’’فکاہیہ‘‘ انٹرنل اسٹوریج

شہلا اعجاز  اتوار 7 مارچ 2021

’’سینیٹ کے الیکشن ہوگئے؟‘‘ صدا لگائی۔

’’کیا ہوا؟‘‘ آواز ابھری ’’جناب! سینیٹ کے الیکشن ہوگئے، حکمران پارٹی کے ووٹ کم نہیں ہیں، 47 ہیں البتہ مخالف جماعتوں کا بھی زورکم نہیں53ووٹ پڑے ہیں۔‘‘

’’پھرکیا ہوا۔۔۔۔ کیا چینی سستی ہوجائے گی، بجلی سستی ہو جائے گی، گیس کی لوڈ شیڈنگ تو نہیں ہوگی، قبضہ مافیا کا زور ٹوٹ جائے گا؟‘‘

’’جناب! آپ کمال کی بات کرتے ہیں۔ ہم آپ کو اخبارکی تازہ خبریں سنا رہے ہیں اور آپ نے مسائل کا انبار لگا دیا‘‘ چھوٹے میاں ذرا بگڑے تو بڑے میاں کچھ سنجیدہ ہوئے، اپنے موبائل فون کو کان سے لگائے بولے۔…’’پڑھیے بیٹا جی! ہم تو سننے کے لیے ہی بیٹھے ہیں پر اس موبائل فون کا کیا کریں، کم بخت کی انٹرنل اسٹوریج پھر شارٹ ہوگئی۔‘‘

’’پہلے ہی اتنی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا کہ کورونا نے بھی یہ ٹھیکہ لے لیا۔ یہ ویکسین جو کورونا سے بچاؤ کے لیے لگائی جائے گی، کیا واقعی انسان کورونا سے بچ جائے گا؟ یہ ویکسین کا ٹھیکہ جان بچانے والی ادویات کے مقابلے میں تگڑا ہوگا یا نہیں؟‘‘ بڑے میاں کے عجیب تیور دیکھ کر چھوٹے میاں چکرا اٹھے۔

’’کمال کرتے ہیں آپ بھی۔ ہم آپ کو سید یوسف رضا گیلانی کے جیتنے کی خبر سنا رہے ہیں اور آپ کو کورونا ویکسین اور جان بچانے والی ادویات کے ٹھیکے کی یاد آگئی۔‘‘

’’آخاہ۔۔۔۔خدا بخشے ہمارے ماموں مرحوم کو، کانپور میں اچھی بھلی حکمت چلتی تھی، بڑے امراض کا علاج کیا تھا انھوں نے، پرآخری عمر میں ماموں میاں کے ساتھ کیا ہوا، نسیان میں مبتلا ہوگئے تھے۔‘‘

’’نسیان۔۔۔۔!‘‘ چھوٹے میاں نے ذرا چرکر پوچھا، بڑے میاں نے پھر دورکی چھوڑی تھی۔

’’نسیان۔۔۔۔بھولنے کے مرض کو کہتے ہیں بیٹا جی! ماموں میاں جو خود سارے شہر کا علاج کرتے رہے پر اپنا نہ کرسکے۔ کیونکہ وہ بھول چکے تھے کہ نسیان ان کو ہے یا ان کی بیگم یعنی ہماری ممانی محترمہ کو ہے۔ بس پھر کیا تھا بٹکا بھر بھر کے ممانی محترمہ کو نسیان کی دوائی کھلانا شروع کردی۔‘‘

’’تو کیا آپ کے ماموں میاں تندرست ہوگئے تھے، میرا مطلب ہے کہ مرض ان کو لاحق تھا اور دوائی وہ اپنی بیگم یعنی آپ کی ممانی کو دے رہے تھے؟‘‘

’’ہاں ماموں میاں تو تندرست ہوگئے تھے کیونکہ ان کو نسیان میں مبتلا کرنے والی ان کی رفیقہ حیات۔۔۔۔حیات نہ رہی تھیں اور فٹ سے چل بسیں۔‘‘

’’کمال کرتے ہیں آپ۔۔۔۔۔ اس کا سید یوسف رضا گیلانی کی جیت سے کیا تعلق ہے؟‘‘

’’میاں! یہ تعلق ہی تو ساری بنیاد ہے۔ پر تم ابھی چھوٹے ہو۔ ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ ہمارے ماموں میاں نسیان میں مبتلا ہوگئے تھے لیکن ممانی محترمہ کے انتقال کے بعد انھیں بڑا دھچکا لگا اور انھیں احساس ہوا کہ انھوں نے کیا ظلم کردیا۔ جب تک ممانی محترمہ حیات رہیں ماموں میاں کو بادشاہی کا فخر رہا اور ان کے گزر جانے کے بعد سارا فخر چور چور ہو گیا اور ایک بار پھر وہ نسیان کا شکار ہوگئے اور اسی مرض میں چل بسے۔ اچھا میاں آگے کی کیا خبریں ہیں؟ ‘‘ ان کے سیل فون کی اسکرین روشن ہوئی، پھر فوراً بند ہوگئی۔…’’ارے یہ تو بڑی خبر ہے۔ پیپلز پارٹی نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا ہے۔‘‘

’’الیکشن کمشنر کو وہ خط مل گیا۔ ضرور خاص ڈاکیا ہوگا۔ ویسے سنا ہے کہ ڈاک کی ترسیلات اب برق رفتار ہوں گی۔ ویسے ہم بھی کیا خوب چھوڑ رہے ہیں۔‘‘ انھوں نے اپنا موبائل فون پھر اپنی ہتھیلی پر پٹخا۔

’’اجی خبر تو سنیے۔ رشوت دینے کا الزام لگایا ہے وزیر اعظم پر۔ ان کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن کے پیش نظر ایم این ایز کو رشوت دینے کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور یہ بھی لکھا ہے کہ پچاس کروڑ کے فنڈز۔۔۔۔!‘‘

’’رہنے بھی دو میاں! تمہاری خبریں مزے کی نہیں ہیں۔‘‘

’’اس میں مزے والی کیا بات ہے؟‘‘

’’کیا اس موئے اخبار میں مہوش حیات کی کوئی خبر ہے؟‘‘…’’نہیں تو۔۔۔!‘‘ چھوٹے میاں ذرا حیران ہوئے۔…’’مائرہ خان کے کسی فیشن شوٹ کی کوئی تازہ ترین۔۔۔۔۔یا کیا نام ہے اس لڑکی کا۔۔۔۔۔ہاں عائزہ خان۔۔۔۔بھئی واہ’’میرے پاس تم ہو۔‘‘

’’جی کیا مطلب آپ کا؟‘‘ چھوٹے میاں ذرا گڑبڑائے، بڑے میاں اب ذرا رنگین ہو چلے تھے۔…’’اے میاں! اس بوڑھے کی انٹرنل اسٹوریج بھی اس موبائل فون کی طرح شارٹ ہوگئی ہے۔ اے لو! ہماری ہی کیا پوری قوم کی انٹرنل اسٹوریج شارٹ ہے۔ تو پھر ہم مائرہ، مہوش اور میرے پاس تم ہو۔ ہمارا مطلب ہے کہ عائزہ خان کو کیوں نہ یاد کریں۔‘‘ چھوٹے میاں ہکا بکا انھیں دیکھ رہے تھے۔

’’اب آپ کی عمر نہیں ہے اس طرح کی باتوں کی۔ اللہ اللہ کیجیے حضرت۔‘‘

’’میاں اللہ اللہ ہی تو کر رہے ہیں، ورنہ اگر اللہ رب العزت انٹرنل اسٹوریج بڑھا دیتے تو پھر آپ کی ساری خبریں جو آپ گھنٹہ بھر سے ہمیں سنا سنا کر بورکررہے ہیں پھیکی پڑ جاتیں۔ ہمارا منہ نہ کھلوائیے۔‘‘ انھیں تاؤ ہی آگیا۔…’’یعنی اتنی اہم خبریں آپ کو بورکر رہی ہیں؟‘‘ چھوٹے میاں ذرا چندرا کر بولے۔

’’مشہور اداکاراؤں کے ذکر پر آپ کے چہرے پر رونق آ جاتی ہے،بعضوں کے اشتہارات پر اعتراضات بھی سامنے آئے‘‘

’’اب آپ طنز پر اتر آئے ہیں۔ یہ زیادتی ہے۔ بھئی! ہمارے چہرے پر پھول کھلنے سے بچی بوڑھی تو نہیں ہو سکتی ناں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے برخوردار! کہ بچی براہ راست اپنے ناقدین کو جواب دیتی رہی، یہاں تک کہ اس نے اپنے اور ان کے ضمیر کا بوجھ ہلکا کردیا۔‘‘

’’کبھی کبھی تو حضرت! ہمیں آپ کی باتیں بالکل سمجھ نہیں آتیں۔‘‘

’’اس لیے کہ آپ کی انٹرنل اسٹوریج شارٹ ہے کم عمری کے باعث یوں ہی ہوتا ہے اور ہم جیسوں کی زائد العمری کے باعث یہ انٹرنل اسٹوریج شارٹ ہو جاتی ہے۔‘‘…’’آپ کے موبائل فون کی انٹرنل اسٹوریج شارٹ ہوگئی ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ ہر بات میں اس کا جوڑ لگائیں۔‘‘

’’جوڑ لگانے کی بات آپ نے خوب کہی۔ اب دیکھیے ناں وہ بچی جو منہ بگاڑ کر پارٹی کہہ رہی تھی، اگر سینیٹ کے الیکشن میں وہ بچی شرکت کرتی تو کیا خوب جوڑ لگتا۔‘‘

’’آپ سے تو ہم باز ہی رہیں تو اچھا ہے۔ آپ دنانیر مبین کو سینیٹ کے الیکشن میں۔۔۔۔۔یہ کیا مذاق ہے جناب!‘‘ چھوٹے میاں نے سر ہی پیٹ لیا۔

’’یہ مذاق ہی ہے برخوردار! یہ پبلسٹی کا دور ہے۔ آپ ذرا غور کریں کہ ایک بچی تین جملے کہہ کر تین سال کے الیکشن سے پہلے ہی اس قدر مشہور ہوسکتی ہے کہ۔۔۔۔۔ اوہو۔۔۔۔ہمیں بھی نسیان ہو گیا ہے۔ ہماری مراد شہرت کے گراف کی ہے۔ آپ مشہور ہونے کے لیے کوئی بھی جوڑ توڑ لگا دیں۔‘‘…’’تو گویا آپ کی مراد یہ ہے کہ سینیٹ کے الیکشن میں۔۔۔۔؟‘‘

’’میاں آپ کی چکری سینیٹ کے الیکشن پر جا کر کیوں گھوم جاتی ہے۔ یہ بتائیے کہ کہیں آپ بھی تو اس کے امیدوار نہ تھے؟‘‘ وہ ٹیڑھی نظروں سے چھوٹے میاں کو گھور رہے تھے۔…’’کمال کرتے ہیں آپ۔ ہم کہاں اور۔۔۔۔۔‘‘ ابھی چھوٹے میاں نے کہنا ہی چاہا تھا کہ بڑے میاں نے بیچ سے اچک لیا۔…’’اس لیے کہ آپ کی انٹرنل اسٹوریج بالکل اس موبائل فون کی طرح شارٹ ہے۔ میاں الیکشن کی خبروں سے نکل کر دیکھیے کہ زمانہ کدھر جا رہا ہے، دنیا بھر میں کووڈ کے باعث مسائل بڑھ رہے ہیں۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، تجاوزات بڑھتی جا رہی ہیں، قبضہ مافیا سرگرم ہے، پاکستان گرے لسٹ کے تانے بانوں میں اور۔۔۔۔۔اور کیا بتاؤں آپ کو؟ پوچھیے کیا پوچھنا چاہتے ہیں آپ؟‘‘…’’معاف کیجیے گا، ہمیں لگتا ہے کہ ہماری انٹرنل اسٹوریج بھی شارٹ ہو رہی ہے۔‘‘ چھوٹے میاں نے اپنا اخبار سمیٹا اور خاموشی سے سر جھکا کرکھسک لیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔