پاکستان کی سیاست اور اسکرپٹ کی تبدیلی

احتشام بشیر  بدھ 17 مارچ 2021
آگے کیا ہونے والا ہے یہ ’’اسکرپٹ‘‘ ہی طے کرے گا۔ (فوٹو: فائل)

آگے کیا ہونے والا ہے یہ ’’اسکرپٹ‘‘ ہی طے کرے گا۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کے سیاسی موسم کو کروٹ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ کب کیا ہوجائے، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ سینیٹ الیکشن سے قبل اپوزیشن نے حکومت کے خلاف میدان میں نکلنے کےلیے کمر کس لی تھی اور تمام اپوزیشن جماعتیں اس بات پر متفق تھیں کہ سینیٹ الیکشن کے بعد حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا جائے۔

اپوزیشن جماعتوں نے 26 مارچ کو اسلام آباد دھرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد اپوزیشن جماعتیں سینیٹ الیکشن میں مصروف ہوگئیں۔ لیکن سینیٹ انتخابات میں جس بات کی توقع کی جارہی تھی وہ نہ ہوسکی اور جس کی توقع نہ تھی، وہ ہوگیا۔ اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست کے لیے اکثریت پی ٹی آئی کی تھی اور کامیابی پیپلزپارٹی کو مل گئی، جبکہ چیئرمین سینیٹ الیکشن میں اکثریت کی بنیاد پر اپوزیشن جماعتوں کو کامیابی ملنی چاہیے تھی لیکن حکومت کو خلاف توقع کامیابی ملی۔

سینیٹ انتخابات سے قبل میدان سیاست میں طوفان برپا تھا۔ حکومت اور اپوزیشن میں ایک دوسرے کے خلاف صف بندی کرکے لفظی جنگ چھڑ گئی تھی۔ خیال یہ کیا جارہا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی میدان میں سینیٹ الیکشن کے بعد مزید طوفان برپا ہوگا۔ لیکن ایک بار پھر خلاف توقع حکومت کے خلاف نکلنے والی اپوزیشن کو اپنی ہی پڑ گئی۔

حکومت کے خلاف دھرنے کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کےلیے پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بلایا گیا اور اس اجلاس میں سینیٹ انتخابات کے نتائج پر بھی بحث کرنا تھی۔ جے یو آئی اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پہلے ہی ڈپٹی چیئرمین کے امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری کو کم ووٹ پڑنے کا معاملہ اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن یہ امید نہیں کی جارہی تھی کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے اپوزیشن کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ پی ڈی ایم اے کے اجلاس سے آصف علی زرداری کے خطاب نے اپوزیشن کی سیاست کا رخ ہی بدل دیا۔ مولانا فضل الرحمٰن ڈپٹی چیئرمین کے امیدوار کو ووٹ کم پڑنے پر غصے میں تھے ہی، اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی مخالفت پر مولانا فضل الرحمٰن مزید برہم ہوگئے اور نتیجہ حکومت کے خلاف دھرنا موخر کرنے کا نکلا۔

پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس سے قبل مقتدر حلقوں سے یہ باتیں سامنے آرہی تھیں کہ آصف علی زرداری ایک بار پھر سب پر بھاری ہوجائیں گے۔ اور وہی ہوا۔ اطلاعات کے مطابق اسکرپٹ کے تحت ہی پیپلزپارٹی آگے بڑھتی رہی، لیکن سینیٹ انتخابات کے بعد اسکرپٹ تبدیل کردیا گیا ہے۔ سینیٹ انتخابات کے بعد پنجاب میں اِن ہاؤس تبدیلی کرنا تھی اور اسکرپٹ کے تحت وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جگہ کسی دوسری شخصیت کو وزیراعلیٰ بنایا جانا تھا۔ لیکن نام پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ روک دیا گیا۔ اطلاعات یہ تھیں کہ پیپلزپارٹی چوہدری پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کے نام پر متفق تھی۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق کے درمیان پنجاب میں اِن ہاؤس تبدیلی کے معاملے پر رابطے بھی ہوچکے تھے لیکن پی ٹی آئی کے کچھ حلقوں نے اس کی مخالفت کردی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پی ڈی ایم کی بیٹھک میں جو ہوا وہ جاری منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ یہ سوال تو اٹھتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو نواز شریف کی وطن واپسی کا اتنا جلدی خیال کیسے آگیا؟ اب تک ہونے والی تحریک نواز شریف کے بغیر ہی چل رہی تھی۔ مولانا فضل الرحمٰن کو پی ڈی ایم کی سربراہی بھی اسی لیے دی گئی تھی کہ پی ڈی ایم کی سربراہی کےلیے مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کی کھینچاتانی میں اتحاد بن ہی نہ پائے گا۔ اتحاد قائم کرنے کےلیے ہی مولانا فضل الرحمٰن کو سربراہی دی گئی تھی۔

سیاست پر نظر رکھنے والوں کو یہ بخوبی علم ہے کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں الگ الگ کشتی کے سوار ہیں۔ دونوں کا نظریہ اور سوچ الگ ہے۔ کیسے وہ ایک دوسرے پر اعتبار کرسکتے ہیں اور کیسے ایک دوسرے کی سربراہی تسلیم کرسکتے ہیں؟ دونوں کی بے اعتباری حکومت کے خلاف تحریک کو کمزور کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ بظاہر مولانا فضل الرحمٰن نے تو بتادیا ہے کہ 26 مارچ کے مارچ کو موخر سمجھا جائے اور پیپلزپارٹی کو استعفوں کے معاملے پر وقت دیا گیا ہے۔ لیکن یہ پہلے بھی عیاں تھا اور اب بھی ظاہر ہے کہ پیپلزپارٹی کبھی بھی پارلیمنٹ سے استعفے نہیں دی گئی۔ اور اب تو معاملہ استعفوں سے آگے بڑھ کر نواز شریف کی واپسی پر آگیا ہے۔

اسکرپٹ میں اپوزیشن کے اتحاد میں دراڑ ڈالنا اور مارچ کو موخر کرانا تھا، جس پر عمل ہوچکا ہے۔ اگر اپوزیشن پیپلزپارٹی کے بغیر بھی میدان میں نکلتی ہے تو اب یوم عاشورہ تک انتظار کرنا ہوگا۔ 14 اپریل سے رمضان شروع ہونے والا ہے۔ عیدالفطر کے بعد عیدالاضحیٰ اور پھر محرم شروع ہوجائے گا۔ پی ڈی ایم کا اگست کے بعد ہی حکومت مخالف تحریک کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔

پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں آصف علی زرداری کے خطاب کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان تلخی پیدا ہوگئی ہے۔ جس انداز سے مریم نواز نے آصف علی زرداری کے خطاب کا جواب دیا ہے، اب معاملات بہتر بنانے میں وقت لگے گا۔ ان تمام معاملات میں فائدہ حکومت کو پہنچ گیا ہے اور باقی کا وقت حکومت سکون سے گزار سکتی ہے۔ لیکن سیاسی معاملات کے ساتھ حکومت کو اب عوامی مسائل پر دھیان دینا ہوگا۔ بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری پر پی ٹی آئی کی مقبولیت عوام میں کم ہوتی جارہی ہے۔

موجودہ سیاسی صورتحال میں پیپلزپارٹی کا کردار اہم رہا ہے۔ آنے والے انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی کا کردار اہم نظر آرہا ہے۔ موجودہ سیاسی تناظر میں مائنس ون فارمولے پر بھی کام ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جیسا کہ کچھ عرصے قبل ن اور ش کی باتیں سامنے آرہی تھیں۔ اگرچہ ش کا قیام نہ ہوا لیکن ش کا کسی حد تک کردار ہوگا اور ہوسکتا ہے 2023 کے عام انتخابات میں کوئی ایک جماعت نہیں بلکہ مخلوط حکومت بن کر سامنے آئے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ڈرائیونگ سیٹ پیپلزپارٹی کو مل سکتی ہے۔ آگے کیا ہونے والا ہے یہ ’’اسکرپٹ‘‘ ہی طے کرے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔