ہماری نیک نامی

ظہیر اختر بیدری  منگل 9 مارچ 2021
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

جمہوری حکومتوں کا کام اتفاق رائے سے عوامی مفادات اور اتفاق رائے سے اس طرح قانون سازی کرنا اور حکومت چلانا ہوتا ہے کہ عوام کے مسائل بھی حل ہوں اور عوام کی تربیت بھی ہو لیکن ہمارے سیاستدانوں میں نہ اتفاق رائے ہے نہ عوام کے مسائل کے حل کی صلاحیت۔ حزب اختلاف کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ حکومت کی خامیوں، خرابیوں کی جمہوری طریقوں سے نشان دہی کرکے حکومت کو غلطیوں سے بچائیں۔

لیکن ہماری جمہوری تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں، ہماری اپوزیشن کی پہلی اور آخری ترجیح ذاتی اور جماعتی مفادات کے علاوہ کچھ نہیں اور سیاسی اخلاقیات کا یہ حال یہ ہے کہ اسمبلیاں مچھلی بازار بنی رہتی ہیں اور ممبران اس طرح دست و گریبان رہتے ہیں کہ انھیں دیکھ کر کشتی کے اکھاڑوں کا خیال آتا ہے۔

ابھی سینیٹ کے الیکشن ہوئے، جس کے دوران ایسے مظاہرے کیے گئے کہ عوام کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ ارکان کو اپنے حق میں کرنے کے لیے گفتگو کو ذریعہ نہیں بنایا جاتا بلکہ بھاری رقوم کی تھیلیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ عوام حیرت سے یہ نظارے دیکھتے ہیں۔

سینیٹ کے الیکشن میں اراکین کے ایک ووٹ حاصل کرنے کے لیے 70-70کروڑ روپوں کی قیمت ادا کی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام جن لوگوں کو اپنے مسائل حل کرانے کے لیے ووٹ دیتے ہیں ان ووٹوں یا عوام کے اعتماد کو 70 کروڑ میں فروخت کردیا جاتا ہے۔

یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے آج کل کرپٹ مافیا کا نظام کراچی سے اسلام آباد میں فروکش ہے اور ارکان کے ووٹوں کی خرید و فروخت میں مصروف ہے جس کی خبریں اخبارات میں لگ رہی ہیں اعلیٰ ترین زعما یقینا ان خبروں کو پڑھتے ہوں گے ان میں وہ اکابرین بھی شامل ہیں جن کا فرض کرپشن کے خلاف سخت کارروائیاں کرکے کرپشن کے مرتکبین کو سزائیں دلوانا ہوتا ہے۔

سیاسی اتحاد ہر جمہوری ملک میں بنتے ہیں جن کا مقصد اپنی اجتماعی طاقت کو استعمال کرکے عوام کے مسائل حل کرنا ہوتا ہے لیکن ہمارے سیاسی اتحاد اپنی اپنی طاقت بڑھا کر اقتدار میں آنا اور اقتدار میں آکر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا ہوتا ہے اور یہ کام ہمارے سیاستدان بڑی ذمے داری سے نبھا رہے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اتنی دولت جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ ان کی آنے والی نسلوں کو عالی شان زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریں۔

پاکستان کا شمار نوآزاد پسماندہ ملکوں میں ہوتا ہے جہاں آزادی کے بعد جاگیرداروں، وڈیروں نے سیاست اور اقتدار پر قبضہ کرلیا،جو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ آج بھی جاری ہے اس کے برخلاف دوسرے نو آزاد ملکوں میں ایک تو جاگیردارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا دوسرے نچلے طبقات کے لیے سیاست اور انتخاب کے دروازے کھول کر نچلے طبقات کو سیاست میں موثر کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کردیے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھارت میں نچلے ترین طبقے کا ایک فرد نریندر مودی دوسری بار وزارت عظمیٰ کے عہدے پر برسر اقتدار ہے جب کہ پاکستانی اشرافیہ عمران خان جیسے اپر مڈل کلاس شخص کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور اسے اقتدار سے ہٹانے کے لیے ہزار طریقے آزما رہی ہے۔

اصل میں ہماری ایلیٹ خوفزدہ ہے کہ اگر عمران خان کو موقع دیا گیا تو وہ اپنے پیر اتنے مضبوط کرلے گا کہ اس کو ہٹانا مشکل ہو جائے گا اور ایسا ہوا تو مڈل کلاس کے بعد لوئر مڈل کلاس بھی سیاست میں فعال ہوجائے گی اور سیاست کے اشرافیہ کے ہاتھوں سے نکل جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ ٹی وی پر ارکان سینیٹ اس طرح لڑتے دیکھے گئے جیسے سڑکوں پر لوگ لڑتے ہیں یہ خوشگوار سین پاکستان بھر ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں دیکھا گیا اور پاکستان کا نام اور روشن ہوا۔

اصل میں یہاں عوام کی بھی غلطی ہے انتخابات کے موقع پر ایسے لوگوں کو ووٹ دینا چاہیے جو ہر حوالے سے اہل ہوں اگر آنکھ بند کرکے اور ماضی اور حال کو جانے بغیر ووٹ بھگتانے کا رواج ہی رہا تو وہی نظارے دیکھنے کو ملیں گے جو پاکستان اور دنیا کے عوام نے تین مارچ کو سینیٹ کے الیکشن کے موقع پر دیکھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اکابرین نظر نہ آئے جو کاروباری حلقوں میں جانے پہچانے جاتے ہیں اور آئیں گے بھی کیوں ان کے کام وہ ایجنٹ کرتے ہیںجو دن کے اجالے میں نہیں رات کے اندھیروں میں یہ نیک کام کرتے ہیں۔ عمران خان نے اپنے طور پر بہت کوشش کی کہ خرید و فروخت کے اس کلچر کو ختم کرے لیکن خاندانی اشرافیہ بھلا کس طرح باز آسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔