بُک شیلف

عبید اللہ عابد / بشیر واثق  اتوار 21 مارچ 2021
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

دیدہ و دل
مصنف: محمد الیاس کھوکھر ( ایڈووکیٹ)، قیمت : 600 روپے
ناشر: قلم فائونڈیشن ، بنک سٹاپ ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ
رابطہ : 03000515101


وکلا میں ایسے صاحب مطالعہ اور صاحب فکر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں جیسے کہ اس کتاب کے مصنف ہیں ۔ زیر نظر کتاب ان کے مضامین کا مجموعہ ہے جو علامہ اقبال ، سید ابوالاعلیٰ مودودی اور سید قطب شہید کے بارے میں لکھے گئے۔ ان مضامین میں ان تینوں عظیم شخصیات کی فکر پر بحث کی گئی ہے، ان کے افکار کے مختلف پہلوئوں پر بات کی گئی ہے۔

مصنف لکھتے ہیں :
’’ علامہ اقبال اور سید مودودی دونوں کا خیال تھا کہ قوم مسلم کے تصور مذہب میں بنیادی خرابیاں ہیں ، محض جزوی اصلاح اس کا حل نہیں ۔ ایک ہمہ جہت انقلاب کی ضرورت ہے جو تہذیب مسلم پر پڑنے والے بیرونی اثرات کو نہ صرف روک سکے بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر تہذیب فاسدہ پر تہذیب اسلامی کی برتری کو جواز فراہم کر دے ۔ مسلمانوں پر ایک نہیں، دو تہذیبوں کی یلغار تھی۔ تہذیب مغرب اور ہندووانہ رسم و رواج کی، مسلمانوں میں رواداری کے نام پر ایک ایسی تہذیب رواج پاتی چلی جا رہی تھی جو اسلامی، مغربی اور ہندو تہذیب کا ملغوبہ تھی ۔ یہ ایک ایسا تہذیبی گرداب تھا جس میں مسلمان پھنس کر رہ گیا تھا ۔ اس گرداب سے قوم مسلم کو نکالنے کے لئے علامہ اقبال نے جو سعی آخر کی انہی لائنوں پر سید مودودی بھی کام کر رہے تھے ۔

مسلمانوں کی شوکت رفتہ کو واپس لانے کے لئے اخوان ( مصر) کے پلیٹ فارم سے سید قطب شہید نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ ان کا انداز سید مودودی کے انداز سے ملتا جلتا تھا… میں نے بڑی درد مندی کے ساتھ صورت حال کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ علامہ اقبال اور سید مودودی کا اپنا اپنا مقام ہے، تصور دونوں کا ایک ہی ہے۔ دونوں نے اپنی اپنی محبت کو امت مسلمہ کی جھولی میں لا ڈالا۔ سید مودودی اور علامہ اقبال کی طرح سید قطب بھی مبارک انسان تھے۔‘‘

اس کتاب کے گیارہ ابواب ہیں جبکہ دیباچہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی ایک تحریر کو بنایا گیا ہے ۔

تیرہواں ستارا ( افسانے/ کہانیاں )
مصنف : شبیر احمد بھٹی، قیمت : 350 روپے
ناشر : بزم تخلیق و تحقیق، کوٹ ہتھیال ، بھارہ کہو، اسلام آباد، رابطہ: 03335499585


تیس افسانوں، کہانیوں کا یہ مجموعہ اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس میں شاید ہی کوئی عشق و محبت کی کہانی ہو ۔ بقول مصنف ’’ میں نے اپنے گردوپیش کی معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی خامیوں اور کمزوریوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے ۔ میرے نزدیک عشق و محبت کی داستانیںمحض جذبات کو ابھارنے کے سوا اور کوئی کام نہیں کر پاتیں جبکہ دیگر موضوعات میں اصلاح کا پہلو زیادہ کارگر ہوتا ہے‘‘ ۔

’ تیرہواں ستارا ‘ میں وہ کہانیاں موجود ہیں جن کا تعلق عام گھرانوں، ایوانوں، دفاتر اور تھانوں سے ہے۔ مصنف نے ماضی قریب اور موجودہ حالات میں رونما ہونے والے واقعات و حادثاتِ زمانہ کو بیان کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی کہانیاں پڑھنے کے بعد انسان اپنے اردگرد دیکھتا ہے تو اسے یہ کہانیاں پروان چڑھتی اور چلتی پھرتی دکھائی بھی دیتی ہیں ۔

مصنف کو یقین ہے کہ یہ افسانے اور کہانیاں پڑھنے کے بعد قاری کو اپنے اردگرد کی معاشرتی زندگی میں نظر آنے والے بہت سے کردار ’ تیرھواں ستارا ‘ کے مدار میں گھومتے نظر آئیں گے ۔ مصنف کا کہنا ہے:’’ میں اپنی کتاب کا نام اگر آئینہ یا گریبان رکھتا تو یہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ ضرور کہتے کہ مصنف نے واقعی معاشرے کو آئینہ دکھایا ہے اور معاشرے میں بسنے والوں کو ایسے کرداروں کے گریبان میں جھانکنے پر مجبور کیا ہے۔‘‘

یقیناً ایسا ہی ہوتا، جب ایسی کہانیاں پڑھی جاتی ہیں تو اپنے آپ کا جائزہ لینے کا موقع ضرور ملتا ہے ۔ اس اعتبار سے ازحد ضروری ہے کہ آپ اس کتاب کا مطالعہ خود بھی کریں اور دوسروں کو بھی کروائیں۔

تعمیر مسکن
مصنف : بشارت حمید، قیمت : درج نہیں
ناشر : الحمید کنسٹرکشن ، G-16 گرائونڈ فلور ، ایمان پلازہ ، مین بلیوارڈ واپڈا سٹی ، فیصل آباد، رابطہ : 0300 8650288


زیر نظر کتاب ایک ایسے منفرد موضوع پر ہے جو عمومی طور پر ہمارے لئے درد سر بنا رہتا ہے۔ ہر فرد اپنا گھر تعمیر کرنا چاہتا ہے لیکن وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ لوٹ مار کرنے والے ٹھیکیداروں کی لوٹ مار اور استحصال سے محفوظ رہے بالخصوص اگر وہ فرد اس سارے عمل سے انجان بھی ہو۔ عمومی طور پر ٹھیکیدار مکان بنوانے والے کو اسی قدر لوٹ سکتے ہیں جس قدر وہ لاعلم ہوتا ہے۔ اس لئے اہم ترین بات یہی ہے کہ آپ اپنے مکان کی تعمیر کے ہر مرحلے کے حوالے سے مکمل معلومات رکھیں ۔ نتیجتاً آپ اپنا گھر خود بنوانے کی اہلیت حاصل کر سکتے ہیں، اگر وقت نہ ہونے کے سبب ٹھیکیدار کی خدمات لینا پڑیں تو وہ آپ کی معلومات کی وجہ سے استحصال کا بمشکل سوچے گا ۔

یہ ایک ایسی رہنما کتاب ہے جو انتہائی آسان فہم انداز میں پڑھنے والے کو گھر کی تعمیر کی الف بے سے یے تک ہر مرحلے کی مکمل معلومات فراہم کرتی ہے ۔ مثلاً اپنے گھر کے خواب کو تعبیر دینے کا منصوبہ کیسے بنایا جائے؟ پلاٹ کہاں لیا جائے؟ پلاٹ خریدتے وقت کن باتوں کو یاد رکھنا ضروری ہے ؟ پراپرٹی ڈیلرز کیا کرتے ہیں؟ زمین کی خریداری کے دوران میں پٹواری سے کیسے معاملات طے کیے جائیں؟ ماضی میں گھروں کی تعمیر کیسے ہوتی تھی؟ اور موجودہ کلچر کیا ہے؟ نقشے کی ضرورت و اہمیت ، گھر کا نقشہ کیسا بنوانا چاہئے؟ سستا گھر کیسے بنایا جا سکتا ہے ؟ تعمیر سے پہلے کرنے والے کام ، اچھے کنٹریکٹر کا انتخاب ، کوالٹی کا خیال ، کہاں کہاں سے بچت کی جا سکتی ہے؟ تعمیرشدہ گھر خریدنا ہو تو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے؟

غرضیکہ آپ کو اس کتاب میں ایک ایک معاملے میں رہنمائی ملتی ہے۔ اگر آپ یہ کتاب پڑھ لیں گے اور اس سے حاصل شدہ معلومات پلے باندھ لیں گے تو دو بڑے فوائد حاصل ہوں گے:

اولاً : ٹھیکے دار کی لوٹ مار سے محفوظ رہ سکیں گے ۔

ثانیا ً: آپ کا گھر خرابیوں اور خامیوں سے پاک ہو گا ورنہ بعد ازاں خامیوں کی درستگی ایک الگ درد سر ہوگی ۔ اس لئے گھر بنانے کے اولین مراحل سے پہلے اس کتاب کا مطالعہ ازحد ضروری ہے ۔

دست قدرت
شاعر: خالد جوہری، قیمت:400 روپے، صفحات:192
ناشر:ادبستان، پاک ٹاور، سلطانی محلہ، کبیر سٹریٹ، اردو بازار ، لاہور (03004140207)


اللہ تعالیٰ بے مثل ہے، اس جیسا کوئی نہیں، وہ عام انسانوں کے گمان سے بھی پرے ہے ۔ اس کی شان نرالی ہے ۔ اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ وہ ہمارے احاطہ تحریر سے باہر ہے ، وہ تعریف سے بھی ماورا ہے۔ حمدیہ شاعری اس کی تعریف کی ایک حقیر سی کوشش ہے ہر شاعر اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتا ہے اور اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے۔ یہیں سے عشق حقیقی کی داستان شروع ہوتی ہے جو تعریف کی منزل سے آگے بڑھ جاتے ہیں وہ راہ سلوک کے مسافر بن کر فنا فی اللہ کی وادیوں میں داخل ہو جاتے ہیں اور یہی اصل منزل ہے۔

خالد جوہری نے بڑے خوبصورت انداز میں حمدیہ کلام پیش کیا ہے اہم بات یہ ہے کہ پوری کتاب حمدیہ کلام پر ہے ۔ حمدیہ شاعری کے حوالے سے ماہرین ادب کا فرمان ہے کہ یہ سب سے مشکل صنف ہے ۔ خالد جوہری نے حمدیہ کلام میں تمام تر فنی باریکیوں کو مدنظر رکھا ہے۔

ڈاکٹر منیر حسین کہتے ہیں ’’ خالد جوہری نے اس میں رب تعالیٰ سبحانہ کی صفات کا ذکر نہایت ہی آسان ، سادہ اور عام فہم الفاظ میں کیا ہے اور یہ شاعر کا کمال فن ہے کہ رب تعالیٰ سبحانہ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار سادہ لفظوں میں بیان کر کے قارئین کی نذر کیا ہے، ان کے بہت سے اشعار اپنے اندر قرآن مجید کی آیات کا مفہوم سموئے ہوئے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر محمد قمر اقبال کہتے ہیں ’’ خالد جوہری نے حمد نگاری کے تمام تر تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور اس اعلیٰ و ارفع فن کے تمام تر فکری و فنی مضمرات کو بروئے کار لاتے ہوئے، کمال عاجزی و انکساری سے رب کائنات کے جلال و جمال کا اقرار و اظہار کچھ ایسے دلکش انداز میں کیا ہے کہ قاری کی روح ان قدسی و ملکوتی نغموں کے پاکیزہ ترنم سے جھوم اٹھتی ہے ۔‘‘ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

ایک اداس کتاب
مصنفہ : امرتا پریتم ، قیمت :400 روپے
ناشر : بک کارنر ، جہلم، واٹس ایپ 03215440882


یہ واقعی ایک اداس کتاب ہے، اس میں امرتا پریتم نے مشرق و مغرب کے ان ادیبوں کا تذکرہ کیا ہے جنھوں نے نامساعد حالات کے سبب اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا چراغ گل کیا یا پھر ان کے مخالفین، دشمنوں نے انھیں زندہ نہ رہنے دیا ۔ کتاب کے تین حصے ہیں۔ پہلے حصے میں جیک لنڈن، ولادیمیر مایا کوفسکی، ارنسٹ ٹولر ، ارنسٹ ہیمنگوے ، کاوا باتا ، اتیلا جوزف اور کوکیومشما کا تذکرہ ہے۔ دوسرے حصے کا عنوان ہے: ’’ جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔‘‘ اس میں الیگزینڈر پشکن ، شاندورپتیوفی، خرستوبوتیف ، اوسپ مینڈل سٹام ، گیوملیف ، گارشیا لورکا ، پینجمن فندویان ، جیولیس فیوچک ، یی یک سا ، موسیٰ جلیل ، رادنوتی مکلوش ، نکولا واپستا روف ، جون کارن فورڈ، زویا کرگ لووا ، ارنسٹو چی گویرا، مارٹن لوتھر کنگ، جیسوئیر ہیرود اور فرنینڈوگاردیوسروانتیس کا تذکرہ ہے ۔

دوسرے حصے میں جنگی قیدیوں کی ایک جیل ’’ساچ سین ہائوسین‘‘ کا ذکر بھی ہے، جب اسے 1958ء میں گرایا گیا تو اس کے ملبے سے پھٹی ہوئی ایک کاپی ملی، اس میں پچاس نظمیں لکھی ہوئی تھیں۔ یہ مزاحمتی نظمیں تھیں، جدوجہد کرنے اور فتح کا پرچم آسمان تک اٹھانے کا سبق دینے والی نظمیں ۔

کتاب میں آج کی دنیا کے بعض ان شاعروں کی نظمیں بھی شامل ہیں جنھوں نے بقول امرتا پریتم ’’ زندگی سے اکتا کر اس دنیا میں زندہ رہنے سے انکار کر دیا تھا ۔ اکتا جانا وقتی ہوتا ہے اور ان خاص لمحات میں کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن اچھے شاعروں کی تخلیقات میں کچھ بھی وقتی نہیں ہوتا ، اس لئے ان کی تخلیقات نے مرنے سے انکار کر دیا ہے ۔‘‘

کتاب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امرتا پریتم نے ان ادیبوں کے کوائف کس قدر محنت سے جمع کیے ۔ امرتا پریتم نے اسے نہایت دردمندی سے لکھا ، جناب احمد سلیم نے عمدگی سے اردو کے قالب میں ڈھالا۔ کتاب کا ایک تیسرا حصہ بھی ہے : ’ مترجم کے ضمیمے‘۔ اس میں شکیب جلالی ، قمرعباس ندیم ، الیگزینڈر بلاک کا تذکرہ ہے ۔ کچھ مضامین، نظمیں اور خطوط بھی شامل ہیں مثلاً ’ عورت، تخلیق اور خودکشی‘ ، ’مایاکوفسکی کی ایک یادگار نظم ‘ ، ’ کلیمن جارو کی پہاڑیاں ‘، ’پشکن کی دو یادگار نظمیں‘، ’موسیٰ جلیل کے محاذ جنگ سے چند خطوط‘ ، ’ السلواڈور سے ایک خط ‘، ’بینجمن مولائس… آخری لفظ ‘، ’ کیوبا کے صدرفیدل کاسترو کے نام چی گویرا کا آخری خط‘ اور ’چی گویرا کا خط اپنے بچوں کے نام ۔

فیض احمد فیض نے لکھا : ’’ اہل ذوق اور شائقین ادب کے لئے یہ اداس کتاب یقیناً لطف اور دلچسپی کا باعث ہوگی ۔‘‘ ( تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد)

شاندار صحت ، صرف قدرتی غذائوں کے ذریعے
محض تین ہفتے قبل ایک رپورٹ نظر سے گزری ، جس کے مطابق سن 2019ء میں دنیا میں83 ارب ڈالرز مالیت کی ہربل ادویات فروخت ہوئیں ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ 2030ء تک اس کا حجم 550 ارب ڈالرز تک ہو جائے گا ۔ ہربل ازم کے فروغ کا مطلب ہے کہ لوگ کیمیکلز کے ذریعے علاج سے واپسی اختیار کر رہے ہیں ۔ اس بات کو واضح انداز میں یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ فطری چیزوں سے علاج کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ اسی طرح دنیا میں آرگینک فوڈز ( بغیر کیمیائی کھادوں سے تیار ہونے والی خواک )کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے ۔

اس کا مطلب بھی وہی ہے کہ لوگ کیمیکلز کے اثرات سے پاک یعنی خالص قدرتی چیزوں کو اپنے کھانے پینے کا حصہ بنا رہے ہیں ۔ اب دنیا میں ایک الگ نظریہ طب تیزی سے فروغ پا رہا ہے کہ غذائوں کے ذریعے علاج کیا جائے۔ ’ علاج بالغذا ‘ نامی اس نظریہ کو حکما کے علاوہ ڈاکٹرز بھی اختیار کر رہے ہیں ۔ حقیقت تو یہی ہے کہ غذائوں کے ذریعے اپنا علاج کیا جائے تو اس سے بہتر اور مفید تدبیر کوئی ہو ہی نہیں سکتی ۔ بعض ماہرین کہا کرتے تھے کہ روزانہ ایک سیب کھائو ، ڈاکٹر سے ہمیشہ محفوظ رہو ۔ یہ علاج بالغذا ہی کی بات تھی ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ میوے اور پھل انسان کی قدرتی غذا ہیں ۔ ان میں ہر قسم کے مفید اجزا بکثرت موجود ہیں ۔ اگر انسان اعتدال کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس قدرتی غذا پر اکتفا کرے تو کوئی بیماری پاس نہیں آتی ۔

زیر نظر تین کتابوں کا موضوع بھی ’ علاج بالغذا ‘ ہی ہے ۔ ان میں سے دو کتابوں’ قرآن و حدیث کی روشنی میں پھلوں، سبزیوں اور میوہ جات سے علاج بالغذا ‘ اور ’ ہماری غذائیں ، ہمارا علاج ‘ کے مصنف ڈاکٹر علیم خاور ہیں ۔ جبکہ تیسری کتاب ’ پھل ، سبزیاں اور اناج بطور علاج ‘ کے مصنف عاصم خواجہ ہیں ۔ جناب علیم خاور اگرچہ خود بھی ڈاکٹر ہیں تاہم وہ چاہتے ہیں، لوگوں کو رہنمائی کا ایسا مواد فراہم کیا جائے کہ انھیں ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس جانا ہی نہ پڑے ۔ کیونکہ ان کے بقول ’ ڈاکٹر مریض کی شکل دیکھنے اور بے بسی میں ڈوبی آواز کو سننے کے تین، چار سو روپے فیس لے کر رسید لکھ دیتے ہیں ، پھر نزلہ ، زکام، کھانسی ، معمولی بخار جیسی عام اور سادہ علالت کے لئے ٹیکا ٹھونک دیتے ہیں ( اس خدمت کا معاوضہ الگ ہوتا ہے) پھر پیشاب ، پاخانہ ، جگر ، بلڈ ٹیسٹ اور ایکس رے کا نسخہ لکھ دیتے ہیں ۔ اس سے آگے کے حالات پھر مریض کی تقدیر اور ڈاکٹر صاحب کی نیت پر منحصر ہوتے ہیں۔‘‘

عمومی طور پر یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ ڈاکٹر اور حکیم مریضوں کی کھال اتارتے ہیں ۔ جو معالجین بھی ایسا کرتے ہیں، وہ مریض کے بے شعور ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ اگر لوگ اپنی صحت کے بارے میں مکمل شعور رکھیں تو ڈاکٹروں کو لوگوں کی کھال اتارنے کا موقع نہیں ملے گا ۔

مذکورہ بالا کتابیں صحت کا مکمل شعور فراہم کرتی ہیں۔ اس لئے انھیں ہرگھر میں ہونا چاہئے تاکہ گھر بھر کے لوگوں کو معلوم ہو کہ انھیں اپنے مزاج کے مطابق کون سی غذائیں کھانی چاہئیں اور کن غذائوں سے پرہیز کرنا چاہئے، اگر انھیں کوئی بیماری لاگو ہو چکی ہے تو کون سی غذا انھیں اس مرض سے نجات دلا سکتی ہے ۔ تینوں کتابوں میں مزید بیش بہا معلومات ہیں۔ ان کا وقتاً فوقتاً مطالعہ ہر فرد کو خود اپنا معالج بنا دے گا ۔ نتیجتاً وہ بھرپور انداز میں صحت مند زندگی گزار سکے گا ۔

یہ تینوں کتابیں عام کتابوں کی نسبت بڑے سائز میں شائع ہوئی ہیں، ہر کتاب کی قیمت 400 روپے ہے۔ یہ کتابیں ’ القریش پبلی کیشنز‘ ، اردو بازار لاہور ، ( رابطہ نمبر: 042-37652546) سے حاصل کیا جا سکتی ہیں ۔

( تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔