اُس کے قاتل ’عورت کُش‘ رسم ورواج ہیں۔۔۔!

رضوان طاہر مبین  منگل 9 مارچ 2021
شادی میں ’لڑکی والوں‘ پر مسلط بھاری بھرکم جہیز کا ’عذاب‘ آخر کیسے ختم ہوگا؟ فوٹو: فائل

شادی میں ’لڑکی والوں‘ پر مسلط بھاری بھرکم جہیز کا ’عذاب‘ آخر کیسے ختم ہوگا؟ فوٹو: فائل

کسی فرضی روپ میں۔۔۔کبھی کسی کتاب یا کسی ویڈیو کے افسانوی کردار میں، ہم زندگی کی بہت سی سچائیوں اور تلخیوں کو حقیقت سے قریب تر کر کے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ اور پھر اسے لکھنے اور پیش کرنے والے کے فن کو داد دیتے ہیں کہ اس نے منظر میں کیا خوب رنگ بھرا ہے، لیکن زندگی کی کسی ایسی ہی انتہا اور سچائی کو بالکل حقیقی روپ میں دیکھنا یک سر مختلف اور بے حد دشوار بات ہے۔۔۔

یہ تذکرہ ہے، گذشتہ ہفتے منظر عام پر آنے والی راجستھان کی 23 سالہ عائشہ زوجہ عارف خان کی خودکُشی سے پہلے کی ویڈیو کا، جنھوں نے اپنے شوہر اور سسرال کے مسئلوں کی وجہ سے تنگ آکر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔۔۔ یہ واقعہ 26 فروری کو پیش آیا، جس کے کچھ روز بعد جب یہ ویڈیو سامنے آئی، تو ہندوستان بھر کے سماجی حلقوں میں گویا ایک تہلکہ مچ گیا۔۔۔ اس واقعے پر پاکستان میں بھی ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے۔۔۔

ایک طرف اس واقعے کی مذہبی تشریح کی جا رہی ہے تو دوسری طرف ماہر نفسیات اس کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کر رہے ہیں۔۔۔ یہ واقعہ جہاں نہایت تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے، وہیں یہ اپنے میں اس پورے سماج کے لیے بے شمار سوالات اور سنگین اشارے بھی دے رہا ہے۔۔۔ اگرچہ یہ ہندوستان کا واقعہ ہے، لیکن جس صورت حال سے عائشہ دوچار ہوئی، کم وبیش ایسے حالات کا سامنا ہمارے ہاں کی خواتین کو بھی تو کرنا پڑ جاتا ہے۔۔۔

دو منٹ کی آخری ویڈیو میں نہایت پراعتماد نظر آنے والی عائشہ کا پرسکون اور خوش دکھائی دینا، ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا کرتا ہے۔۔۔ شاید طویل اور شدید دکھوں کے بعد اُس نے اپنے اس انتہائی قدم میں نجات محسوس کی تھی۔۔۔ مختصر سی ویڈیو میں اسے تین بار کہنا پڑتا ہے کہ وہ خوش ہے۔۔۔ پہلے وہ سلام کر کے اپنا مکمل نام بتاتی ہے اور پھر کہتی ہے کہ وہ جو کچھ کر نے والی ہے۔

وہ اپنی مرضی سے کر رہی ہے، اس میں کسی کا زور یا دباؤ نہیں۔۔۔ اتنا کہنے کے بعد گہری مسکراہٹ سجائی عائشہ کے اندر سے ایک آہ ابھر آتی ہے۔۔۔ سرد آہ بھر کر وہ کہتی ہے کہ کیا کہیں۔۔۔ یہ سمجھ لیجیے کہ زندگی اتنی ہی ہوتی ہے۔۔۔ پھر اپنے والد سے ’مقدمہ‘ واپس لینے کی خواہش کرتے ہوئے کہتی ہے کہ عائشہ لڑائی کے لیے نہیں بنی۔۔۔ اپنے شوہر عارف کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ’’پیار کرتے ہیں عارف سے، اسے پریشان تو نہیں کریں گے، اگر اسے آزادی چاہیے، تو ٹھیک ہے وہ آزاد رہے۔۔۔ اپنی زندگی تو یہیں تک ہے!‘‘

’’چلو۔۔۔، میں خوش ہوں کہ اب میں اللہ سے ملوں گی! انھیں کہوں گی۔۔۔‘‘ یہاں پہنچ کر عائشہ کے پرمسرت تاثرات بری طرح چغلی کھا جاتے ہیں۔۔۔ اس کی آواز مَن کے گہرے گھاؤ کی خبر دینے لگتی ہے، جس پر اگلے ہی لمحے وہ قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہتی ہے ’’کہ میرے سے غلطی کہاں رہ گئی۔۔۔ ؟ ماں باپ بہت اچھے ملے، دوست بھی بہت اچھے ملے۔ بس کہیں کمی رہ گئی، مجھ میں یا تقدیر میں۔۔۔!‘‘

اپنی ویڈیو میں عائشہ کہتی ہے کہ اللہ دوبارہ انسانوں کی شکل نہ دکھائے۔۔۔ اور ایک طرفہ محبت میں کچھ حاصل نہیں، کچھ محبت تو نکاح کے بعد بھی ادھوری رہتی ہے! اب کسی کے لیے نہیں رکنا۔۔۔ مجھے جو سوال کے جواب چاہیے تھے، وہ مل گئے، اور مجھے جس کو جو سچائیاں بتانی تھیں، وہ بتادیں، بس کافی ہے۔۔۔ شکریہ، اور مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا، کیا پتا جنت ملے یا نہ ملے۔۔۔! چلو، الوداع۔۔۔!‘

عائشہ کی اس ویڈیو کے بعد اس کے والد کی کال کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے، جس میں وہ روتے ہوئے کہتی ہے کہ اب بس بہت ہوا، اب وہ تھک چکی ہے۔۔۔ وہ بتاتی ہیں کہ شوہر نے اسے کہا تھا کہ اگر وہ مرنے جا رہی ہے، تو اپنی ویڈیو بنا کر دے دے، تاکہ بعد میں اسے پولیس نہ پکڑے۔۔۔ اور اب اسے ویڈیو بھیج دی ہے، اب مرنا ہے۔۔۔ اب بہت دیر ہوگئی ہے۔۔۔ والد اور والدہ بے بسی کے عالم میں اسے قسمیں اور مختلف واسطے دے کر واپس آنے کی منتیں کرتے رہتے ہیں۔۔۔ والد آخر ہار کر سب کو مار کر خود کشی کی دھمکی دیتا ہے۔۔۔ تو وہ زبانی طور پر تو آنے کا کہہ دیتی ہے، لیکن پانی میں کود کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی جاتی ہے۔۔۔!

ہم نے اس واقعے کی تفصیلات کریدیں، تو معلوم ہوا کہ عائشہ اپنے خاندان کی پہلی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی تھی، اس کی شادی ڈھائی سال قبل احمد آباد میں عارف خان سے ہوئی، اس وقت وہ ایم اے میں تھی۔۔۔ عائشہ کے والد لیاقت مکرانی درزی کے پیشے سے وابستہ ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنی بیٹی کی شادی پر قرض لیا اور کپڑے اور دیگر بہت سے سامان کے ساتھ تین تولہ سونا اور ایک کلو چاندی عائشہ کو دی، لیکن اب عارف کے اہل خانہ 10 لاکھ روپے کے مطالبہ کر رہے تھے۔

ہم نے کہا کہ ہمارے پاس نہیں ہے، تو انھوں نے عائشہ کو ہمارے گھر بھیج دیا، یہی نہیں بلکہ عارف کے تشدد سے بچے کی پیدائش سے قبل موت بھی واقع ہوئی۔۔۔ اس دوران ادھار لے کر ڈیڑھ لاکھ روپے بھی دیے کہ شادی بچ جائے، عائشہ نے معاشی تنگی دیکھ کر بینک میں ملازمت شروع کر دی تھی اور صلح بھی ہوگئی۔ عائشہ کی والدہ کے مطابق 25 فروری کو عائشہ کا اپنے شوہر عارف سے جھگڑا ہوا تو عائشہ نے مرنے کی بات کی، اور اگلے دن ہی اپنی زندگی ختم کر ڈالی۔۔۔!

کل یوم خواتین پر مختلف الخیال لوگوں نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق سماج میں صنف نازک کے لیے حقوق کا مطالبہ کیا۔۔۔ بہت سی باتیں کی گئیں۔۔۔ عدم مساوات، کاروکاری، قرآن سے شادی، تیزاب گردی اور تشدد سمیت بہت سے مسائل پر آواز بلند کی گئی۔۔۔ لیکن دوسری طرف ہمارا سماج آج بھی جہیز اور لڑکی والوں کے بھاری دَین کی ایسی کڑی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے کہ تعلیم اور اس کے خلاف آگہی بھی اسے ختم نہیں کر سکے۔۔۔

دراصل یہ لڑکی والوں کو کم تر سمجھنے ہی کی سوچ تھی کہ جس پر عارف اور اس کے اہل خانہ نے عائشہ کی زندگی اجیرن کی، اس پر بدترین تشدد کیا۔۔۔ یہاں تک کہ اسے اپنی جان لینے پر مجبور کر دیا گیا۔۔۔ عائشہ اپنے والد کو آخری کال پر بتاتی ہے کہ اس نے اب شوہر کی خواہش کے مطابق ویڈیو بھیج دی ہے، اب اسے مرنا ہے۔۔۔ یعنی عارف کے اُکسانے کے ردعمل میں بے بس عائشہ اس انتہا پر چلی گئی تھی کہ اس کی نظر میں اب اس انتہائی قدم سے باز رہنا اس کے لیے بزدلی اور بدعہدی کے مترادف تھا۔۔۔ اس کے مقابلے میں اسے خود کو ختم کر لینا زیادہ سہل اور بہتر معلوم ہوا۔۔۔ اور وہ اس دریا میں کود گئی۔۔۔ واقعے کے بعد اگرچہ پولیس نے اس کے شوہر کو گرفتار کر لیا ہے، شاید اسے سزا بھی ہوجائے، لیکن دنیا کی کوئی بھی سزا اس زندگی کا ازالہ نہیں کر سکے گی، جو کھو دی گئی ہے۔۔۔

شاید ہمارے ارد گرد بھی ایسی کتنی بچیاں ہوں گی، جو ایسے ہی کہانیوں سے گزر رہی ہوں گی۔۔۔ لیکن وہ مصلحتوں تلے دبی ہی رہ جاتی ہیں۔۔۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان خواتین پر جبر کے پہاڑ توڑنے والوں میں بھی کسی کی بیٹیاں ملوث ہوں گی، اور بیٹیوں والے بھی ہوں گے۔۔۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ اپنے سماج کی جس بے رحمانہ رسم کو نبھاتے ہوئے وہ کسی اور پر ظلم کر رہے ہیں، کل وہ خود بھی اس سے دوچار ہوں گے۔۔۔ ایسوں کے پاس یہ بہت آسان سا ’جواز‘ ہوتا ہے کہ بھئی ہم نے اپنی بیٹیوں کے لیے اتنا کچھ دیا، اب تو ہمارے بیٹے کی شادی ہے، اب ہم ’لڑکے والے‘ ہیں، اس لیے اب ہمیں دل کھول کر اپنے ’’ارمان‘‘ پورے کرنے ہیں۔۔۔؟

کیا یہاں ذرا سی انسانیت اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگرچہ ہمیں اپنی بیٹیوں کو جہیز دینا پڑا، لیکن ہم اپنی بہوؤں کو بغیر جہیز کے لائیں گے، تاکہ معاشرے سے اس غلط چلن کا خاتمہ ہو سکے۔۔۔

حقوق نسواں کی فہرست میں شاید ’جہیز‘ ان مسائل میں شامل ہے، جس سے لگ بھگ تمام ہی خواتین متاثر ہوتی ہیں، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ جن کی استطاعت ہوتی ہے، ان کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں، تاہم جہاں ذرا روپے پیسے کی تنگی ہے۔

وہاں یہ جہیز بھائیوں کی جوانیاں نگل جاتا ہے۔۔۔ والد کی جھکی کمر کو دُہرا کر دیتا ہے۔۔۔ لیکن آپ کتنا ہی کہہ اور سن لیں، محسوس ایسا ہوتا ہے کہ روایت کے نام پر اس بدترین ظلم کو بچی کی شادی کی خوشیوں تلے دبا دیا جاتا ہے اور اردگرد کے مہمانوں سے لے کر سارے عزیز واقارب تک اتنی اونچی آواز میں گیت گانے لگتے ہیں کہ لڑکی والوں کے باطن میں دبی ہوئی آہیں اور بے بسی، پھر نہ کسی کو دکھائی دیتی ہے اور نہ سنائی دیتی ہے۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔