اعتماد کا ووٹ یا محفوظ راستہ؟

شاہد کاظمی  ہفتہ 6 مارچ 2021
اعتماد کے ووٹ کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہوئی تو کیا ہوگا؟ (فوٹو: فائل)

اعتماد کے ووٹ کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہوئی تو کیا ہوگا؟ (فوٹو: فائل)

فرض کیجیے وزیراعظم عمران خان آج اعتماد کا ووٹ لیتے ہیں۔ اور اعتماد کے ووٹ کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے کے بعد وزیراعظم پاکستان مستعفی بھی ہوجاتے ہیں تو کیا یہ اپوزیشن کی کامیابی تصور ہوگی؟ یا پھر یہ عمل پاکستان تحریک انصاف کےلیے بھی ایک محفوظ راستہ تو نہیں کہ تین سال تو گزر گئے، مزید دو سال کےلیے انتخابی مہم کےلیے مناسب وقت مل جائے گا؟

آپ خود جائزہ لیجیے کہ پچھلے تین سال میں معاملات کیسے چل رہے ہیں اور کس طرح معاشی نظام بیٹھ سا گیا گیا۔ ایک عام دکاندار سے لے کر بڑی کاروباری شخصیات تک سب ہی مسائل کا شکار ہیں۔ یہاں دو باتیں بہت اہم ہیں۔ عام پاکستانی کو تاثر یہ دیا گیا ہے کہ بھئی یہاں چور بازاری ہے اور ہم نے چور بازاری کا راستہ روکنے کےلیے سخت قوانین بنائے ہیں، ایف بی آر کو اختیارات دیے ہیں، اینٹی کرپشن یونٹس کو فعال کیا اور اس حوالے سے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ پہلی بات ہے۔

دوسری بات جو انتہائی اہم ہے کہ ایک مزدور، دکاندار، چھوٹا کاروباری، اوسط درجے کے کاروباری معاملات سے اپنی گزر بسر کرنے والے اس پوری صورتحال سے انتہائی پریشانی کا شکار ہوگئے۔ آپ کو ایک بڑی کمپنی کی مثال دیتا ہوں جہاں کم و بیش پچھلے تین سال سے ملازمین کو وہ بونس اور تنخواہ میں اضافہ یعنی انکریمنٹ نہیں دیا گیا جو اس کمپنی کے قیام سے آج تک روایت رہی ہے۔ اب بظاہر کنزیومر کورٹس موجود ہیں، لیبر کورٹس موجود ہیں، اس جیسے دیگر فورمز بھی موجود ہیں جہاں عام صارف یا مزدور، ملازم اپنے حقوق کےلیے رابطہ کرسکتا ہے۔ تھوڑی تحقیق خود بھی کیجیے تو حقیقت یہی سامنے آئے گی کہ اپنے استحصال کے باوجود عام مزدور یا ملازمین اپنے مالکان کے خلاف جانے کو تیار نہیں کہ عدالتی کارروائی میں جو وقت صرف ہوگا تو لگی بندھی آمدن بھی جائے گی۔ لہٰذا وہ بونس نہ ملنا، یا تنخواہ میں سالانہ اضافہ نہ ملنے کی وجہ سے کسی محاذ آرائی کے بجائے جو مل رہا ہے اسی پر مجبوری میں شاکر ہیں کہ چلو کچھ مل تو رہا ہے۔

عام صارف کےلیے صورتحال ایسی ہے کہ آپ اپنے گھر کا ماہانہ راشن بل اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ آپ کو اس راشن بل میں ہر مہینے چند سو روپے کا اضافہ یقینی طور پر نظر آئے گا اور یہ اضافہ اتنا ہے کہ باآسانی فرق نظر آجاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال چھوٹے کاروباری افراد کےلیے ہے۔ ایک صاحب اس بات سے نالاں ہیں کہ ٹیکسز کی بھرمار کردی گئی ہے، جس کی وجہ سے مناسب منافع کمانے میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔ زراعت کے پیشے سے وابستہ افراد کی بھی یہی شکایت ہے۔ کھیت سے منڈی تک سبزی لے جانے والے کیرج ڈرائیور جب زیادہ کرایہ وصول کرتے ہیں تو کسان شاکی دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن کیرج ڈرائیور اس بات سے نالاں ہیں کہ ایک تو ان کو منڈی تک جاتے ہوئے راستے میں نذرانے کی مشکلات ہیں تو دوسری جانب پٹرول و ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں نے کسر پوری کردی ہے۔ وہ کریں تو کیا کریں؟

صحت کا شعبہ دیکھ لیجیے۔ آپ کسی ہنگامی صحت کے مسئلے سے دوچار ہیں تو آپ کو اسپتال کے معاملات کےلیے لگ پتا جائے گا۔ تعلیم کے حوالے سے پہلے ہی کورونا کی وجہ سے ادھ موئے ہوئے والدین مزید پریشانی کا شکار ہیں کہ پرائیویٹ اسکولز میں نہ تو فیس کا کوئی معیار مقرر ہے اور نہ ہی سرکاری اسکولوں کی حالت زار ایسی ہوسکی ہے کہ وہاں لوگ بچے پڑھا سکیں۔

ملازمت پیشہ افراد ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشی مشکلات کے باعث نفسیاتی مسائل کا شکار ہورہے ہیں۔ کیوں کہ سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنا مشکل ہورہا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ بڑے کاروباری حضرات کےلیے ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی ایمنسٹی اسکیم کی طرز پر جاں خلاصی کی سبیل کردی جاتی ہے کہ وہ اپنا بچاؤ کر پائیں۔

میعشت، زراعت، صنعت، حرفت، تعلیم، صحت، تعمیرات، شاہرات، توانائی، سیاحت، خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی، ہوا بازی وغیرہ یا ان کے علاوہ بھی کوئی ایک ایسا شعبہ بھی دکھا دیجیے جس میں تبدیلی سرکار، تبدیلی کے نام پر ووٹ لینے کے بعد کوئی تبدیلی ایسی لاسکی ہو جس کے بارے میں کہا جاسکے کہ ہاں یہ کام پچھلی حکومتیں نہیں کرپائیں؟

ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر تو ایک طعنہ بن چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کوئی ایک ایسا انتخابی وعدہ بتائیے جو تبدیلی سرکار پورا کرنے میں کامیاب ہوئی ہو؟ کیا انتخابی اصلاحات ہوگئیں؟ کیا اراکین اسمبلی جوابدہ ہوگئے؟ کیا وزیراعظم خود جوابدہ ہوئے؟ کیا صوبوں کے درمیان ہم آہنگی پہلے سے زیادہ ہوئی؟ کیا وفاق نے اپنا کردار بہ احسن انجام دیا؟ کیا اداروں کے درمیان کشکمش کی فضا بہتر ہوپائی؟

کیا لوٹی گئی دولت ملک واپس آسکی؟ کیا کرپشن پر کسی کو الٹا لٹکا دیا گیا؟ کیا سول نافرمانی کا درس دینے والے بجلی کی قیمتیں کم کرپائے؟ کیا وسائل سے مالامال پاکستان کی معیشت آج اپنے پیروں پر کھڑی ہے؟ اگر ایسا نہیں ہوسکا تو پھر اس وقت بھی دیوانے کی بڑھکیں یہی تھیں کہ آپ وہ دعوے نہ کریں جو پورے نہ کرسکیں۔ ٹھیک ہے آپ ایک تیسرے آپشن کے طور پر سامنے آئے لیکن آپ پچھلوں سے بہتر بن جائیں کہ ایسے وعدے کریں جو آپ پورا کرسکیں۔ لیکن نہ جی ہمیں تو صرف اقتدار چاہیے تھا، جیسے بھی ملا، بس مل گیا۔ ہم چیین ماڈل بنانے نکلے تھے، ایران جیسا انقلاب لانا تھا، ترکی جیسا طرز حکومت ہمارا آئیڈئیل بنا اور اب ہم چوں چوں کا مربہ بنے بیٹھے ہیں۔

اور اب اگر یہ سب ناکامیاں جھولی میں ڈالے اعتماد کا ووٹ لینے کا نعرہ لگایا ہے تو مجھ جیسا طالبعلم تو یہی سوچے گا کہ اعتماد کا ووٹ بالفرض نہ مل پایا تو آپ اس کے پیچھے چھپ کر سیاسی شہید بننے کا ناٹک کریں گے۔ اور اگر آپ نے اعتماد کا ووٹ لے لیا تو بھی اسے آپ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کےلیے استعمال کریں گے۔ دونوں صورتوں میں اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ایک محفوظ راستہ حاصل کرنے کےلیے کوشاں ہے۔ اور جس طرح کا پاکستان کا سیاسی ڈھانچی ہے، انہیں باآسانی یہ محفوظ راستہ مل جائے گا۔ کیوں کہ جو حالات ہیں ان میں کوئی عقل کا اندھا ہی عدم اعتماد کے راستے اقتدار سنبھالنا چاہے گا اپنی مرضی سے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔