خواتین کے حقوق اور ہماری ذمے داریاں !

علی احمد ڈھلوں  منگل 9 مارچ 2021
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

8مارچ خواتین کے حقوق کا عالمی دن گزر گیا، ان آنکھوں نے پورے ملک کو دو دھڑوں میں بٹے ہوئے دیکھا۔ ایک گروپ ان خواتین کا تھاجو سڑکوں پہ آ کر، نعرے لگا کر، مکے لہرا کر،پلے کارڈز اٹھا کر معاشرے کو شرم دلانا چاہتی ہیں کہ انھیں حقوق دو، حقوق دو، کاروکاری کا خاتمہ کیا جائے، عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنا بند کیا جائے، ریاست عورتوں پر تشدد کو روکے، عورتوں کی اُجرت کو بڑھایا جائے، مذہب کی جبری تبدیلی کو روکے، صحت کے مسائل حل کرے،پولیس اسٹیشنوں میں خواتین اور خواجہ سرا اہل کار تعینات کیے جائیں جو خواتین کے مسائل سنیں، سرکاری ملازمتوں میں خواتین کا کوٹہ بڑھایا جائے وغیرہ ۔

دوسرا گروپ ایسے حضرات وخواتین کا ہے جو عورت مارچ کو کسی صورت قبول نہیں کرتے۔ انھیں خواتین کے نعروں، پلے کارڈز پر لکھے الفاظ، سڑکوں پر گونجتی آوازوں پر اعتراض ہے، انھیں عورت مارچ میں لفظ ’’عورت‘‘ اور ’’مارچ‘‘ دونوں پہ اعتراض ہے۔

ہمارے معاشرے کا تانا بانا کچھ ایسا بُنا گیا ہے کہ اس میں وہ دھاگہ جس میں عورت لپٹی ہے، کچا رکھا جاتا ہے۔ صدیوں سے چلے ریتی رواج، روزمرہ بول چال، لغت کے الفاظ، محاورے، لوک داستانیں، حکایتیں، نصیحتیں سب مردانہ بالادستی اور خواتین کی کم مائیگی کے طے شدہ خود ساختہ سچ کے گرد گھومتی ہیں۔

اس لیے ہمارا ذہن بھی حاکمانہ بن گیا ہے، اگر ہم اس حوالے سے ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ بھئی کون سی قیامت آ گئی اگر عورتوں نے اپنے حقوق کی جنگ کو ذرا آگے بڑھانے کے لیے دو سال قبل ملک کے ہر بڑے شہر میں جلوس نکاالے (اور اب اُسی کا تسلسل ہر سال جاری رہتا ہے)، ہزاروں کی تعداد میں خواتین سڑکوں پہ نکلیں، رنگا رنگ پوسٹر بنائے، اپنے حقوق کے حوالے سے پُر جوش اور پُر عزم نعرے لگائے، مطالبات کا انبار قوم کے حکمرانوں کے سامنے رکھا، اورپھر شام ڈھلے گھروں کو لوٹ گئیں۔

ہاں کچھ نعروں اور پوسٹرز پہ لکھی گئی تحریروں اور خاکوں پر اعتراض ہو سکتا ہے اور کوئی اعتراض کرے بھی تو وہ اظہارِ رائے کی آزادی کے زمرے میں آئے گا۔ لیکن ہم تو کسی کو جائز حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں ۔ اگر کوئی کمتر اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہوجائے تو ہم اُسے دبانے کی شدید کوشش کرتے ہیں تاکہ ہماری اجارہ داری ختم نہ ہو سکے۔ مثلاًکچھ دن قبل میرے آفس میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک خاتون آئی۔

میں نے عورت مارچ کا ذکر شروع کردیا، گویا وہ خاتون تو جیسے پھٹ ہی پڑیں، کہا ڈھلوں صاحب! آپ یقین مانیں! ’’عورت مارچ‘‘ سوشل میڈیا پر لکھنے کی دیر ہوتی ہے، کمنٹس میں اس قدر غلیظ جملوں کی بھرمار ہوجاتی ہے کہ اکثر اپنی پوسٹس کے نوٹیفیکیشن بند کرنے پڑتے ہیں۔ہر بار عورت مارچ کے موقعے پر مجھ جیسی بہت سی عورتوں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ یہی رقیق اور گھٹیا جملے ہیں جو میری ذہنی صحت کو متاثر کر رہے تھے۔ باہر نکلیں تو بھی ہراس ہونے سے محفوط نہیں۔ پھر میں نے موضوع تبدیل کر دیا کیونکہ مجھے محسوس ہوا جیسے خاتون دلبرداشتہ ہوکر رونے لگے گی!

چلیں ہم اُس خاتون کی باتوں پر بھی کان نہیں دھرتے، ہم زمینی حقائق کی بات کر لیتے ہیں، پھر آپ خود فیصلہ کرلیجیے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ قارئین آپ کو یہ بات جان کر حیرت ہو گی کہ ورلڈ اکنامک فورم کی 2020 میں شایع شدہ جینڈر گیپ رپورٹ کے مطابق پاکستان 153 ممالک کی فہرست میں 151ویں نمبر پر ہے اور یوں پاکستان اس میدان میں صرف عراق اور یمن سے آگے ہے۔

پھر معاشی طور پر خودمختار خواتین کے حوالے سے ہماری رینکنگ153ممالک کی فہرست میں 150ویں نمبر پر ہے، تعلیم کے حوالے سے ہمارا نمبر 143واں ہے، صحت کی سہولیات کے حوالے سے 149واں ہے، سیاست میں حصہ لینے کے حوالے سے ہم 93ویں نمبر پر ہیں، زچگی کے دوران شرح اموات میں ہم تیسرے نمبر پر ہیں، یہی نہیں ہم جنوبی ایشیا میں بھی خواتین کو حقوق دینے میں آخری نمبر پر ہیں۔اور پھر اولمپک گیمز میں خواتین کی نمایندگی کے حوالے سے ہمارے ملک کا نمبر 111ہے۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی خواتین کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ قوانین نہیں بنا سکی،سابقہ حکومتوں کی طرح خواتین کے حقوق، تعلیم صحت پر کبھی کسی نے بات نہیں کی۔ ’’2016 میں تحفظ خواتین بل (پنجاب)‘‘ کے بعد کوئی نمایاں قانون سازی دیکھنے میں نہیں آئی،اور ویسے بھی ہمیں ان بلز کی کوئی ضرورت ہی نہیں کیوںکہ ان پر عمل درآمد کرانا ہی جان جوکھوں میں ڈالنے کا کام ہے۔

حالانکہ آئین پاکستان کی شق 25-A کے مطابق ریاست 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہے۔لیکن اگر پاکستان میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کا موازنہ کیا جائے تو ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے  مطابق تقریباً 25لاکھ بچیاں بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، 32 فیصد پرائمری اسکول جانے والی عمر کی لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں۔ چھٹی جماعت تک 59 فیصد لڑکیاں اسکول سے باہر ہیں۔نویں جماعت میں صرف 13 فیصد لڑکیاں اسکول جاتی ہیں۔

اور کالج لیول تک تو یہ تناسب  شرمناک حد تک گر جاتا ہے، یعنی محض 6فیصد رہ جاتا ہے۔ پھر یہاں زبردستی شادیوں کے رواج ، جائیداد میں خواتین کے حقوق سلب کرنے کے مسائل، پھر یہاں ریپ کے ہزاروں مسائل ہیں جنھیں کوئی نہیں روک پا رہا۔سوال یہ ہے کہ ہم نے اسکولوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کیا اقدامات کیے؟ اگر 6فیصد لڑکیاں اسکول جاتی ہیں تو ہم نے یہ تناسب 12فیصد تک لانے کے لیے کیا اقدامات اُٹھائے؟

بہرکیف ہم کس زمانے میں رہتے ہیں اور کس فلسفے کا ہم سہارا لیتے ہیں کہ بچیوں کی شادیاں کمسنی میں کر دی جائیں، انھیں زیور تعلیم سے آراستہ نہ کیا جائے، وہ شعور اور آگہی کی دولت سے محروم رہیں اور مالی معاملات میں مرد کے زیر تسلط رہیں۔ عورتوں کی کفالت کی ذمے داری بھی کیا خوب دھوکا ہے کہ وہ ہر وقت کچھ لینے کے لیے ترستی رہیں اور مرد حضرات کی دست نگر رہیں۔

اس سے بڑا عقل کا دیوالیہ پن کیا ہو سکتا ہے کہ ایک ماہر خاتون معالج کو یہ کہہ کر گھر میں بٹھا دیا جائے کہ خاندان کو رقم کی ضرورت نہیں۔ ہزاروں معالجوں کو ہم نے گھروں میں محدود کر رکھا ہے کہ خاوند یا اس کا باپ اصرار کرتا ہے کہ باہر کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ تجربہ کرکے دیکھیں کہ عورت باہر کام کرے اور مرد کو گھر کی ذمے داریوں میں مصروف رکھا جائے اور باہر نکلے تو چادر اوڑھ کر یا برقعہ پہن کر۔ خواتیں مرد سے مختلف ضرور ہیں لیکن وہ برابر کی انسان ہیں، ان میں ایک جیسی روح ہے، ان کی آنکھیں ایک جیسے خواب دیکھتی ہیں۔

نہ معلوم ہم مرد حضرات گھبرا کیوں گئے ہیں؟ کیوں سمجھتے ہیں کہ عورتیں جلوس کی صورت میں خود مختاری کا منشور اور عَلم لے کر نکلیں تو روایات، خاندان کی اکائی اور عزت، سب خاک میں مل جائیں گے۔ ٹھنڈے ہوں، آرام اور سکون سے رہیں، کچھ نہ بھی کریں ، کم از کم خواتین جو اپنی مشکلات اور مسائل بیان کررہی ہیں، وہ تو سن لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔