احترامِ مادر

پروفیسر رائے اعجاز کھرل  جمعـء 5 مارچ 2021
’’والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو‘‘۔ فوٹو: فائل

’’والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو‘‘۔ فوٹو: فائل

اﷲ تعالیٰ نے ماں کی شان اتنی بلند کی ہے کہ ماں کی عظمت اور شان کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جسم میں سب سے کم تر عضو پاؤں کو سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے جنّت ماں کے پاؤں کے نیچے بتائی گئی ہے۔

قرآن پاک اور احادیث میں ماں کے مقام و مرتبے پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

ارشاد بانی کا مفہوم ہے: ’’والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بل کہ ان سے احترام سے بات کرو۔ نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما۔ جس طرح انہوں نے رحمت اور شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔‘‘

اﷲ تعالیٰ نے والدین کے حقوق کی ادائی پر زور دیا۔ اس کے بعد خصوصیت کے ساتھ ماں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جسے اس کی ماں تکلیف کی حالت میں اپنے پیٹ میں برداشت کرتی رہی ۔

پہلے حکم میں تاکید مشترک ہے اور والدین کے ساتھ یکساں نیک سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جب کہ دوسرے حکم میں صرف ماں کے لیے تاکید اور اس کی تکالیف کا ذکر کیا گیا ہے۔ جب کوئی بات ضروری ہو اور کہنے والا بھی قدر و منزلت رکھتا ہو تو بات کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ماں کی عظمت و بزرگی اور اس کے ادب و احترام کی قرآن پاک میں بار بار تاکید کی گئی ہے اور اس پر مزید اضافہ رسول اکرم ﷺ کی بہت سی احادیث میں فرمایا ہے۔

ایک صحابی ؓ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا: اﷲ تعالیٰ کے بعد مجھ پر کس کا حق ہے؟

آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تیری ماں کا۔‘‘

صحابی نے پوچھا: اس کے بعد کس کا حق ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تیری ماں کا۔‘‘ صحابیؓ نے پھر عرض کیا مگر اس کے بعد کس کا حق ہے ؟ نبی اکرم ﷺ نے تیسری بار بھی یہی ارشاد فرمایا: ’’تیری ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔‘‘ جب صحابی نے چوتھی بار سوال دہرایا تو سیّد عالم ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے بعد تیرے باپ کا حق ہے۔‘‘

(مفہوم: بہ حوالہ بخاری)

ایک طویل حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک دن نبی اکرم ﷺ منبر پر جلوہ افروز تھے کہ اچانک آپ نے ’’آمین‘‘ کے الفاظ بلند آواز سے تین مرتبہ ادا فرمائے۔ پھر قریب بیٹھے صحابہ اکرام ؓ سے فرمایا: ’’ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جس شخص نے اپنے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں کو بڑھاپے میں پایا اور ان کی خدمت سے مرحوم رہا یا ان کی دل آزاری کی اور تکلیف کا سبب بنا تو وہ اپنے اس عمل میں اﷲ کی رحمت سے مرحوم ہوگیا اور جہنم میں چلا گیا۔ اس پر میں نے ’’آمین‘‘ کہہ دیا۔ دوسری بار آپ ﷺ نے ’’آمین‘‘ اس شخص کے بارے میں کہا جس نے اپنی زندگی رمضان المبارک کا مہینہ پایا لیکن اس کی برکتوں اور سعادتوں سے مرحوم رہا اور اپنے گناہ نہ بخشوا سکا۔ تیسری بات جو جبرائیل امین نے کہی اور اس پر نبی ﷺ نے ’’آمین‘‘ کہا۔ اس شخص کے بارے میں بھی جس کے سامنے حضور ﷺ کا ذکر کیا گیا اور اس نے آپ ﷺ پر درود نہ پڑھا اور وہ اسی حالت میں ہی مرگیا تو گویا وہ اﷲ کی رحمت سے دور جہنّم میں جا گرا۔

ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک صحابیؓ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں جہاد میں شرکت کی اجازت حاصل کرنے حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے صحابیؓ سے پوچھا: کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟ صحابیؓ نے عرض کیا: جی وہ زندہ ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے صحابیؓ کو حکم دیا کہ جاؤ! اپنی ماں کی خدمت بجا لاتے رہو کہ اس سے تمہیں حج کا ثواب بھی ملے گا، عمرے کا بھی اور جہاد کا بھی۔

آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے خدا نے تمہاری ماں کی نافرمانی تم پر حرام کر دی ہے۔

نبی اکرم ﷺ نے ایک صحابیؓ کو والدہ کے بعد خالہ کے ساتھ ماں کے برابر حسن سلوک کی تاکید فرمائی۔

ماں حقیقت میں ایک گہوارہ ہے جس میں بچہ پرورش پاتا ہے۔ ماں کی گود بچے کے لیے پہلی درس گاہ ہے، جہاں بچہ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتا ہے۔ اگر یہ گود دین و اخلاق سے وابستہ ہو تو معاشرے کو بہترین افراد مہیا ہوتے ہیں لیکن اگر یہ گود خود ہی دین و اخلاق سے عاری ہو تو معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں۔ ایک ماں ہی معاشرے کو بنانے اور بگاڑنے کی ذمے دار ہوتی ہے۔ ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن، ترجمہ و تفسیر سے پڑھانے کا اہتمام کرے۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی بے حد ضروری ہے۔ کیوں کہ دینی تعلیم ہی انسان کو انسان بناتی ہے ورنہ وہ جانور کی طرح ہے ۔ بچوں کو بزرگوں کا ادب و احترام سکھایا جائے اور ماں اپنی اولاد کو نیکی کا حکم دے اور برائی سے سختی سے روکے۔

ہمیں اپنی ماں کا احترام اسی طرح کرنا چاہیے جس طرح اﷲ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب کریم رسول اکرم ﷺ نے حکم فرمایا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔