لچک

ایم جے گوہر  اتوار 7 مارچ 2021

صوفی دانشور واصف علی واصف اپنی کتاب حرف حرف حقیقت میں لکھتے ہیں کہ جھڑکیاں دینے والا، رعب جمانے والا اور دھمکیاں دینے والا یہ بھول چکا ہوتا ہے کہ وہ بھی انسان ہے۔ انسان کو انسانوں پر رعب جمانے اور انھیں جھڑکی دینے کا کوئی حق نہیں۔ یہ نقلی استحقاق صرف غرورِ نفس کا دھوکا ہے اور غرور کسی انسان میں اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک وہ بدقسمت نہ ہو۔ نصیب والے، قسمت والے ہمیشہ عاجز و مسکین بن کر رہتے ہیں۔ وہ کسی بھی بلند رتبے پر فائز ہو جائیں انکسار ہی سے کام لیتے ہیں۔

مغرور بادشاہ فرعون کی عاقبت کے وارث ہوتے ہیں جب کہ مسکین و عاجز حکمران سرفراز رہتے ہیں۔ وہ سدا بہار ہیں، وہ دولت اور حکومت ہر دو کو امانت سمجھتے ہیں، مالک کی عطا کردہ عنایت۔ وہ مالک جو اعلان فرماتا ہے کہ وہی اصل مالک ہے، ملک کا مالک۔ جسے چاہے ملک عطا کرتا ہے اور جسے چاہے معزول فرماتا ہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ بیلٹ باکس ہمارے لیے ہم بیلٹ باکسوں کے ساتھ کھیل کرتے ہیں اور پھر۔۔۔۔قدرت ہمارے ساتھ کھیل کرتی ہے اور جب ہم معزول ہو جاتے ہیں تو اپنی آتش نوائیوں اور شعلہ بیانیوں کو اپنے لیے مرتبہ ساز مان لیتے ہیں اور اس طرح ہم بھول جاتے ہیں کہ اصل طاقت کیا ہے اور اس کا اصل سرچشمہ کیا ہے، ایسا کیوں؟ اس لیے کہ ہمیں اپنے ضمیر کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ شاید یہ آسمان سے آنے والی ہاتف کی صدا، جو ہمیں ہماری آلائشوں اور غفلتوں سے نجات دلانے کے لیے آتی ہے۔

ہمیں اخلاقی آلودگی سے بچانے کے لیے یہ آواز پراسرار راستوں سے ہوتی ہوئی دل کے کانوں میں گونجتی ہے۔ یہ آواز ہمارے لیے ان راستوں کو روشن کرتی ہے، جو نفس کی اندھیر نگری میں گم ہو جاتے ہیں۔ یہی آواز صدائے جرس، ناقوسِ وقت ہے، بانگ درا ہے اور ایک انتباہ ہے کہ اگر منزل پہ نظر نہ رکھی گئی تو گرد راہ میں کھو جانے کا خطرہ موجود رہے گا۔

ضمیر کی آواز بدستور پکار پکار کر کہہ رہی ہے۔ اے لوگو! حق سے زیادہ نہ لو۔ تاکہ محروم کو بھی اس کا حق مل سکے۔ تم اپنے بچوں کو مال حرام کھلاتے ہو، انھیں آگ کا لقمہ دیتے ہو۔ اپنے معصوم بچوں کو رشوت کا مال کھلا کر ہلاک نہ کرو۔ تم جس کام کے لیے ملازم رکھے گئے ہو اسے ایمانداری سے کرو، استحقاق کی بات کرتے ہو تو فرائض کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟ یہ ملک تو لاکھوں جانوں کی قربانیوں سے بنا ہے، قوم کو ایک اعلیٰ زندگی عطا کرنے کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا لیکن افسوس چند ہوس پرست جونکوں کی طرح اس کا خون چوس رہے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب یہ وقت بھی ختم ہو جائے گا، ضمیر کے باغی خاک ہو جائیں گے۔

آپ ذرا اندازہ لگائیے کہ ہمارے ملک کی سیاست میں حکمرانوں کی فرعونیت اور ضمیر فروشی کی بے حسی کا کیا عالم ہے۔ 3 مارچ کے سینیٹ الیکشن میں فرعونیت اور ضمیر فروشی کا مظاہرہ پوری قوم نے کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ پہلے حاکمانہ فرعونیت کی بات کرتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں فرمایا کہ اپوزیشن نے اپنے امیدوار یوسف رضا گیلانی پر پیسہ لگا کر ہمارے 16 ارکان خرید لیے۔ پیسہ دے کر اوپر آنا کون سی جمہوریت ہے؟ انھوں نے اپنے ارکان اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں اہل نہیں تو سامنے کہہ دیں۔ یہ نہیں کہ پیسہ لے کر کسی اور کو ووٹ دے دیں، اپنی آخرت تباہ نہ کریں۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حفیظ شیخ کو پیسے کے بل بوتے پر ہرا کر مجھ پر عدم اعتماد کی تلوار لٹکائی گئی۔

میں اسمبلی سے چلا بھی گیا تو چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ انھوں نے الیکشن کمیشن پر الزام لگایا کہ وہ ہارس ٹریڈنگ کا ذمے دار ہے اس نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا۔ سپریم کورٹ میں اوپن بیلٹ کی مخالفت کیوں کی؟ اب میری سمجھ میں آیا، اگر پندرہ سو بیلٹ پیپر پر بار کوڈ لگادیا جاتا تو ہمارے بکنے والے ارکان کا پتا چل جاتا۔ ویسے وزیر اعظم کو اپنے ارکان کے بارے میں پتا ہونا چاہیے اور پتا ہے بھی کہ کون کون سا رکن ضمیر فروش ہے۔ مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق حفیظ شیخ کی شکست کے پیچھے دو اہم عوامل کارفرما ہیں۔ اول خود وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خزانہ حفیظ شیخ کا اپنے ارکان اسمبلی کے ساتھ گزشتہ ڈھائی سالوں میں اپنایا جانے والا سردمہری اور مسلسل نظر انداز کرنے کا رویہ۔ کہا جاتا ہے کہ رکن اسمبلی کا وزیر اعظم سے ملنا گویا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔

ان کے حاکمانہ مزاج کے باعث اراکین اسمبلی ناراض ہوئے۔ کچھ ایسا ہی سرد رویہ حفیظ شیخ صاحب کا بھی رہا وہ اراکین اسمبلی کو وقت نہیں دیتے تھے پھر ان کی غیر سیاسی پوزیشن ان کی شکست کا سبب بنی۔ وگرنہ پی ٹی آئی کی فوزیہ ارشد کو جن دس ارکان نے 174 ووٹ کی برتری سے جتوایا وہ حفیظ شیخ کو بھی جتوا سکتے تھے۔ دوسرا عامل ضمیر فروشی کا ہے جو قومی سیاست میں خون کی طرح شامل ہوگئی ہے۔ نظریے کی سیاست ختم ہو چکی، مفادات کا حصول اور حرام مال کماؤ سیاست کا مطمع نظر بن گیا۔

کیا عمران خان کے پی کے باغیوں کی طرح اسلام آباد کے باغیوں کے خلاف بھی کوئی قدم اٹھائیں گے؟ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد ان کے سامنے دو بڑے چیلنجز چیئرمین سینیٹ کا انتخاب اور پنجاب میں عثمان بزدار کے خلاف ممکنہ تحریک عدم اعتماد سے نمٹنا ہے۔ اپوزیشن کے لیے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ انھیں طاقتور حلقوں کی مداخلت نظر نہیں آئی، جو قومی سیاست کے لیے نیک شگون ہے تاہم عمران خان کو اپنے انداز حکمرانی کو بدلنا ہوگا اور رویوں میں لچک پیدا کرنا ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔