خواتین کی جدوجہد اور سماج میں کردار

زبیر رحمٰن  اتوار 7 مارچ 2021
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

انسان نے 50 ہزار سال قبل کاشت کاری اور غلہ بانی شروع کی۔ یہ دونوں کام زمانہ قدیم میں خواتین ہی انجام دیتی تھیں۔ آج دنیا کے بہت سے خطوں میں خواتین ہی کاشت کاری اور غلہ بانی کرتی نظر آتی ہیں۔ جیساکہ بھوٹان، نیپال، کمبوڈیا، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، ہندوستان، افریقہ اور پاکستان کے بیشتر دیہی علاقوں میں کاشت کاری اور غلہ بانی کرتی ہیں۔

خواتین کی جدوجہد اور اس کے سماجی کردار نے ہی قدیم انسان سے جدید انسان تک کا سفرکروایا۔ زمانہ قدیم یا امداد باہمی کے آزاد سماج یعنی قبل از غلامانہ نظام میں معاشرے کی بیشتر سرگرمیاں خواتین انجام دیتی تھیں۔ بچوں کی پرورش، کاشت کاری اور غلہ بانی کے علاوہ جنگلات سے سبزیاں پھل، دریاؤں سے مچھلیاں اور قرب و جوار سے جانوروں اور پرندوں کا شکار کرتی تھیں غذا کا ذخیرہ، علاج معالجے کے لیے جڑی بوٹیوں کی تلاش و تحقیق، اشیا خورونوش کا حساب کتاب، سجاوٹ، آرائش اور گھروں کی مرمت اورکپڑے بننے کا کام بھی خواتین ہی کرتی تھیں۔ اس وقت پورا سماج ہی ایک خاندان تھا۔ مرد حضرات صرف حملہ آور جانوروں کے بچاؤ کے لیے دفاع کا کام انجام دیتے اور دور دراز علاقوں سے شکارکرکے لاتے تھے۔

اس لیے بھی کہ وسائل اور دولت کے ذخیروں کو محفوظ رکھنے کے لیے پہرہ داروں کی ضرورت نہیں تھی۔ جب ریاست کا وجود ہوا تو طبقات نے جنم لیا۔ لوگ کمزور اور بلوانوں میں تقسیم ہوئے۔ پھر مردوں اور خواتین کی برابری اور اجتماعی سماج کا خاتمہ ہوگیا۔ ہر ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کے لیے چڑھ دوڑے۔ انھی خلفشار اور ہنگامی حالات میں غلامانہ نظام نے جنم لیا پھر نظام کے رکھوالے وسائل کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی جنس کے طور پر استعمال کرنے لگے اور عورت صرف بچے پیدا کرنے اور مردوں کی خدمت کرنے والی ایک آلہ کے طور پر استعمال ہونے لگی، مگر ماضی کی باقیات بہت سے خطوں میں رائج رہیں اور اب بھی کہیں کہیں ہیں۔

پہلی صدی میں اسکینڈینیوین خانہ بدوش بحری قزاق خاص کر نارویجن بحری قزاق نے جب سب سے پہلے بریٹون (موجودہ برطانیہ) پر حملہ آور ہوئے تو مادر وطن کی حفاظت کے لیے بریٹون کی 2 لاکھ 30 ہزار خواتین نے منظم فوج تشکیل دی، جس کی کمانڈ عظیم خاتون ’’بودیکا‘‘ نے کی تھی۔ انھوں نے بڑی بے جگری اور بہادری سے اسکینڈینیوین قزاقوں کا مقابلہ کیا۔ چونکہ بودیکا کی فوج کے پاس قدیم اور ناکارہ ہتھیار تھے جب کہ اسکینڈینیوین حملہ آوروں کے پاس اس وقت کے لحاظ سے جدید ہتھیار تھے۔

اس لیے بریٹون پر نارویجن قزاقوں نے قبضہ کرلیا اور لاکھوں مقامی آبادی کا قتل عام کیا۔ مقامی آبادی کی فوج کی کمانڈر ’’عظیم بودیکا‘‘ اور ان کی جواں سال دو بیٹیوں کا سرے عام ریپ کیا گیا اور ساتھ ساتھ لاکھوں عوام کا قتل کیا۔ ہزاروں لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کو برسوں برہنہ حالت میں رہنے پر مجبور کیا گیا۔ بعدازاں یہی اسکینڈینیوین قزاق پورے یورپ، یوکرائن اور روس پر حملہ آور ہوئے اور ان کے وسائل کو لوٹا اور سلطنت قائم کرکے وسائل کے مالک بن گئے۔

دنیا کے مزدوروں کا پہلا انقلاب 1871 میں پیرس میں برپا ہوا۔ جسے پیرس کمیون کہا جاتا ہے۔ یہ انقلاب صرف 70 روز قائم رہا اور بعدازاں فرانس اور جرمنی کے حکمرانوں نے اس عوامی انقلاب پر شب خون مارا۔ انقلاب کو برپا کرنے والوں میں بلانکسٹ، پرودھنسٹ، انٹرنیشنل سوشلسٹ اور سوشل ڈیموکریٹس شامل تھے جوکہ سارے انارکسٹ نظریے کے حامی تھے۔ یعنی مزدور طبقے، پیداواری قوتیں اور شہریوں نے یہ کر دکھایا کہ ہم ایسا سماج قائم کرسکتے ہیں۔ بہرحال سرمایہ دار حکمرانوں نے مزدوروں پر شب خون مارا، ان کا قتل عام کیا۔

اس عمل میں ہزاروں لاکھوں عوام قتل ہوئے۔ 80 ہزار خواتین فوج کو تشکیل دینے والی پیرس کمیون کی عظیم ہیروئن لوئس مشعل جن کو فرانسیسی حکومت نے 20 بار قید کیا اور آخر کار پاگل خانے میں قید کردیا۔ پیرس کمیون پر شب خون مارنے کے بعد فرانسیسی حکمرانوں نے لوئس مشعل کو آسٹریلیا سے سات سو میل دور ایک بیابان جزیرے میں جلاوطن کیا۔ جلاوطنی کے 2 سال ایک چار فٹ کے پنجرے میں بند رکھا گیا جب کہ کامریڈ لوئس مشعل 6 فٹ 5 انچ کی تھیں۔ 2 سال بعد باقی 16 سال انھیں دن کو رہا کردیا جاتا تھا اور رات کو قید میں رکھا جاتا تھا۔ 18 سال بعد جب انھیں فرانس واپس لایا گیا تو انھوں نے الجزائر سے آکر فرانس میں بسنے والے شہریوں پر سیاسی کام شروع کیا۔ اس لیے بھی کہ جب وہ آسٹریلیا سے 700 میل دور جزیرے میں قید تھیں تو ان کے ساتھ الجزائر کے جلاوطن قیدی بھی تھے۔

مشعل نے ان پر سیاسی کام کیا تھا اس کے علاوہ جزیرے میں 18 سال رہنے کے وقت لوئس مشعل نے جزیرے کے لوگوں کی مقامی زبان سیکھی اور انھیں فرانسیسی زبان سکھائی۔ بعد میں جزیرے کی قدیم آبادی نے نوآبادی نظام کے تسلط سے آزادی کے لیے بغاوت بھی کی تھی۔ بعد میں مشعل کے کردار اور نظریے سے متاثر ہو کر الجزائری کامریڈوں نے الجزائر میں بادشاہت کے خلاف بغاوت کی اور جمہوری نظام رائج کروایا۔

جرمنی کی عظیم انقلابی خاتون رہنما روز لگژمبرگ نے محنت کشوں اور پیداواری قوتوں میں بے مثال جدوجہد کی جو دنیا کی معروف ترین انقلابی رہنما تھیں۔ انھوں نے 1914 میں جنگ کی مخالفت کی جب کہ جرمنی کی کمیونسٹ پارٹی نے جنگ کی حمایت کی۔ اس پاداش میں روز کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔

1918 میں جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے رجعتی عناصر نے روز لگژمبرگ کو بندوق کے بٹ سے مار مار کر نالے میں پھینک دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر روز الگژمبرگ زندہ ہوتیں تو جرمنی کا 1918 کا انقلاب ناکام نہیں ہوتا۔

الباما، امریکا میں 1913 میں پیدا ہونے والی خاتون روز لگژمبرگ خواتین کی آزادی کی جنگ لڑنے والی عظیم خاتون ساری زندگی خواتین اور محنت کشوں کے حقوق کے لیے جنگ لڑیں اور مشی گن امریکا میں2005 میں انتقال کرگئیں۔ 1869 میں لیتھونیا میں پیدا ہونے والی ایماگولڈ مان چند برس یورپ میں جدوجہد کرنے کے بعد امریکا چلی گئیں اور ساری زندگی امریکا میں ہی انارکسٹ سینڈیکٹس سے منسلک رہیں۔ انھوں نے ہندوستان کی جنگ آزادی کے کامریڈوں کی بھی رہنمائی کی۔ وہ 1886 میں شکاگو کے مزدوروں کی جدوجہد میں شریک رہیں اور 1917 میں امریکا نے جب انھیں ملک بدر کیا تو روس آگئیں۔ پھر چند سال بعد امریکا واپس چلی گئیں ان کی وصیت کے مطابق شکاگو قبرستان میں دفنایا گیا۔

انقلاب روس کے بعد ان عظیم خواتین کی جدوجہد کے نتیجے میں 1918 میں جرمنی 1919 میں امریکا 1929 میں برطانیہ جب کہ 1973 میں سوئٹزرلینڈ کی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ اس خوف سے کہ وہاں کہیں انقلاب نہ آجائے اس تسلسل میں پاکستان میں افضل توصیف، طاہرہ مظہر علی خان، شانتاممتاز نورانی کی رہنمائی میں زبردست جدوجہد ہوئی۔

آج بھی محنت کش خواتین میں ہوم بیس وومن ورکرز فیڈریشن کی رہنما زہرہ اکبر خان جدوجہد میں برسر پیکار ہیں۔ ہرچند کہ پاکستان میں بلاناغہ خواتین اور لڑکیوں کا اغوا، ریپ اور قتل معمول کا عمل بن گیا ہے۔ زندہ درگور کرنے کو بلوچستان میں بعض بلوچ اور پشتون رہنما اسے اپنی روایات کا حصہ گردانتے ہیں۔ اس کے خلاف حزب اقتدار، حزب اختلاف یا مذہبی جماعتیں کوئی بھی آواز نہیں اٹھاتی ہیں، بلکہ تقریباً خاموش رہتی ہیں۔ ان مظالم کو روکنے کے لیے خواتین کو منظم ہو کر خود لڑنا ہوگا تب جاکر خواتین پر مظالم بند ہوں گے اور آزادی ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔