ہمارا المیہ (حصہ اول)

شکیل فاروقی  منگل 9 مارچ 2021
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

وطن عزیز پاکستان کی حالت اس فقید المثال عالی شان عمارت جیسی ہے جسے اپنا خون جگر دے کر تعمیر کرنے والے لوگ اس جہان فانی سے کوچ کرکے ابدی نیند سو چکے ہوں اور وہ اس کے بعد نااہل ورثا یا قابضین کے ہتھے چڑھ جانے کے نتیجے میں شکست و ریخت اور بربادی کا شکار ہو جائے۔

اس دکھ بھری طویل داستان اور اس عظیم سانحے کے اسباب و عوامل کو ہمارے ہم سخن اور ہم صحبت محسن بھوپالی (مرحوم)نے اپنے اس لاجواب شعر کی صورت میں پیش کرکے نہ صرف حقائق سے پردہ اٹھا دیا ہے بلکہ دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے:

نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیے

منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے

بدقسمتی سے پاکستان کے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد بانی پاکستان بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ وفات پاگئے اور اس کے بعد ان کے دستِ راست اور معتمد وجانشین وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو ایک گھناؤنی سازش کے تحت راستے کی رکاوٹ کا آخری روڑا سمجھ کر راولپنڈی کے ایک جلسہ عام میں خطاب کے دوران گولی مارکر نہایت بے دردی سے شہید کردیا گیا۔

جس سانحے کی آج تک تحقیق نہیں ہو سکی۔ ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ اس عظیم رہنما کے یوم پیدائش اور شہادت کے ایام محض رسمی طور پر منائے جاتے ہیں اور انھیں محض خانہ پری تک محدود رکھا جاتا ہے جوکہ سراسر زیادتی اور محسن ناشناسی کے مترادف ہے۔

یاد رہے کہ موصوف تحریک پاکستان کے صف اول کے وہ عظیم رہنما تھے جنھوں نے قائد اعظم کے شانہ بشانہ جدوجہد میں شریک ہو کر اپنی بہت بڑی جاگیر لٹا کر اپنی بے لوث قیادت پر مہر ثبوت ثبت کردی تھی۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اس عظیم معمار پاکستان کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کا انھیں حق پہنچتا ہے۔ شہید پاکستان کو صرف شہید ملت کا خطاب دے کر مزار قائد کے ایک گوشے میں تھوڑی سی جگہ دے کر دفن کرنے کے بعد نظرانداز کردیا گیا ہے۔ کم و بیش یہی حال مشرقی پاکستان کے عظیم قائد تحریک پاکستان نورالامین (مرحوم) کا ہے، جو قطعی فراموشی کے عالم میں قائد اعظم کے پہلو میں مدفون ہیں۔

پاکستان کی وہ نسل جس نے اس مملکت خداداد کے قیام کی خاطر اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کیا تھا اب تقریباً معدوم ہو چکی ہے۔ اس کے بعد اب ہم جیسوں پر مشتمل اس نسل کے چل چلاؤ کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس نے تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی آخری جھلک اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ اس حوالے سے ہمیں اس وقت فراق گورکھپوری کا وہ معنی خیز شعر یاد آ رہا ہے جو انھوں نے کہا تو اپنے بارے میں ہے لیکن منطبق بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پر بھی ہوتا ہے:

آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو

جب بھی ان کو دھیان آئے گا تم نے فراقؔ کو دیکھا تھا

بلاشبہ ہماری یہ انتہائی خوش نصیبی ہے کہ ہمیں ایک سے زیادہ مرتبہ دہلی میں قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم کے دیدار اور ان کے خطاب کی سماعت کی سعادت حاصل ہے۔ ہم نے عظیم قائد کو جلسہ عام میں عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف دیکھا اور سنا تھا بلکہ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں کی گونج ہمارے کانوں کے اندر ابھی تک محفوظ ہے۔

ہم ان مسلم کش فسادات کے بھی عینی شاہد ہیں جن کا نشانہ 1947 میں انتہا پسند ہندوؤں اور ان کا ساتھ دینے والے سکھوں کے ہاتھوں نہتے مسلمانوں کو بننا پڑا تھا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ بھارت کے مسلمان قیام پاکستان کی سزا آج تک بھگت رہے ہیں۔

ہماری بدنصیبی یہ بھی ہے کہ ہم نے بحیثیت مسلمان اپنی شناخت بھی گم کردی ہے اور اس حقیقت کو فراموش کردیا ہے کہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے اتحاد کی قوت کے بل پر معرض وجود میں آیا تھا، لیکن افسوس کہ ہم قائد اعظم کی رحلت کے بعد ایک قوم کی صورت میں برقرار رہنے کے بجائے علاقائی اور لسانی تفریق کی بنیاد پر قومیتوں میں تقسیم ہوگئے اور اتحاد، یقین محکم اور تنظیم کے اس سبق کو بھول گئے جو ہمیں ہمارے قائد نے پڑھایا اور سکھایا تھا۔ یہ وہ جرم ہے کہ جس کی پاداش میں وطن عزیز دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا اور ہمارا مشرقی بازو ہم سے کٹ کر ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا۔

کسی نے سچ کہا ہے کہ جو قومیں اپنی تاریخ بھول جاتی ہیں ان کا جغرافیہ تبدیل ہو جاتا ہے۔1971 میں ہمارے ساتھ یہی سانحہ پیش آیا تھا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس عظیم سانحے کو بھی فراموش کردیا اور اپنے ماضی کی غلطیوں سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ اس تلخ حقیقت کا احساس ہمیں اس بات سے ہوتا ہے کہ ہماری نئی نسل کو یہ تک نہیں معلوم کہ ہمارے ساتھ سقوط مشرقی پاکستان کے المیے کی صورت میں ایک عظیم سانحہ بھی پیش آیا تھا۔

اس کا اندازہ ہمیں اس تجربے سے ہوا جو ہم ہر سال 15 دسمبر کو کرتے ہیں۔ ہم اس تاریخ کو زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آج کے دن کیا ہوا تھا؟ نہایت دکھ کے ساتھ ہمیں یہ جواب ملتا ہے کہ ’’نہیں معلوم‘‘۔ اس سے اس حقیقت کی غمازی ہوتی ہے کہ ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ہم نے اپنی نئی نسل کو حقائق سے آگاہ کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی اور ذاتی و گروہی مفادات میں اس قدر گم ہوگئے کہ اپنے قومی اور ملکی مفادات سے لاتعلق اور بے نیاز ہوگئے۔ بقول اقبال:

وائے ناکامی متاعِ کاررواں جاتا رہا

کاررواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

فرمان الٰہی ہے ۔ ترجمہ: ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ میں مت پڑو۔‘‘ جب تک ہم نے باری تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کیا اس وقت تک ہم فائدہ میں رہے اور جب ہم نے اس سے روگردانی کی تو ہمیں اس کی سزا بھگتنی پڑی۔ سقوط مشرقی پاکستان سے بڑھ کر اس کی مثال بھلا اور کیا ہوگی۔

اگر ہم نے بحیثیت قوم اپنی پہچان کو برقرار رکھا ہوتا تو یہ سانحہ کبھی پیش نہ آتا۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اتنا بڑا خمیازہ بھگتنے کے باوجود ہم ابھی تک علاقائی اور لسانی تفریق کے مرض میں مبتلا ہیں۔ کوئی اپنے آپ کو سندھی کہتا ہے، تو کوئی مہاجر، کوئی پٹھان اور کوئی بلوچ۔ کسی کو پنجابی ہونے پر فخر ہے۔ یہی وہ غلط روش ہے جس پر چلنے کے نتیجے میں ہم گمراہ ہوکر اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکے اور وہ مقام حاصل نہیں کرسکے جو ہمارے قائدین کو مقصود تھا۔ ہمارا حال یہ ہے کہ بقول شاعر:

زندگی ایسی کہ جس کا کوئی حاصل بھی نہیں

چل رہے ہیں رات دن اور کوئی منزل بھی نہیں

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔