ہماری لڑائی کا میدان اسٹڈی سرکل

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 6 مارچ 2021
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

دنیا کے اربوں انسان جن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں یہ خدا کا فرمان نہیں ہے یہ دنیاوی شیطانوں کا نظام ہے ہمارے دھوکے باز قائدین اس استحصالی نظام کو صدیوں سے خدا کا فرمان کہہ کر غریب اور ناداروں کے ساتھ ساتھ سادہ لوح انسانوں کو قسمت کے نام پر دھوکا دے کر ان کے اندر موجود حق و انصاف کے جذبات کو تھپکیاں دے کر سلا رہے ہیں۔

دنیا بھر میں لٹیروں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے، لیکن استحصالی طاقتوں نے عوام کو بے عملی کا شکار بنانے کے لیے طرح طرح کے نسخے ایجاد کر رکھے ہیں، سب سے بڑا نسخہ انھیں خدا کے نام پر بے وقوف بنانے کا ہے۔ عام آدمی ان مسائل کو سمجھنے کے قابل نہیں جو ہمارے سرمایہ دارانہ نظام نے بنا رکھے ہیں۔

اول تو وہ روٹی، روزگار کی تلاش میں ساری زندگی گزار دیتا ہے دوم یہ کہ عوام میں طبقاتی شعور پیدا کرنا جن جماعتوں کی ذمے داری ہے وہ اپنا سارا وقت اور وسائل اقتدار اور سیاست پر قابض طاقتوں کی اقتداری لڑائیوں کو انجوائے کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔

یہ ایک عام مشاہدے کی بات ہے کہ عوام اسی طبقاتی لڑائی میں سب سے زیادہ طاقتور عنصر ہونے کے باوجود اس شاطرانہ کھیل کا ناظر بنا ہوا ہے یہ ایک عالمی سازش ہے جس کا مقصد عوام کو عملی سیاست سے باہر رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں، تاکہ ایلیٹ پورے اطمینان اور منصوبے کے ساتھ انسانوں کا استحصال جاری رکھ سکے۔

عام سیاسی جماعتیں تو اس کھیل کا حصہ بنی ہوئی ہیں کیونکہ عوامی دولت کی لوٹ مار کے لیے اس سے زیادہ سازگار میدان نہیں جو سیاسی طاقتیں اس ظالمانہ نظام کو ختم کرنے کی دعویدار ہیں وہ انقلابی آئیں بائیں شائیں میں اپنا سارا وقت گزار رہی ہیں۔ آج کا مسئلہ طبقاتی شعور بیدار کرنا اور اس جہاد کے لیے عوام کو سڑکوں پر لانا ہے لیکن ہمارے کامریڈ  انقلابیوں کو اسٹڈی سرکلزکے پنجرے میں بند کرکے انھیں انقلابی طریقے سمجھانے میں لگے ہوئے ہیں۔

اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ طالب علم ساری زندگی علم سیکھ کر یہ پوچھتے ہیں کہ لیلیٰ عورت تھی یا مرد۔ اس احمقانہ مشق سے انقلابی جدوجہد کو تو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے البتہ ہر کامریڈ دوسرے کو کامریڈ کہہ کر اپنا انقلابی فرض پورا کر رہے ہیں۔

اس احمقانہ مصروفیت کا نتیجہ یہ ہے کہ دائیں بازو کی طاقتیں مختلف حوالوں سے عوام میں جا کر اس انقلاب کا سبق یاد کرانے کے بجائے اقتدار کے حصول کی لڑائی میں پھونک رہے ہیں اور دائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں حصول اقتدارکی لڑائیوں میں عوام کو بھرپور طریقے سے استعمال کر رہی ہیں اور دائیں بازو کے جہلا خواتین اور مرد قیادت ایک دوسرے کے ساتھ لڑائیوں میں سارا سارا دن مصروف ہیں۔

انقلابیوں کے لیے یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ وہ اپنی چھوٹی سی تعداد میں اپنے احمقانہ فلسفوں کے حوالے سے ایسے کارکنوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں جو انقلابی جدوجہد میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ عوام کی انقلابی تربیت کا ہے اس حوالے سے جو دوست جہاں موقع ملے عوام کی ذہنی اور نظریاتی تربیت میں لگے ہوئے ہیں۔ اگرچہ  انفرادی جدوجہد کے وہ نتائج نہیں نکل سکتے جو اجتماعی جدوجہد سے نکل سکتے ہیں۔ لیکن اس المیے کوکیا نام دیں کہ کامریڈ اپنی چھوٹی سی طاقت کو عام سی سرگرمیوں میں لگا رہے ہیں اور فرض کر رہے ہیں کہ وہ بڑا تیر مار رہے ہیں۔

ہماری زندگی کے تقریباً 45 سال اس دشت کی سیاہی میں گزرے ہیں اور اس دوران ہماری یہ کوشش رہی کہ ہم 4 سے 5 ہو جائیں 4 سے تین نہ ہوں۔ اس کے لیے تعلیم یافتہ بردبار اور سمجھدار کے ساتھ حوصلہ مند کامریڈوں کی ضرورت ہے کہ وہ غلطیوں کی اصلاح کے فن سے واقف ہوں نہ کہ غلطی کے نام پر غلطی کو سمجھے بغیر اور متعلقہ فریقوں سے ان حوالوں سے جانکاری حاصل کیے بغیر الزام تراشیوں پر اتر آئیں ان رویوں سے انقلابیوں کی تعداد 11 سے 9تو ہو سکتی ہے 11 سے 12 نہیں ہو سکتی۔

پاکستان میں 22 کروڑ عوام رہتے ہیں ان 22 کروڑ عوام اور خواص سے 22 بھی ایسے نہیں جو انقلابی معیار پر پورے اتر سکیں۔ اس کی وجہ اعتماد کا فقدان ہے لیکن پاکستان میں لٹیروں کے درمیان اقتدار کی لڑائی چل رہی ہے اور لڑنے والے سارے فریق دائیں بازوکی پارٹیاں ہیں یہ پارٹیاں کتنی ہی عوام دشمن کیوں نہ ہوں ان کی سیاست محض اسٹڈی سرکلز تک محدود نہیں وہ عوام میں آتے ہیں ان کی سیاست کتنی ہی عوام دشمن کیوں نہ ہو وہ اپنے جلسے جلوسوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد کو جمع کر لیتے ہیں خواہ ان کا کام زندہ باد مردہ باد کے نعرے ہی لگانا کیوں نہ ہو۔ لیکن وہ گھنٹوں ان شعبدہ بازوں کے جلسے جلوسوں میں شامل رہتے ہیں اور ان اجتماعات کے مختلف پہلوؤں سے متاثر ہوتے ہیں۔ کامریڈ خواہ کتنے ہی گئے گزرے کیوں نہ ہوں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ عوام کے سمندر میں مچھلی بن کر رہیں۔

سیاست کے میدان میں ایک تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب ایلیٹ کی جگہ مڈل کلاس ان دو فریقوں میں کوئی بھی نہ انقلابی ہے نہ عوام دوست لیکن طبقاتی فرق کی وجہ ایک معنی خیز تبدیلی آ رہی ہے ہر کامریڈ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ’’عمران اینڈ کو‘‘ کو زیادہ سے زیادہ عوامی بنائے اور اس تحریک کا جانشیں ایلیٹ نہیں بلکہ غریب عوام ہوں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔