میدان سیاست کی اخلاقیات اور تلخ حقائق 

محمد اسلم خان  پير 8 مارچ 2021
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

سیاست، تاثرات اور امکانات کا بے رحم کھیل ہے جس کا پہلا مرحلہ شاید مریم نواز بلا مقابلہ جیت جاتیں لیکن سینیٹ شکست کے بعد عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لے کر ایک بار پھر بازی الٹ دی ہے، لیکن وزیراعظم کا اعتماد کا ووٹ پی ٹی آئی کے غدار  ارکان اسمبلی کے لیے این آر او بھی بن جائے گا جنھوں نے سینیٹ الیکشن میں اپنے ووٹ مبینہ طور پر فروخت کر دیے اور حفیظ شیخ کو شکست ہوئی۔

ویسے یہ سیاست بھی کیا ظالم شے ہے جن ارکان نے غداری کی انھی سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑ رہا ہے ،نعرہ پھر بھی وہی ہے این آر او نہیں دوں گا۔عمران خان بد عنوانوں کے خلاف جنگ کرکے دیوتا بن گئے تھے ، لیکن اب بعض گستاخ بڑ بولے نئی تعبیریں ڈھونڈ رہے ہیں، نئی اصطلاحات استعمال کر رہے ہیں ۔ اب 18 مارچ کو ڈسکہ ضمنی انتخاب کا مرحلہ درپیش ہوگا جو بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کے تناظر میں کئی اشکال بدل رہا ہے ۔وزیراعظم سینیٹ الیکشن کے بعد سیاسی اخلاقیات پر بہت زور دے رہے ہیں، ویسے ہماری سیاست میں اخلاقیات کا کیا کام ہے؟

اس حوالے سے تاریخ کو دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ اوپن ووٹ کی مخالفت کرکے نوٹوں کو ووٹوں کے لیے استعمال کیا گیا، ویسے سوال کیا جاسکتا ہے کہ صادق سنجرانی کیسے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے تھے۔ 2018 میں چیئرمین کے انتخاب میں ووٹنگ نمبر کیا تھے؟ نون لیگ کے 16 ارکان نے غداری کی تھی اورشام کوجماعتی عشایئے میں بڑی شان وشوکت سے شرکت بھی ہوسکتی تھی۔ ووٹ کو عزت دینے والی نون لیگی قیادت نے ان غداروں کو جانتے بوجھتے اور پہچاننے کے باوجود ہاتھوں ہاتھ لیا تھا کہ زمینی حقائق ہمیشہ اخلاقیات پر سبقت رکھتے ہیں۔

اس وقت توانصافیوں نے جشن فتح منایاتھا، اب جب وہی فارمولا گیلانی زرداری جوڑی نے آزمایا تو اخلاقیات یاد آرہی ہیں اورچیخیں نکل رہی ہیں۔اسد عمر نیا استدلال لے کر آئے ہیں کہ عمران خان کی سیاست وزیراعظم بننے کے لیے نہیں تھی تو پھر کس کام کے لیے جدوجہد کر رہے تھے؟ یہ استدلال غلط ہے۔ہماری سیاست کی بنیاد یہ ہے ہم وزیراعظم بن کر قوم کی خدمت کریں گے اوریہاں اڑھائی سال میں جو خدمت ہوئی ہے سب کے سامنے ہوئی ہے۔

اسی طرح سیاست میں روپے،پیسے اوردولت کے بے محابہ استعمال کو نشانہ بنایاجارہاہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کے پی کے میں تینوں ارب پتی کسی اور نہیں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر پارلیمان میں پہنچے ہیں۔تازہ مظاہرہ میں وفاقی دارالحکومت کے امیرکاروباری نومنتخب سینیٹر عبدالقادرکو بلوچستان سے منتخب کرایاگیاہے۔ یہ پارلیمان میں غریب کارکنوں کو لانے کی سب سے ’’روشن‘‘مثال ہے۔

عبدالقادر کو تحریک انصاف اوراتحادی’’باپ‘‘ پارٹی نے یکساں جوش وخروش سے ووٹ دیا،ہائی کورٹ کے متوقع فیصلے کو غیرموثر بنانے کے لیے فیصل واوڈا کو قومی اسمبلی سے مستعفی کرایاگیااور سینٹرمنتخب کرا کے سیاست میں اخلاقی اْصولوں کی برتری کی مثال قائم کی گئی ۔اگر پنجاب میں سینیٹ کے انتخاب میں ’’چوروں اور ڈاکوؤں‘‘ سے مفاہمت کرکے بلامقابلہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں ، کے پی کے میں حضرت مولانا سے سلسلہ جنبانی استوار کیاجاسکتاہے اورایوان میں اس عمل کی باضابطہ تعریف کرتے نہیں تھکتے تو پھر بھی درس اخلاقیات کاہے ؟

ویسے وفاقی حکومت کی دونشستوں پر سینیٹ الیکشن ہورہا تھا۔ تحریک انصاف کی فوزیہ ارشد کامیاب رہیں جب کہ انھیں لمحوں میں ووٹ دینے والے ارکان کے ہاتھ حفیظ شیخ کو ووٹ ڈالنے پر کپکپانے لگے اور سپریم کورٹ سے نااہل قرار پانے والے یوسف رضا گیلانی جیت گئے ۔سینیٹ الیکشن کا تنازعہ صرف اسلام آباد کی ایک نشست تک محدود تھا،یوسف رضا گیلانی کی نشست پرایسا ہنگامہ شروع ہوا جس کی حدت ختم ہونے میں نہیں آرہی بقول وزیر اعظم عمران خان حکمران جماعت کے 16 ارکان قومی اسمبلی نے ضمیر بیچ دیا ۔

وزیراعظم الزام لگاتے ہیں الیکشن کمیشن جس کی آئینی ذمے داری یہ تھی کہ غیرجانبدارانہ اورشفاف الیکشن کرائے اس خریدو فروخت کے مکروہ اورگھناونے کھیل میں معاون کا کردار اداکررہا تھا جس پرالیکشن کمیشن نے غیرمتوقع طورپر شدیدردعمل کامظاہرہ کرتے ہوئے سینیٹ الیکشن کو شفاف اور غیرجانبدارانہ آئینی اورقانونی قراردیاہے۔ جناب عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد الیکشن کمیشن کے پریس ریلیز کا ذکر کرتے ہوئے استفسار کیاکہ اگر یہ اچھا الیکشن تھا تو برا الیکشن کیاہوتاہے۔ انھوں نے ارکان اسمبلی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ بھی فرمایاکہ بعض ارکان کی طبیعت خراب تھی لیکن اس کے باوجود اس نازک مرحلے پراعتماد کا ووٹ دینے کے لیے اجلاس میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔

اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ تمام ارکان یہیں موجود تھے بلکہ ان کے کمروں پر ساری رات پہرے دیے گئے لیکن ” 16غدار اور ضمیر فروش” کا دوبارہ تذکرہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ عملی سیاست کی مجبوریوں کی وجہ سے اب شاید اس ناگوار معاملے پر ’’مٹی پاؤ‘‘فارمولا کاسہارا لیاجائے گا۔سوال یہ ہے کہ امیدواروں کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا ہے؟سینیٹ الیکشن کے بارے میں انکشافات اورالزامات کی پٹاری کالم نگار نصرت مرزا نے اپنے یوٹیوب چینل پرکھولی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے دوستوں اوردشمنوں پر مشتمل سہ رکن اتحاد کا بنیادی مقصد عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہے۔

یوسف رضا گیلانی کی فتح تو پہلا مرحلہ  ہے۔ دوسرامرحلہ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہوگا ۔ڈسکہ کا 18 مارچ کو ہونے والا ضمنی انتخاب بھی اسی معاملے کی کڑی ہوگا، جب تاثرات کے کھیل میں تحریک انصاف کو ایک بار پھر شکست کا سامنا ہو گا ۔ اگرچہ مین اسٹریم میڈیا نے نصرت مرزا کے انکشافات پر توجہ نہیں دی لیکن حکومت کو چاہیے کہ وہ تحقیقات کرائے اوراگر  سینیٹ کے انتخاب میں پیسہ استعمال ہوا ہے تو قانون کو حرکت میں لایا جائے۔

پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے راجہ بشارت کے نام کی قیاس آرائیاں  ہورہی ہیں ، میرا خیال ہے کہ بفرض ایسا ہو بھی جائے تب بھی حالات کا بہتر ہونا مشکل ہے۔ پنجاب میں کوئی قابل قبول نام ہی جاری بحران حل کر سکتا ہے، آج نہیں تو کل اسی حل کو اپنانا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔