیں اور ان پر عمل کرکے دکھایا ہے تو آپ نے بھی اگر اسوۂ رسول کریم ﷺ پر عمل کیا تو ناصرف آپ کی دنیا آسودہ ہوجائے گی بل کہ آخرت میں بھی کام یابی آپ کا مقدر رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔