کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 7 مارچ 2021
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

غزل
کچھ نہ کچھ صورتِ تعبیر بنا سکتے ہیں
کم سے کم خواب کی تصویر بنا سکتے ہیں
کیوں رہے چند گھروں تک ہی یہ ثروت مندی
ہم ترقی کو ہمہ گیر بنا سکتے ہیں
کیسے ہو سکتی ہے محنت کا بدل بے عملی
صرف تدبیر سے تقدیر بنا سکتے ہیں
خانوادے ہوں فقط چند ہی کیوں تخت نشین
رہنما کوئی بھی رہگیر بنا سکتے ہیں
رنگ احساس کا بھر دیتے ہیں کرداروں میں
واقعہ کوئی بھی دلگیر بنا سکتے ہیں
دولتِ فن کو طلب گاروں میں کر کے تقسیم
اور بھی باعثِ توقیر بنا سکتے ہیں
اتنے ظالم ہیں کہ ہم خود سے اگر بچ نکلیں
اپنے دشمن کے لیے تیر بنا سکتے ہیں
اپنے حق میں ہی نہیں سارے دلائل جاذبؔ
خود کو بھی لائقِ تعذیر بنا سکتے ہیں
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء ُالدین)

۔۔۔
غزل
تجسس لاکھ ہو سب کو مگر ایسا نہیں ہوتا
میں ہر اک شخص پر تو اب عزیزو وا نہیں ہوتا
میں نکلا تیر واپس کھینچنے کا ڈھونڈ لایا گُر
کہاں ہیں جو سمجھتے تھے کوئی نسخہ نہیں ہوتا
یہ اس تصویر میں میں کس قدر غمگین آیا ہوں
کہ جیسے جوڑ کر غم تہہ بہ تہہ رکھا نہیں ہوتا
کبھی خاکی بدن لے کر وہاں بھی جا نکلتا ہوں
تخیل بھی کبھی پہلے جہاں پہنچا نہیں ہوتا
مجھے اب آئنے سے اور کیا اس کے سوا مطلب
کہ سارے چھوڑ بھی جائیں تو میں تنہا نہیں ہوتا
تو کیا سب اک طریقے سے یہاں کرتے ہیں خود سوزی
محبت کے علاوہ کیا کوئی رستہ نہیں ہوتا
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)

۔۔۔
غزل
رہ گیا دنیا میں وہ بن کر تماشا عمر بھر
جس نے اپنی زندگی کو کھیل سمجھا عمر بھر
تم امیرِ شہر کے گھر کو جلا کر دیکھنا
گھر میں ہو جائے گا مفلس کے اجالا عمر بھر
ایسا لگتا ہے کہ اب وہ قبر تک جائے گی ساتھ
دل کے خانوں میں نہاں تھی جو تمنا عمر بھر
قرض میری قوم وہ کیسے چکائے گی بھلا
سود خود کو بیچ کر جس کا اتار عمر بھر
جانتا ہوں مجھ کو ڈس لے گا وہ مار آستیں
جس کو اپنا خوں پلا کر میں نے پالا عمر بھر
زندگی نعمت تھی جس کو پا کے تم خوش تھے صبیحؔ
اب کہو کیا زندگی سے تم نے پایا عمر بھر
(صبیح الدین شعیبی۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
ہم ایک ایسی اندھیر نگری سے منسلک ہیں
جہاں مسائل کے بھید کرسی سے منسلک ہیں
ہم ان بہادر سپاہیوں کی مثال ہیں جو
سروں کی بنیاد پر کہانی سے منسلک ہیں
ہمارے پیروں میں بیڑیاں ہیں ملازمت کی
ہمارے وعدے ہماری چھٹی سے منسلک ہیں
اس ایک نکتے پہ ساری سائنس کھڑی ہوئی ہے
کہ فارمولے خدا کی مرضی سے منسلک ہیں
تماش بینوں کی خواہشوں میں ہیں جسم رقصاں
مگر جو آنکھیں اداس کھڑکی سے منسلک ہیں
ہمیں محبت سکھا رہے ہیں لطیف ساجد
جو ہیرو شیما و ناگاساکی سے منسلک ہیں
(لطیف ساجد۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل
ایسی مشکل بھی مصّور پہ کہیں بنتی ہے
خواب بنتا ہے مگر آنکھ نہیں بنتی ہے
حسن و غصّہ پہ ترے داد خدا کو پہنچے
نظم مشکل ہو تو مشکل سے حسیں بنتی ہے
کوئی تعویذ جو کردے مجھے تیرے لائق؟
کوئی مفروضہ کہ مرّیخ زمیں بنتی ہے؟
میرے کردار کا ہونا ہے ضروری اس میں
جس کہانی سے مری ایک نہیں بنتی ہے
رات چغتائی نے یہ خواب میں آ کر پوچھا
اُس کے جیسی بھی کوئی شکل کہیں بنتی ہے؟
جسم کی خاک اگر روح میں حل ہوجائے
اس ملاوٹ سے محبت کی زمیں بنتی ہے
( گل جہان ۔جوہر آباد، خوشاب)

۔۔۔
غزل
یہ وقت گزرتا رہتا ہے احساس کریں تو اچھا ہے
دکھ درد میں جینا پڑتا ہے احساس کریں تو اچھا ہے
پرکار پہ نقطہ رہنے دے ترتیب میں دنیا گھومے گی
ہر دل میں لاوا جلتا ہے احساس کریں تو اچھا ہے
ہر ایک سفر میں زندہ ہے ،تابندہ ہے ، پائندہ ہے
ہر ایک بشر تو جاتا ہے احساس کریں تو اچھا ہے
میں خواب کے پاؤں چھوتا ہوں الفاظ بھی تب تحریر بنے
ہر شاعر شعر میں مرتا ہے احساس کریں تو اچھا ہے
دولت تو بے تحاشہ ہے کیوں بن اولاد کے جیتے ہو
فٹ پاتھ پہ بچہ سوتا ہے احساس کریں تو اچھا ہے
سانسوں کی ڈور سلامت ہے بستی میں دیکھ قیامت ہے
اور خون یہ تازہ بہتا ہے احساس کریں تو اچھا ہے
اخباری باتیں رہنے دیں منظر کی حقیقت جان ولی
کیوں پاگل پاگل پھرتا ہے احساس کریں تو اچھا ہے
(شاہ روم خان ولی۔ مردان)

۔۔۔
غزل
کیا جانیے کس اسم کی تاثیر سے نکلا
اک ساز مرے پاوں کی زنجیر سے نکلا
جب ہجر زدہ میرا گماں اوج پہ پہچا
وہ مجھ کو بُلاتا ہوا تصویر سے نکلا
اللہ کا زمیں پر ہوں میں نائب، سو خبردار
کوئی نہ کہے خلد کی جاگیر سے نکلا
یہ وقت کے اک حُسنِ تباہی کا نشاں ہے
کھنڈر یہ بہت عمدہ سی تعمیر سے نکلا
سو بار یہ چاہا کہ زباں سے نکل آئے
کانٹا مرے دل کا مگر اک تیر سے نکلا
جس روز دسمبر میں ملاقات تھی اُن سے
اُس روز یہ سورج بڑی تاخیر سے نکلا
کیونکر نہ مری فکر روشؔ مستِ جنوں ہو
یہ طور جوانوں میں تقی میرؔ سے نکلا
(علی روش۔ گجرات )

۔۔۔
غزل
رنگ اڑاتا ہے بہت قصۂ شب آگ کے پاس
ناچتے رہتے ہیں کردار بھی سب آگ کے پاس
ہم صحیفۂ اساطیر سے نکلے ہوئے ہیں
گھیر لیتا ہے جنوں ہم کو عجب آگ کے پاس
سرخیِ جاں کو بہت زرد کیے دیتا ہے
جو ہے اک شعلۂ امکانِ طلب آگ کے پاس
چار عناصر کو یہ تخمیس کیے دیتی ہے
اک کہانی کہ بنی جاتی ہے جب آگ کے پاس
تم پگھل جاؤ گے اے موم کے محسن شہزادؔ
کیوں لیے جاتا ہے یہ خوابِ طرب آگ کے پاس
(محسن شہزاد۔لالہ موسیٰ)

۔۔۔
غزل
جنابِ خضر نہ آبِ بقا برسوں
قضا عنقا رہی ہم سے جدا برسوں
مداوا کچھ نہیں ہے دردِ انساں کا
بکے بازار میں یوسف نما برسوں
سوا اپنے کوئی صحرا میں کیوں آئے
مٹیں کیونکر ہمارے نقشِ پا برسوں
محبت قید ہے پہلی نظر سے ہی
وہ لمحہ ہے کہ جس کی ہو سزا برسوں
مرا بچپن پرندوں کی طرح گزرا
رہی آنکھوں کی ٹھنڈک یہ صبا برسوں
یقیناً نفسیاتی ہو گیا ہوں میں
جہاں میں کون کرتا ہے وفا برسوں
خطا سے مانگ لی تھی اک دعا میں نے
زمیں پر پھر نہیں آیا خدا برسوں
کبھی اس شان سے جائیں گے محفل سے
ہمیں روتے رہیں گے ہم نوا برسوں
ازل گزرا ہوا اک شخص ہے جس کو
میں اپنے حال میں لاتا رہا برسوں
(شاہد حسین ازل۔ مری)

۔۔۔
غزل
تری چپ اگر حسیں ہے، تری بات خوبصورت
مرا ایک ایک لمحہ، ترے ساتھ خوبصورت
تو نے مسکرا کے تھاما، تو ہی علم ہو سکا یہ
تری ہر ادا سے بڑھ کر، ترے ہاتھ خوبصورت
تری آنکھیں جھیل جیسی اور قد سرو کے جیسا
مری جاں تمہی سے ہے اب، مری ذات خوبصورت
یہ پنپ رہی ہے خواہش کہیں دل کے زاویے میں
مجھے لگ رہے ہیں اپنے، جذبات خوبصورت
تیرا انتظار کرنا،تجھے چپکے چپکے تکنا
میری کر رہا ہے جاناں ہر رات خوبصورت
نہ طلب رہی کسی کی،نہ ہی جام میں کشش ہے
ملے عشق میں جو مجھ کو تو، ہے مات خوبصورت
کبھی بھول سے نہ بھولے، تاثیر کیا کروں میں؟
ہوئی تم سے جو تھی پہلی، ملاقات خوبصورت
(تہمینہ شوکت تاثیر۔سرگودھا)

۔۔۔
غزل
میری تنہائی مجھ کو لے ڈوبی
کرکے سودائی مجھ کو لے ڈوبی
میرا دل ہے کہ اک سمندر ہے
اس کی گہرائی مجھ کو لے ڈوبی
میں یہ سمجھا تھا باوفا ہے وہ
ایسی اچھائی مجھ کو لے ڈوبی
غیر کہتے ہیں تجھ کو ہرجائی
تیری رسوائی مجھ کو لے ڈوبی
میں تو چپ تھاکہ بے وفا ہے تو
میری گویائی مجھ کو لے ڈوبی
(شبیر بزمی۔ لاہور)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔