صحرا میں پھولی سرسوں، بنجر زمین سے پھوٹتے معجزے

شبینہ فراز  پير 15 مارچ 2021
تھرپارکر میں خوش حالی ایک ناقابل تعبیر خواب بن کر رہ گئی ہے۔ (فوٹو: فائل)

تھرپارکر میں خوش حالی ایک ناقابل تعبیر خواب بن کر رہ گئی ہے۔ (فوٹو: فائل)

صحرا کی تصویر درختوں سے محروم ایک بے آب و گیاہ سرزمین، سرسراتی ہوا میں بنتے بگڑتے ریت کے ٹیلوں، دھوپ میں ہانپتے انسان، چرند پرند اور جانوروں کے منظر سے مکمل ہوتی ہے۔ لیکن صحرائے تھر کی تصویر کے رنگ اب بدلے بدلے نظر آرہے ہیں، یہ منظر اب کچھ شوخ ہوچلے ہیں۔

حد نظر تک کھیتوں میں سرسوں پھولی ہوئی ہے۔ سولر پینل سے زمین سے پانی سینچا جارہا ہے، جس سے محتلف اقسام کی فصلوں نے صحرا کو گل و گلزار بنادیا ہے۔ اب تھرپارکر کے مختلف علاقوں میں جنگل جلیبی، انار، گندم، کھجور، زیتون، کنول، ٹماٹر، پیاز، ڈریگن فروٹ، اسپغول، زیرہ سرسوں، تارا میرا، لوسن، لیموں، انجیر، شہتوت، امرود، فالسہ اور دیگر اناج اور سبزیوں کی کاشت آپ کو گویا کسی نخلستان کا پتا دے رہی ہوگی۔ مگر یقین کیجیے، یہ مناظر تھرپارکر کے ہی ہیں۔ جہاں ایک بہت چھوٹی تنظیم دعا فاؤنڈیشن اپنی اَن تھک محنت اور خلوص سے صحرا کی زمین میں معجزے اگا رہی ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو اگلے سفر میں آپ بھی ساتھ ہوجائیے۔

تھرپارکر کے لوگ تپتے سورج کے نیچے پانی اور غذا کی کمی کا ہمیشہ سے مقابلہ کرتے چلے آئے ہیں۔ ان کے بیشتر علاقوں میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے زندگی انتہائی دشوار گزار ہے۔ پانی ڈھونڈنے اور لانے کا بڑا بوجھ عورتوں اور بچوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور تھکن بچوں کو تعلیم حاصل کرنے اور عورتوں کو گھریلو، سماجی اور اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ یوں وہ غربت کے ظالم چکر سے نہیں نکل پا رہے۔ ایسے حالات میں خوش حالی ایک ناقابل تعبیر خواب بن کر رہ گئی ہے اور وہ ایک مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

تھرپارکر میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کا حصول ہوتا ہے۔ ان ایگرو فارمز کو سیراب کرنے کےلیے بورنگ کی جاتی ہے اور مختلف اقسام کے پمپ اور بجلی نہ ہونے کی صورت میں سولر پاور کی تنصیب بھی کی جاتی ہے اور ساتھ ہی پانی ذخیرہ کرنے کےلیے اسٹوریج ٹینک کی تعمیر کی جاتی ہے۔ جس کے باعث ملحقہ دیہات کے لوگوں کو بھی روزمرہ ضروریات اور پینے کےلیے صاف پانی میسر آجاتا ہے۔

دعا ایگرو فارم تھر کو گلزار بنانے کی ایک تعمیری سوچ تھی، جو اب حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ خوش امیدی اور نیک نیتی کے باعث یہ فارم اب اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔ اب تک 45 ایگرو فارمز مکمل ہوچکے ہیں۔ یہ کامیاب تجربات تھر کے رہائشیوں کےلیے روزگار کے نئے ذرائع پیدا کر رہے ہیں۔

تھرپارکر کی تحصیل کلوئی میں بھی دعا ایگرو فارم بنایا گیا ہے جس میں سرسوں، تارا میرا، ٹماٹر، پیاز، بیر اور لوسن کی کاشت کی جارہی ہے، جبکہ تجرباتی طور پر ایک تالاب میں کنول کے پودے بھی لگائے گئے ہیں۔

1217 اسکوائر کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئی کلوئی کی آبادی لگ بھک ایک لاکھ اٹھارہ ہزار نفوس پر مشتمل مانی جاتی ہے۔ اس کی علاقائی حد بندی ایک پولیس اسٹیشن اور پانچ یونین کونسلوں پر محیط ہے۔ یہاں موجود مویشیوں کی تعداد دس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہاں قدرتی طور پر گنا، کپاس، مرچیں، باجرہ، گوار اور مونگ کی فصلوں کی کاشت ہوتی ہے۔ سبزیوں میں بینگن، آلو، ٹماٹر، لیموں، سلاد، گوبھی، بند گوبھی اور کریلے کاشت کیے جاسکتے ہیں جبکہ پھلوں میں یہاں آم کی کاشت ہوتی ہے۔ مقامی جنگلی درختوں کانڈی، کونبھت، کھبڑ اور روہریو کی اچھی خاصی تعداد بھی موجود ہے۔ 240 کلومیٹر لمبائی کی سڑکیں اور 66 کلو واٹ کا ایک بجلی کا گرڈ اسٹیشن ہے۔ 357 پرائمری اسکول ہیں۔

تھرپارکر کے مختلف علاقوں میں جنگل جلیبی، انار، گندم، کھجور، زیتون، کنول، ٹماٹر، پیاز، ڈریگن فروٹ، اسپغول، زیرہ سرسوں، تارا میرا، لوسن، لیموں، انجیر، شہتوت، امرود، فالسہ اور دیگر اناج، سبزیوں اور دیگر موسمی پھلوں کی تجرباتی کاشت میں کامیابی حاصل ہونے کے بعد کاشت کاری کے میگا پروجیکٹس کا آغاز کیا گیا ہے۔ ان فارمز سے نہ صرف غذائی ضروریات پوری کی جارہی ہیں بلکہ دیہاتیوں کو معاشی خودمختاری بھی حاصل ہورہی ہے۔ اس طرح دعا فاؤنڈیشن تھرپارکر کے طول و عرض میں چھوٹے پیمانے پر پھلوں، سبزیوں اور اناج کی کاشت کاری کو فروغ دے رہی ہے۔ کھیتوں کی تیاری کے ساتھ ساتھ اس کی دیکھ بھال اور اچھی پیداوار حاصل کرنے کےلیے علاقے کے لوگوں کی تربیت کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ مخیر حضرات کے تعاون سے یہ ایگرو فارم تیار کرکے مقامی برادریوں کے حوالے کردیے جاتے ہیں۔ تھرپارکر میں پہلے سے موجود جنگلی بیروں میں اچھے قسم کے بیروں کی گرافٹنگ بھی کی گئی ہے اور اب ان درختوں کی شاخیں اچھے قسم کے بڑے ذائقہ دار اور غذائیت سے بھرپور بیروں کے بوجھ سے جھکی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ دعا فاؤنڈیشن کے تحت دھیرکوٹ ڈسٹرکٹ باغ میں کہو (جنگلی زیتون) کے 200 درختوں میں مطلوبہ معیار کے غیر ملکی زیتون کی گرافٹنگ بھی کی گئی ہے۔ جس سے مقامی باشندوں کے معاشی حالات میں بہتری آئے گی۔

یہاں کے بیشتر علاقوں کی زمین زرخیز پائی گئی ہے اور کسی مصنوعی کھاد کی ضرورت نہیں پڑتی، جب کہ زیر زمین پانی نہ صرف فصلوں کی تیاری میں کارآمد ہے بلکہ فارم سے ملحقہ فش فارم کی ضرورت پوری کررہا ہے اور اس سے مچھلیوں کی عمدہ افزائش ہورہی ہے۔ ان فارموں میں کاشت کاری کی منصوبہ بندی کرتے وقت جانوروں کے چارے، گھریلو استعمال کی سبزیاں، اناج اور پھلوں کی مقامی اقسام کے چناؤ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ فاؤنڈیشن کے چیئرمین عامر خان کے مطابق ان کامیاب تجربات کے بعد ہم بڑے پیمانے پر پیداوار حاصل کرنے کےلیے نئی ٹیکنالوجی کے استعمال اور ماہرین سے رہنمائی حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
پچھلے سال ہونے والے ٹڈی دل کے حملے کے بعد بہت سے فارموں کو نقصان پہنچا تھا، جنہیں مخیر حضرات کے تعاون اور علاقے کے محنت کشوں کی مدد سے دوبارہ سرسبز بنالیا گیا ہے۔ آئندہ ٹڈی دل کے حملے سے بچاؤ کےلیے کراچی یونیورسٹی کے تحقیقی شعبے کی مدد سے لائحہ عمل تیار کیا جارہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔