کساد بازاری اور معیشت کی بحالی

ایم آئی خلیل  اتوار 7 مارچ 2021

دنیا میں کبھی کساد بازاری اور کبھی گرم بازاری اکثر پیش آتے رہتے ہیں۔ بیسویں صدی میں دنیا نے کساد بازاری کے کئی دور دیکھے جس میں سب سے زیادہ پیچیدہ صورتحال تیسری دہائی کا عشرہ تھا اس کے بعد کئی عالمی مالیاتی ادارے بھی قائم ہوئے۔ ترقی یافتہ ممالک مالیاتی بحران کا شکار بھی ہوتے رہے۔

ترقی پذیر ملکوں میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کا شعور بیدار ہوتا رہا۔ افریقہ ایشیا کے بہت سے ممالک اس دوران آزاد ہوتے رہے۔ پھر اس صدی میں 2008 کے مالیاتی بحران نے دنیا بھرکی معیشت کوکساد بازاری کی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کے بعد 2020 سے ہی کورونا وبا کے باعث دنیا بھرکی معیشتیں زبردست کساد بازاری کی لپیٹ میں آگئیں۔ جس کے باعث دنیا بھرکی معیشتوں کا دم گھٹنے لگا اور عالمی سرمایہ کاروں نے بھی سرمایہ کاری کا رخ پیداواری صنعتوں میں کم سے کم کردیا۔ کیونکہ تجارتی حالات زبوں حالی کا شکار ہو کر رہ گئے تھے۔

اب حالات میں تبدیلی آ رہی ہے اور دنیا سرد بازاری سے نکل کر گرم بازاری کی طرف مراجعت کر رہی ہے۔ جس کے چند مظاہر دنیا کے مختلف اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے نظر آرہے ہیں۔ ساتھ ہی عالمی تجارت کو فروغ بھی حاصل ہو رہا ہے۔ امیر ممالک ترقی پذیر ممالک کو ان کی قسطوں کی ادائیگی میں بھی سہولت دیتے نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی درآمدات میں تیزی سے اضافہ اسی بات کی نشاندہی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کی شرح ترقی کی رفتار بڑھ رہی ہے۔

کیونکہ پاکستان کی معیشت ابھی اس نہج پر نہیں پہنچی ہے کہ چند ایک اشاریوں کے بڑھنے کو پاکستان کو معاشی ترقی سمجھ لیا جائے، لیکن چند اشاریے بہتر ہوتے ہیں تو اسی دوران دیگر باتیں جہاں بار بار معیشت کو زک پہنچا رہی ہیں۔حکومت سرمایہ داروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرے تاکہ ان کے ذہنوں میں حکومتی پالیسیوں کے بارے میں جو شکوک وشبہات ہیں وہ دور ہو سکیں،بے یقینی کی کیفیت ہمیشہ پریشانی کا باعث بنتی ہے۔

اسی لیے سرمایہ دار مزید سرمایہ لگانے سے گریز کرتے ہیں ،وہ اس خوف میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ناجانے کل کیا ہو جائے اور حکومت کی پالیسیاں کیا رنگ لائیں ،یہی بے یقینی کی کیفیت سرمایہ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ناجائز ٹیکسوں کی بھرمار بھی تاجروں کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے،ٹیکس اگر زیادہ ہو تو حکومت کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا،تاجروں کی ایک تعداد سرکاری افسروں سے مل کر ٹیکس چوری کرتی ہے۔اگر ایک تاجر کا ٹیکس پانچ لاکھ بنتا ہے تو وہ پچاس ہزار وکیل کو دیتا ہے اور پچاس ہزار سرکاری افسر کو اور ایک لاکھ ٹیکس حکومت کو دے کر تین لاکھ روپے بچا لیتا اور اس چال بازی کو اپنی مہارت سمجھتا ہے۔ ملکی سیاسی صورتحال کے باعث گزشتہ دنوں پاکستان کی اسٹاک ایکسچینج زبردست مندی کا شکار ہو کر رہ گئی۔

اگر تعمیرات کا شعبہ لیتے ہیں جس کے لیے حکومت نے کافی مراعات کا اعلان کیا تھا۔ سیمنٹ کی پیداوار اور فروخت میں اضافہ ہوا ہے لیکن ساتھ ہی سینیٹری آئٹمز، الیکٹرک میٹریل اور تعمیرات سے متعلقہ دیگر ساز و سامان کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے اس شعبے کو کافی نقصان پہنچا دیا ہے۔ پہلے چھوٹے چھوٹے ٹھیکیدار مکان بناکر فروخت کرتے تھے اب پلاٹوں کی خریداری پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں جس کے باعث پلاٹوں، زمینوں وغیرہ کی قیمتوں میں گزشتہ چند ماہ میں زبردست اضافہ ہو گیا ہے۔ عالمی پیمانے پر بھی رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان کی معیشت ملک کے سیاسی حالات سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر اس میں بہتری استحکام پیدا ہوتا ہے تو ساتھ ہی معیشت کی رفتار میں روانی آتی ہے۔ عالمی معیشت میں ایسا بھی وقت گزر چکا ہے کہ جب اشیائے سرمایہ کی طلب میں کمی واقع ہو رہی تھی۔ جس کے باعث بہت سے ملکوں کی درآمدات اور برآمدات میں کمی واقع ہو رہی تھی۔ پاکستان بھی گزشتہ سال اسی کیفیت سے دوچار رہا جب اس کی درآمدات میں قدرے کمی واقع ہو چکی تھی۔ پھر رواں مالی سال کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو درآمدات میں اضافہ اس بات کی غمازی ہے کہ اشیائے سرمایہ کی کھپت بڑھ رہی ہے۔

گزشتہ مالی سال 2019-20 کے دوران درآمدات 27 ارب 31 کروڑ 60 لاکھ ڈالر تھی۔ جو آیندہ برس بھی رواں مالی سال کے دوران بڑھ کر 29 ارب 27 کروڑ40 لاکھ ڈالر تک جا پہنچی۔ یہ اضافے کی صورتحال کورونا کے بعد معیشت بحال ہونے پر دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اگر اس کا موازنہ گزشتہ مالی سال کے جنوری اور موجودہ مالی سال کے جنوری سے کرتے ہیں تو اعداد و شمار کچھ اس طرح سے ہیں کہ جنوری 2020 کی کل درآمدات کی مالیت 4 ارب 12 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز تھیں جو اس سال کے پہلے ماہ جنوری 2021 میں 4 ارب 82 کروڑ ڈالرز کی ہو گئیں، جو یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ اشیائے سرمایہ کی درآمد بڑھ رہی ہے۔ ایکسپورٹ کے لیے جن درآمدی میٹریلز کی ضرورت ہوتی ہے ان کی درآمدات بڑھ رہی ہیں۔

مشینریوں، آلات زراعت، ٹرانسپورٹ گڈز اور مواصلات سے متعلقہ اور دیگر بہت سی درآمدی اشیا کی درآمد بڑھ رہی ہیں۔ لیکن اب اس بات کی ضرورت ہے کہ ملکی سیاسی حالات بھی ایسے ہوں کہ معیشت کو ترقی کرنے کا موقع ایک تسلسل کے ساتھ ملتا رہے اور صنعتوں کی آبیاری کے لیے ضروری ہے کہ حکومت بھی صنعتکاروں کے ہاتھ مضبوط کرے۔ اب یہاں پر ایکسپورٹ کو زبردست بڑھاوا دینے کی ضرورت ہوگی۔ کیونکہ پاکستان کے ساتھ مسئلہ یہی ہے کہ برآمدات کم اور درآمدات بہت ہی زیادہ ہو جاتی ہیں جس کے باعث تجارتی خسارہ بہت بڑھ جاتا ہے۔

حکومت کی جانب سے اس مسئلے کی طرف توجہ دی جا رہی ہے کہ ایکسپورٹ کو بڑھایا جائے گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان کا دورہ سری لنکا بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ لیکن بات یہ ہے کہ کچھ معاہدے ہو جاتے ہیں کچھ دیگر امور پر اتفاق بھی کرلیا جاتا ہے لیکن بعد میں ایسے عملی اقدامات نہیں کیے جاتے جن سے ان معاہدوں سے خاطر خواہ فوائد سمیٹ لیے جائیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے کے بعد بین الاقوامی تجارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان جوکہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اس عالمی تجارت میں اپنے حصے کے مطابق کبھی شیئر حاصل نہ کرسکا۔ گزشتہ 73 برسوں سے اسی تگ و دو میں ہیں۔ اس دوران بہت سی رکاوٹیں پیدا ہوتی رہیں۔ جن کا تدارک کبھی نہیں کیا گیا۔ اردگرد کے دیگر ممالک نے تمام مشکلات اور رکاوٹیں دور کرکے آج پاکستان سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ اس کے لیے بنگلہ دیش، ویتنام کی مثال دینا ہی کافی ہے۔ بہرحال پاکستان کو اپنی بہت سی رکاوٹوں، مشکلات، مسائل کو حل کرتے ہوئے زبردست صنعتی دور میں داخل ہونے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع حاصل ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔