سیاسی اخلاقی ضابطے 

ظہیر اختر بیدری  پير 8 مارچ 2021
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

جمہوری نمایندے عوام کے لیے ایک رول ماڈل ہوتے ہیں کیونکہ عوام انھیں منتخب کرکے قانون ساز اداروں میں بھیجتے ہیں ایسے اہم اور معزز اداروں میں ملک کے لیے قانون سازی کرنے والوں کا اخلاق مثالی ہوتا ہے اور ہونا چاہیے اور قانون ساز اداروں کا فرض ہے کہ وہ اخلاق کے برعکس چلنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔ آج کل قانون ساز اداروں میں سخت زبان بولی جا رہی ہے ۔ وزیر اعظم کابینہ کا ہیڈ اور اراکین کے لیے قابل احترام ہوتا ہے۔

عمران خان ملک کے وزیر اعظم ہیں اور لیڈر آف دی ہاؤس سارے اراکین کے لیے قابل احترام ہوتا ہے لیکن ہمارے اپوزیشن کے اراکین پارلیمنٹ وزیر اعظم کے لیے جو زبان استعمال کر رہے ہیں اور جس طرح مذاق اڑا رہے ہیں وہ درست نہیں ہے کہ کسی اسمبلی میں بھی اس قسم کی زبان استعمال نہیں ہوتی ہوگی اور کوئی اس کا نوٹس لینے والا نہیں۔ اراکین اسمبلی بھی اس زبان کے خلاف آواز بلند کریں۔

سخت زبانی کی ایک وجہ غرور اور دولت کی بھرمار کا احساس بھی ہوتا ہے۔ پچھلی حکومتوں کے دوران ایسی لوٹ مار ہوئی کہ معزز ممبران کم ازکم کروڑ پتی تو بن ہی گئے اور جس کے چرچے زمین سے آسمان تک ہوتے ہیں ۔

یہ اداروں کا قصور نہیں بلکہ ان کا ہے جو غلط کام کرکے ان اداروں کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ عام انسان اور منتخب ارکان اسمبلی میں بہت فرق ہوتا ہے اور اس فرق کو ظاہر ہونا چاہیے یہ بات باعث حیرت ہے کہ قوم کو بااخلاق اور باکردار بنانے کی جن پر ذمے داری آتی ہے وہ لوگ ہی اس کے برعکس حرکت کر رہے ہیں۔

پاکستان کا پورا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جسے وجود میں آئے ہوئے ابھی صرف 72 سال ہو رہے ہیں ایسی خوبیاں رکھنے والے ملک میں مثالی اخلاقی قدریں ہونی چاہئیں لیکن یہ کس قدرافسوس کی بات ہے کہ اپنے نام کے ساتھ اسلام کا مقدس نام لگانے والے ملک کی سیاسی ایلیٹ اخلاق کا خیال نہیں رکھ رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ علم اور اخلاق جڑواں بھائی ہیں یہ کسی دور گزشتہ کی باتیں ہوں گی آج کل دولت اور بداخلاقی جڑواں بھائی بہن ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا ملک اسلامی ہے اور اسلامی قدروں کی تعریف کی جاتی ہے کیا اخلاق بھی اسلامی قدروں کا حصہ نہیں؟ سڑکوں پر آوارہ پھرنے والے بھی اپنے سے عمر میں بڑے لوگوں کا احترام کرتے ہیں اور یہ کلچر ساری دنیا میں عام ہے کیا اس قابل احترام کلچر اور روایات کی بے توقیری ہونی چاہیے؟ اصل بات یہ ہے کہ اس معاملے میں تربیت کا بڑا دخل ہوتا ہے خاص طور پر عمر میں اپنے باپ جیسے افراد کی ہر شریف انسان ہر شریف خاندان عزت کرتا ہے سڑکوں پر آوارہ پھرنے والے بھی اپنے بڑوں کی بلاامتیاز قدر و عزت کرتے ہیں۔ قدر و عزت کرنے والا جس کی قدر کرتا ہے وہ عزت کیے جانے والے سے زیادہ محترم ہوتا ہے۔

سیاسی اختلافات ہر ملک میں ہر جمہوریت میں ہوتے ہیں لیکن سیاسی اختلافات کا مطلب فریق مخالف کو ذلیل کرنا ہرگز نہیں۔ اس حوالے سے ہماری بزرگ نسلیں قابل تحسین ہیں کہ وہ معاشروں میں اخلاقیات کی ضرورت کو نہ صرف سمجھتی ہیں بلکہ اس پر عمل بھی کرتی ہیں۔ یہ کام خاندان کے بڑوں کا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بزرگوں کا احترام کرنا سکھائیں۔ ٹی وی ایک ایسا میڈیا ہے کہ پلک جھپکتے میں ساری دنیا میں پہنچ جاتا ہے اور سارے انسان اسے دیکھتے اور اس سے سیکھتے ہیں۔ جب ہمارے سیاستدان خواہ ان کا کسی پارٹی سے تعلق ہو اخلاقی ضابطوں کی یوں دھجیاں اڑائیں تو نئی نسلیں جو پہلے ہی اخلاقیات سے نابلد ہیں وہ مزید بگڑ جائیں گے۔

حالیہ سینیٹ الیکشن میں پی پی کے یوسف رضاگیلانی اور پی ٹی آئی کے حفیظ شیخ نے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑے، پی پی کے گیلانی انتخابات جیت گئے اور پی ٹی آئی کے حفیظ شیخ انتخابات ہار گئے فطرتاً انھیں ایک دوسرے سے دور ہونا چاہیے اور روایتی اخلاق کا بھی مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے لیکن جب وہ الیکشن سے فارغ ہوئے تو ایک دوسرے سے گلے ملے۔ یہ ہے وہ روایتی اخلاق جس سے نئی نسل واقف ہی نہیں، لگتا ہے کہ الیکشن لڑنے والوں کی الیکشن سے پہلے اخلاقی تربیت ہونی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔