اعتماد کا ووٹ: وزیراعظم کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟

احتشام بشیر  جمعـء 5 مارچ 2021
وزیراعظم نے ہفتے کو اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

وزیراعظم نے ہفتے کو اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایوان بالا سینیٹ کا انتخابی عمل مکمل ہوگیا۔ نتائج سامنے آچکے ہیں۔ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ قومی اسمبلی میں جہاں پاکستان تحریک انصاف عددی برتری حاصل ہونے کے باوجود واحد جنرل نشست نہ جیت سکی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوگئے۔

پیپلزپارٹی کی جانب سے جب سید یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا گیا تو اس وقت ہی پورے ملک کی نظریں قومی اسمبلی پر لگ گئی تھیں کہ حفیظ شیخ، یوسف رضا گیلانی کا مقابلہ کرسکیں گے؟ سیاسی حلقوں میں اس الیکشن پر بحث و مباحثے ہونے لگے۔ یوسف رضا گیلانی کی نامزدگی کے اعلان کے ساتھ ہی حکومت کےلیے خطرے کی گھنٹی بج چکی تھی۔ سابق صدر آصف علی زرداری کا گیلانی کو میدان میں اتارنا یونہی نہیں تھا، اس کےلیے انہوں نے یقیناً پورا ہوم ورک کیا ہوگا اور حکمران جماعت کے مقابلے میں امیدوار کو کامیابی کی نیت سے اتارنا کوئی مذاق نہیں تھا۔ آصف زرداری کی سیاسی چال کامیاب ہوئی اور وہ اپنے امیدوار کو کامیاب کرانے میں کامیاب ہوگئے۔

سینیٹ کی نشست ہارنے کے بعد اب وزیراعظم کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہوگا؟ یہ بڑا سوال ہے۔ الیکشن کے نتائج کے بعد انہوں نے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ نتائج سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر یہ رائے سامنے آرہی تھی اور پی ڈی ایم کا بھی یہی مؤقف تھا کہ سینیٹ کی نشست ہارنے کے بعد وزیراعظم قومی اسمبلی میں اعتماد کھوچکے ہیں۔ پی ڈی ایم بھی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے لائحہ عمل بنارہی تھی۔ لیکن وزیراعظم نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور ہفتے کے دن وہ اعتماد کا ووٹ لے رہے ہیں۔

سینیٹ الیکشن کی طرح اعمتاد کا ووٹ خفیہ رائے شماری سے نہیں ہوتا۔ اب اس صورتحال میں وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کےلیے 172 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہے۔ اگر کسی وجہ سے حکومتی ارکان مطلوبہ تعداد سے کم رہے تو پھر کیا صورتحال بن سکتی ہے؟ ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے لیکن ہفتے کے دن قومی اجلاس میں حکومتی ارکان کی تعداد پوری کرنا حکومتی پارٹی کا کام ہے۔ اعتماد کے ووٹ کے بعد وزیراعظم کا کیا ردعمل ہوگا فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔

خیال یہ کیا جارہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نتائج کے خلاف عدالت جانے اور الیکشن کمیشن جانے کی منظوری دے چکے ہیں اور ایک قانونی جنگ لڑی جائے گی۔ دوسری جانب وزیراعظم سیاسی میدان میں بھی اپوزیشن کےلیے اب جارحانہ انداز اپنائیں گے۔ اس کےلیے انہوں نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد مشاورتی اجلاس بھی بلایا ہے۔ گورنر خیبرپختونخوا، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور وزیر دفاع پرویزخٹک سے بھی ان کی مشاورت ہوئی ہے اور آنے والے دنوں میں ملکی سیاست میں بھونچال کا آنا خارج از امکان نہیں ہے۔

اسلام آباد کی سینیٹ نشست کے بعد حکومتی حلقوں میں ہلچل مچ چکی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اب اسی کھوج میں ہیں کہ ان کی صفوں میں یہ بغاوت کرنے والے کون ہیں۔ اس سے قبل بھی 2018 کے انتخابات میں خیبرپختونخوا سے جب ان کی پارٹی کے کچھ ارکان نے مخالف امیدوار کو ووٹ دیے تو اس وقت بھی انہوں نے کارروائی سے گریز نہیں کیا تھا۔ اور اب بھی یہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ اعتماد کا ووٹ لینے اور سیاسی طوفان تھمنے کے بعد وہ مخالف امیدوار کی جھولی میں ووٹ ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ اس حوالے سے انہوں نے پہلے ہی کھوجیوں کو ٹاسک حوالے کردیا ہے۔

سینیٹ الیکشن ایسے وقت میں ہوئے جب اپوزیشن کی جانب سے 26 مارچ کو حکومت کے خلاف مارچ کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ اپوزیشن کے پاس طویل مارچ کا بھی وقت نہیں۔ مارچ کے ٹھیک دو ہفتے بعد رمضان المبارک بھی شروع ہونے والا ہے اور اپوزیشن کے پاس یہی دو ہفتے ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 15 مارچ سے 15 اپریل حکومت اور اپوزیشن کی اس جنگ میں جیت کس کی ہوتی ہے۔ اگر آئینی حدود میں رہتے ہوئے حکومتی حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تو یہ وزیراعظم عمران خان کے اختیار میں ہوگا۔ سیاسی حلقوں میں یہ باتیں زیر بحث ہیں کہ حکومتی حوالے سے تبدیلیوں کا امکان ہے، لیکن حالیہ دو بڑوں کی ملاقات میں ایسا کچھ مستقبل نظر نہیں آرہا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔