سارے رنگ

فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

’واٹس ایپ گروپوں‘ میں
’فضول‘ بھرمار کرنے والے۔۔۔!

ر۔ ط۔ م
خانہ پُری

آج کل ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ (سوشل میڈیا) کا دور، بلکہ یوں کہیے دور دورہ ہے۔۔۔ آپ بھی یقیناً بہت سے ’واٹس ایپ‘ گروپوں میں شامل ہوں گے۔۔۔ بہت سے گروپوں میں زبردستی ڈال دیے گئے ہوں گے، تو بہت سے گروپوں کا اپنی ضرورت کے مطابق حصہ بنے ہوں گے۔۔۔ ہر گروپ کا اپنا مقصد، مزاج اور دائرۂ کار ہوتا ہے۔۔۔ اور بہتر یہی ہوتا ہے کہ اس گروپ کے اراکین اس کے بنیادی مزاج اور مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اس گروپ میں گفتگو کریں۔۔۔ لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہر گروپ میں ہی کچھ نہ کچھ ایسے ’کرم فرما‘ ضرور آجاتے ہیں، جو کسی کی نہیں سنتے اور صبح سے شام تک یا وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ چیزیں اس گروپ میں بھیجتے رہتے ہیں، جس سے براہ راست گروپ کے مقصد پر اثر پڑتا ہے۔۔۔ جب انھیں ٹوکا جائے، تو وہ باقاعدہ آپ سے ضد کرنے لگتے ہیں اور آپ کو حیرت ہوتی ہے کہ یہ تو اچھے بھلے آدمی تھے۔

انھیں اتنی معمولی سی بات کیوں سمجھ میں نہیں آرہی۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اتنی اہم خبریں، قیمتی تاریخی معلومات، قابل توجہ طبی، اصلاحی، سماجی، مذہبی مواد ارسال کرتے ہیں، اس سے بہت سے لوگوں کا بھلا ہوگا اور یہ سب آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بنے گا وغیرہ۔۔۔

جناب، پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بات تو محفل کے بنیادی اصول کے ہی خلاف ہے کہ وہاں اس محفل کے مقصد کے علاوہ گفتگو کی جائے، کیوں کہ اس میں گروپ کے مقصد کے تعلق سے ہی لوگ شامل ہوئے ہوتے ہیں۔۔۔ جس میں بہت سے لوگ ایسے نام نہاد معلوماتی ’فارورڈ مواد‘ سے بہت زیادہ تنگ بھی ہوتے ہیں۔۔۔ ایسا بیش تر مواد پہلے ہی انھیں دس اور لوگوں کی طرف سے موصول ہو چکا ہوتا ہے۔۔۔ اس سے کیا ہوتا ہے، کہ لوگ پھر گرو پ چھوڑ جاتے ہیں۔۔۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو پھر یہ ضرور ہوتا ہے کہ اگر گروپ میں کوئی مقصد کی یا توجہ طلب بات کی جاتی ہے، تو پھر وہ بھی ان فضولیات کے سبب نظرانداز ہو جاتی ہے، یا ایسے غیر ضروری مواد کی بھرمار کے باعث گروپ کے اراکین اس پر توجہ نہیں دے پاتے۔۔۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک کے پاس آپ کی طرح لامحدود ’انٹرنیٹ‘ ہو کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر ایسے لطیفے، معلومات اور تفریحی مواد سے لطف اٹھا سکیں۔۔۔ اس لیے آپ کی اس ’مفت‘ کی خدمت کا خمیازہ انھیں اپنے محدود سے انٹرنیٹ کے جلد پُھونک جانے کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔۔۔

’فارورڈ مواد‘ بھیجنے والے نہیں سوچتے اگر کسی گروپ کی نوعیت مذہبی، ادبی، تعلیمی، دفتری، تحریکی یا خاندانی نوعیت کی ہے، تو اس میں کیا ضرورت ہے کہ اِدھر اُدھر کی گھسی پٹی ویڈیو اور بے تُکے لطیفے بھیج کر لوگوں کے سر میں درد کیا جائے۔۔۔ ہاں جنھیں ایسے معلوماتی اور تفریحی، ہر دو قسم کے مواد سے شغف ہے۔

وہ بے شک ایسے گروپوں میں بھیجتے اور وصول کرتے رہا کریں، کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر ایک گروپ خاندان کے باہمی رابطے کے لیے ہے، اس میں اگر نام نہاد ’مفید معلوماتی‘ مواد کی برسات رہے گی، تو اگر کسی کو کوئی اطلاع اپنے خاندان بھر تک پہنچانی ہو، تو پھر بہت خدشہ ہے کہ وہ اطلاع کہیں دب کر رہ جائے یا گروپ کے دیگر لوگوں تک دیر سے پہنچے گی، کیوں کہ انھیں اس بات تک پہنچنے کے لیے پہلے درجنوں قسم کی طبی ٹوٹکے، لطیفے، مقدس اور اصلاحی معلومات کے طویل سلسلے کو پار کرنا ہوگا۔۔۔

اب ایسے لوگ خود دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں، اسی طرح کوئی گروپ دفتری امور کے بارے میں تبادلہ خیال کے لیے بنا ہے، اور وہاں کسی رکن کی کوئی بات گروپ کی ایسی لایعنی اور چَبی چَبائی باتوں کے انبار میں دب جائے، تو آپ کی یہ حرکت تہذیب واخلاق کے کس قدر خلاف ہے!

اسی طرح ’فیس بک‘ کے گروپ پر بھی کم وبیش ایسی ہی صورت حال ہے۔۔۔ مثال کے طور پر ایک گروپ صرف چاول کے پکوان کے لیے بنا ہے، لیکن آپ دیکھیں گے کوئی دال کے پکوان لے کر چڑھ دوڑے گا، کوئی گوشت کا دسترخوان بچھانے لگے گا اور کوئی چاہے گا کہ اسی گروپ کے اندر مشروبات کا داخلہ بھی لازمی ہونا چاہیے۔۔۔ ان پر اعتراض کیا جائے، تو تیوریاں چڑھائیں گے، منہ بنائیں گے اور دس قسم کی باتیں کرنے لگیں گے کہ آپ صرف چاول اور بریانی کے چکر میں پڑ گئے، لوگ تو فلاں پکوان بھی پسند کرتے ہیں اور فلاں قسم کے کھانے بھی کھانا چاہتے ہیں ارے بھئی، یہ کس نے کہا کہ ہم دال اور دیگر پکوانوں کے خلاف ہیں، لیکن بات صرف اتنی سی ہے کہ ہمارا گروپ چاولوں سے متعلق ہے۔

اس لیے ہم یہاں صرف چاول کے بنے ہوئے ہی پکوان پر بات کر سکتے ہیں۔۔۔ ہم کسی اور پکوان کی اہمیت یا پسندیدگی سے انکار نہیں کر رہے! آپ خود سوچیے کہ آپ جب جوتوں کی دکان پر جاتے ہیں تو وہاں دکان دار سے ملبوسات کیوں نہیں مانگتے؟ وہاں کیوں نہیں کہتے کہ صرف جوتے کی دکان کیوں ہے؟ اور جب کپڑے کی دکان پر جاتے ہیں تو ان سے کیوں نہیں کہتے کہ آپ کے پاس جوتے اور سینڈل کیوں نہیں۔۔۔؟ لیکن یہ ’واٹس ایپ‘ اور ’فیس بک‘ کے گروپوں کے قواعد وضوابط اور اصول و اخلاقیات کی پاس داری کرتے ہوئے ہمیں پتا نہیں کیا ہو جاتا ہے!

۔۔۔

تمام عمر جس کی معرکوں میں گزری ہے!
عبداللطیف ابُوشامل
بہتی ندی کیسی ہوتی ہے، اور بہتا دریا اور شوریدہ سمندر…! سر اٹھائے کوہ سار، اور پھلوں سے لدا ہوا سر جھکائے وہ شجر جو سایہ دار بھی ہو، اور وہ گیانی برگد! سنا ہے کہ ہر شے کے اثرات ہوتے ہیں، شاید اسی لیے اس کے سائے میں گوتم جیسا بدھا گیانی بیٹھتا تھا اور خود کو کھوجتا تھا کہ خالق تک رسائی اور کائنات کی کھوج کی پہلی شرط خود شناسائی ہے۔

کائنات کا حسن تنوع ہے۔ اضداد میں پوشیدہ ہے رنگ کائنات۔ ایسا ہی بتایا گیا تھا مجھے اگر جھوٹ نہ ہو تو سچ کیسا۔۔۔ دن نہ ہو تو رات کیسی۔۔۔ اخلاص نہ ہو تو مکّاری کی پہچان مشکل اور بس پھر آگے چلتے جائیں تو معانی و مطالب کھلتے چلے جائیں گے۔

حسن نیّت ہی ہے اصل، کہ خالق کو مطلوب ہے بس حسن نیّت۔
پوچھا تھا کہ کیسے۔۔۔؟

تو بتایا کہ اخلاص نیّت سے کوئی کام کیا اور وہ بے برگ و بار رہا تو رنج نہیں گھیرتا کہ ہم نے تو اخلاص سے کیا تھا اور اگر کوئی کام بدنیّتی سے کیا اور وہ برگ و بار لے آیا تو خوشی نہیں، بوجھ بن جاتا ہے کہ ٹھیک ہے برگ و بار تو لے آیا، لیکن نیّت میں تو کھوٹ تھا۔

بہت عجیب سی بات بتائی تھی کہ ہم جنھیں کسی شے کی اصل معلوم نہ ہو تو اسے عجیب کہہ دیتے ہیں۔ ہاں تو بتایا تھا کہ مال و زر، جاہ و حشم کی رب تعالیٰ کے پاس کوئی وقعت نہیں ہے۔ اسی لیے تو ہر کس و ناکس کو دے دیتا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آیا تو دریافت کیا کہ اس کا کیا مطلب ہوا۔۔۔؟

ہاں پھر بتائی گئی راز کی بات کہ علیم و خبیر جس سے خوش ہو جائے، جس سے پیار کرے، جسے اپنا دوست بنالے اور وہ دوست کہ راز دار کہیں جسے تو اسے علم عنایت کرتا ہے۔ علم ہے اصل، باقی تو بس فسانہ ہے۔

تو خالق جس سے راضی ہو اسے علم عطا فرماتا ہے اور وہ بے نیاز ہے تو اپنے محبوب کو بھی بے نیاز کر دیتا ہے۔ سچائی کے لیے زبان صادق کا ہونا ضروری ہے، انتہائی ضروری۔ لفظوں کی حرمت ہوتی ہے تو وہ لفظ سدا برگ و بار لاتے ہیں جن کے لکھنے والا محبوب رب ہو اور جو کہتا ہو کہ ؎

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا

بندہ بشر تو عاجز ہے اور عاجزی ہی ہے اصل بندگی۔ لیکن وہ بندہ ہے محبوب خدا جو خلق خدا کے حقوق کے لیے ہر فرعون صفت کے سامنے سینہ سپر ہوجائے، قیدوبند سہے، تلخی ایّام کا زہر ہے۔ بے نیازی اس کی سرشت میں ہو، ایثار میں گندھا ہوا بے ریا اور کھرا آدمی جو کہ بس مقہور و مجبور خلق کے لیے جیے، انہیں جینے پر اکسائے، اپنے کردار اور اپنے لفظوں سے ان میں امنگ پیدا کرے اور نعرۂ مستانہ ’’انسان کو آزاد کرو‘‘ کہ انہیں ان کی مائوں نے آزاد جنا ہے، بلند کرتا رہے، حالات و واقعات سے بے پروا بس رواں رہے، مظلوموں کے لیے چاہے وہ کسی بھی مذہب و ملت سے ہوں، کے اندر امید کی جوت جگائے اور بس بے نیازی سے چلتا چلا جائے اور ایسا بے نیاز جسے کوئی بھی خریدنے کا سوچ بھی نہ سکے اور جو یہ کہہ سکے کہ؎

میرے حجرے میں نہیں، اور کہیں پر رکھ دو
آسماں لائے ہو! لائو، زمین پر رکھ دو

ایسا آسان نہیں ہے یہ کہنا، مظلوم کی آواز بن جانا اور ظالمین سے ٹکرا جانا، ہاں ایسا آسان نہیں ہے۔

تمام عمر میری معرکوں میں گزری ہے
میرے ارادوں میں لغزش کبھی نہیں آئی

احفاظ بھائی! رب نے آپ کو محبوب کیا اور علم دیا، ایسا علم کی جامعہ کہیں جسے۔ آپ تو شعاع مہر کی طرح دلوں میں اترے، آپ نے تو گھنے اداس جنگلوں میں راستے بنائے، چراغاں کیا۔

احفاظ بھائی! آپ جانتے ہیں کہ میرے لیے آپ کیا ہیں۔

ہاں احفاظ بھائی! زندگی ہیں آپ، مظلومین کی زندگی، ان کی آواز۔

کیا کچھ نہیں کیا آپ نے، آپ کا جیون مظلوموں کی زندگی بدلنے کے لیے وقف رہا، اپنے مفاد کا کبھی نہیں سوچا، اک پل بھی نہیں، اور بے جگری سے مظلوموں کے مفادات کی نہ صرف جنگ لڑی بلکہ جیتی بھی۔ آمروں اور ان کے پشتی بان سرمایہ داروں کے سامنے سر بلند و سر بہ کف رہے آپ، نڈر، بے باک۔ کیا نہیں کیا آپ نے۔۔۔!
آپ کو دیکھتا ہوں تو جان پاتا ہوں کہ ایسے ہوتے ہیں رب کے منتخب لوگ۔ ہاں آپ جیسے ہی ہوتے ہیں احفاظ بھائی! ہاں آپ جیسے۔۔۔!
آپ تو ان نادر و نایاب لوگوں میں سے ہیں جو کہہ سکتے ہیں اور ایسا کہنا روا ہے آپ کو، ہر کوئی تو نہیں کہہ سکتا ایسا۔
اچّھی گزر رہی ہے دل خود کفیل سے
لنگر سے روٹی لیتے ہیں، پانی سبیل سے
دنیا میرے پڑوس میں رہتی تو ہے مگر
میری دعا سلام نہیں، اس ذلیل سے

یہ سب کچھ کہنا منصب نہیں میرا۔ آپ کے سامنے مگر یہ جسارت کی میں نے۔ میں آگے نہیں چل پا رہا، آپ کی نظمیں پڑھ کر بہت دن سے سلگ رہا ہوں، جی چاہا کہ آپ کے سامنے رو لوں۔ کوئی بات نازیبا لگی ہو تو چھوٹا ہی نہیں، بہت ہی چھوٹا بھائی سمجھتے ہوئے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ ایسا ہی سمجھتے ہیں، معاف کر دیجیے گا کہ آپ ہیں ہی کشادہ ظرف۔

بہتی ندی کیسی ہوتی ہے، اور بہتا دریا اور شوریدہ سمندر۔۔۔
سر اٹھائے ہوئے کوہ سار اور پھلوں سے لدا ہوا سر جھکائے وہ شجر جو سایہ دار بھی ہو اور وہ گیانی برگد کہ سنا ہے کہ ہر شے کے اثرات ہوتے ہیں، شاید اسی لیے اس کے سایے میں گوتم جیسا بدھا گیانی بیٹھا تھا اور خود کو کھوجتا تھا کہ خالق تک رسائی اور کائنات کی کھوج کی پہلی شرط خودشناشائی ہے۔
ہاں وہ جو تصوّف کی ایک منزل ’’وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت‘‘ ہے اس کا مطلب مجھے کسی گیانی نے بتایا تھا کہ ’’گیانی وہ ہے، جو تنہا ہو تو محفل سجالے اور مجمع میں تنہائی اختیار کرلے۔‘‘

آپ کی محبتوں کا اسیر اور مقروض
عبداللطیف ابُوشامل
13 دسمبر2014 بہ روز ہفتہ
(ممتاز صحافی، شاعر اور ادیب احفاظ الرحمٰن مرحوم کے نام لکھا گیا ایک خط)

۔۔۔

بُلبل غلطیوں سے فائدہ نہیں اٹھاتی!
شفیق الرحمٰن
بلبل ایک روایتی پرندہ ہے جو ہر جگہ موجود ہے سوائے وہاں کے جہاں اسے ہونا چاہیے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ نے چڑیا گھر میں یا باہر بلبل دیکھی ہے تو یقیناً کچھ اور دیکھ لیا ہے۔ ہم ہر خوش گلو پرندے کو بلبل سمجھتے ہیں۔ قصور ہمارا نہیں ہمارے ادب کا ہے۔

شاعروں نے نہ بلبل دیکھی ہے نہ اسے سنا ہے۔ کیوں کہ اصلی بلبل اس ملک میں نہیں پائی جاتی۔ سنا ہے کہ کوہ ہمالیہ کے دامن میں کہیں کہیں بلبل ملتی ہے لیکن کوہ ہمالیہ کے دامن میں شاعر نہیں پائے جاتے۔

عام طور پر بلبل کو آہ و زاری کی دعوت دی جاتی ہے اور رونے پیٹنے کے لیے اکسایا جاتا ہے۔ بلبل کو ایسی باتیں بالکل پسند نہیں۔ ویسے بلبل ہونا کافی مضحکہ خیز ہوتا ہوگا۔ بلبل اور گلاب کے پھول کی افواہ کسی شاعر نے اڑائی تھی، جس نے رات گئے گلاب کی ٹہنی پر بلبل کو نالہ و شیون کرتے دیکھا تھا۔ کم از کم اس کا خیال تھا کہ وہ پرندہ بلبل ہے اور وہ چیز نالہ وشیون۔ دراصل رات کو عینک کے بغیر کچھ کا کچھ دکھائی دیتا ہے۔

بلبل پروں سمیت محض چند انچ لمبی ہوتی ہے۔ یعنی اگر پروں کو نکال دیا جائے تو کچھ زیادہ بلبل نہیں بچتی۔ بلبل کی نجی زندگی کے متعلق طرح طرح کی باتیں مشہور ہیں۔ بلبل رات کو کیوں گاتی ہے؟ پرندے جب رات کو گائیں تو ضرور کچھ مطلب ہوتا ہے۔ وہ اتنی رات گئے باغ میں اکیلی کیوں جاتی ہے؟ بلبل کو چہچہاتے سن کر دور کہیں ایک اور بلبل چہچہانے لگتی ہے۔ پھر کوئی بلبل نہیں چہچہاتی وغیرہ۔ ہمارے ملک میں تو لوگ بس اسکینڈل کرنا جانتے ہیں۔ اپنی آنکھوں سے دیکھے بغیر کسی چیز کا یقین نہیں کرنا چاہیے۔

کبھی کبھی بلبل غلطیاں کرتی ہے، لیکن اس سے فائدہ نہیں اٹھاتی۔ چناں چہ پھر غلطیاں کرتی ہے۔ سیاست میں تو یہ عام ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ بلبل کے گانے کی وجہ اس کی غمگین خانگی زندگی ہے، جس کی وجہ یہ ہر وقت کا گانا ہے۔ دراصل بلبل ہمیں محظوظ کرنے کے لیے ہرگز نہیں گاتی۔ اسے اپنے فکر ہی نہیں چھوڑتے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بلبل گاتے وقت بل۔ بل، بلبل۔ بل کی سی آوازیں نکالتی ہے۔ یہ غلط ہے۔ بلبل پکے راگ گاتی ہے یا کچے؟ بہرحال اس سلسلے میں وہ بہت سے موسیقاروں سے بہتر ہے۔ ایک تو وہ گھنٹے بھر کا الاپ نہیں لیتی۔ بے سری ہو جائے تو بہانے نہیں کرتی کہ ساز والے نکمے ہیں۔ آج گلا خراب ہے۔ آپ تنگ آجائیں، تو اسے خاموش کرا سکتے ہیں۔ اور کیا چاہیے؟

جہاں تیتر ’’سبحان تیری قدرت‘‘ پپیہا ’’پی کہا‘‘ اور گیڈر ’’پدرم سلطان بود‘‘ کہتا ہوا سنا گیا ہے، وہاں بلبل کے متعلق وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی مصرعے کے ایک حصے پر اٹک گئی ہو۔ مثلاً مانا کہ ہم پہ جورو جفا، جورو جفا، جوروجفا۔ یا تعریف اس خدا کی، خدا کی، خدا کی۔ اوردلے بفرو ختم، بفرو ختم، بفرو ختم۔ شاید اسی میں آرٹ ہو۔

ہو سکتا ہے کہ ہماری توقعات زیاد ہوں، لیکن یہ گانے کا ریکٹ اس نے خود شروع کیا تھا۔ بلبل کو شروع شروع میں قبول صورتی، گانے بجانے کے شوق اور نفاست پسندی نے بڑی شہرت پہنچائی۔ کیوں کہ یہ خصوصیات دوسرے پرندوں میں یک جا نہیں ملتی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی نوعیت جاتی رہی اور لوگوں کا جوش ٹھنڈا پڑگیا۔ ادھر بلبل پر نئی نئی تحریکوں اور جدید قدروں کا اتنا سا بھی اثر نہیں ہوا، چناں چہ اب بلبل سو فی صدی رجعت پسند ہے۔ کچھ لوگ اس زمانے میں بھی بلبل کے نغموں، چاندنی راتوں اور پھولوں کے شائق ہیں۔ یہ لوگ حالات حاضرہ اور جدید مسائل سے بے خبر ہیں اور سماج کے مفید رکن ہرگز نہیں بن سکتے۔ وقت ثابت کر دے گا کہ۔ وغیرہ وغیرہ۔

جیسے گرمیوں میں لوگ پہاڑ پر چلتے جاتے ہیں اسی طرح پرندے بھی موسم کے لحاظ سے نقلِ وطن کرتے ہیں۔ بلبل کبھی سفر نہیں کرتی۔ اس کا خیال ہے کہ وہ پہلے ہی سے وہاں ہے جہاں اسے پہنچنا چاہیے تھا۔ ہمارے ادب کو دیکھتے ہوئے بھی بلبل نے اگر اس ملک کا رخ کیا تو نتائج کی ذمہ دار خود ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔