فکرِ آخرت

عمران احمد سلفی  جمعـء 19 مارچ 2021
’’اور جب کسی کی موت آجاتی ہے تو اﷲ اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس سے باخبر ہے۔‘‘
 فوٹو : فائل

’’اور جب کسی کی موت آجاتی ہے تو اﷲ اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس سے باخبر ہے۔‘‘ فوٹو : فائل

ہر انسان کی فطری خواہش اور تمنّا ہوتی ہے کہ وہ دنیاوی زندگی کے لیل و نہار پُرتعیش اور بڑھاپا سکون و اطمینان کے ساتھ گزارے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر وہ صبح سے شام اور شام سے رات کردیتا اور مسلسل جدوجہد کرتا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ آسائشیں حاصل کرسکے۔

یہ فطری تقاضا ہے اور اسلام نے آسودگی کے حصول کو ممنوع قرار نہیں دیا۔ البتہ محض دنیاوی مال و متاع جمع کرنے کی دُھن میں اُس زندگی کو بُھلانے سے منع کیا ہے جہاں ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اس دنیا کو دارالعمل قرار دیا گیا ہے، اﷲ کی تمام تر نعمتوں سے استفادہ کرتے ہوئے انسان اپنے خالق و مالک کی خالص عبادت و شکر ادا کرنے اور اعمال صالح کے ذریعے اسے راضی کرنے کی سعی و جہد کرتا رہے۔

فلسفۂ فکر آخرت انسان کے اندر موجود منفی جذبات کے مقابل مثبت سرگرمیوں پر آمادہ کرتا ہے اور انسان احکاماتِ الٰہیہ اور تعلیماتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں نفس امارہ کے منہ زور گھوڑے کو شریعت کی لگام دے پاتا ہے۔ فکر آخرت ہی انسان کو رب کی معرفت سے ہم کنار کرتی ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک ایک اﷲ رب العالمین ہے اور یقینا اک روز ہماری دنیاوی زندگی اختتام پذیر ہو کر رہے گی اور ہمیں دنیا میں کیے گئے اپنے تمام اعمال کا حساب کتاب دینا ہی ہوگا۔

جب اس کے اندر احساسات پیدا ہوجاتے ہیں تو پھر وہ اپنی زندگی کو اﷲ کی امانت تصور کرتا اور حاصل شدہ انواع و اقسام کی نعمتوں کو اپنا کسب کمال نہیں بل کہ اپنے رب کا فضل و کرم گردانتا ہے اور آخرت کی جواب دہی کا احساس ہی اسے مرد مومن بننے پر اُبھارتا ہے۔ چناں چہ وہ جہاں عقائد کی اصلاح کی کوششوں میں لگا رہتا ہے وہیں عبادات، معاملات و اخلاق وغیرہ میں رب کی مشیت اور پیغمبر اسلام ﷺ کی سنّتوں کی پیروی اختیار کرتا ہے۔

تاہم اس موقع پر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگر ایک شخص دنیاوی لحاظ سے بہترین معاملات و اخلاق کا حامل ہے وہ محض انسانیت کے ناتے نیک کام کرتا ہے تو ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی اجر و ثواب نہیں چوں کہ نیکی بھی اسی وقت قابل قبول ہے جب وہ رب کی رضا کے حصول کے جذبے سے کی گئی ہو۔ اسی طرح اگر ایک شخص اﷲ کی توحید کا بھی اقرار کرتا ہے لیکن خاتم الانبیاء نبی کریم ﷺ کی نبوت و رسالت کا انکاری ہو تو ایسے بندے کے لیے بھی آخرت میں کوئی اجر و ثواب نہیں، وہ گم راہ اور جہنّمی ہے۔

آخرت کی فکر اہل ایمان کو پہلے دلائی گئی بعد میں ہر نفس کو تنبیہ کی گئی تاکہ آخرت کی کام یابی کا خواہش مند پہلے ایمان کی دولت سے متصف ہوجائے۔ اسی لیے فرمایا: اے اہل ایمان! اﷲ سے ڈر جائو یعنی اﷲ سے ڈرنے والے اہل ایمان ہی ہوسکتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ ہر متنفس کو چاہیے کہ اپنا جائزہ لے کہ کل آنے والے دن یعنی قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے۔

چوں کہ اس دن اﷲ تعالیٰ ہر ایک کا محاسبہ کرے گا اور دنیاوی زندگی اور اس کے اندر کیے گئے تمام اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ نیکو کاروں کے لیے جنّت کی لازوال نعمتیں اور ہمیشہ کا عیش و آرام اور کافروں، گناہ گاروں اور من چاہی زندگی گزارنے والوں کے لیے جہنّم کا درد ناک عذاب مقدر ہوگا۔ اس لیے دنیا ہی میں آخرت کی تیاری کا حکم دیا گیا ہے اور جو یہاں بوئے گا کل وہی کاٹے گا۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد مقامات پر قیامت کی ہول ناکی اور اس کی ہیبت کا تذکرہ فرمایا ہے۔

ایک مقام پر روز قیامت کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے، مفہوم: ’’اور اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا اور نہ کسی کی سفارش منظور کی جائے گی اور نہ کسی سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے گا اور نہ لوگ (کسی اور طرح) مدد حاصل کرسکیں گے‘‘۔ (البقرہ)

امام کائنات ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’میں نے تمہیں قبروں پر جانے سے منع کیا تھا، اب تم ان کی زیارت کیا کرو تا کہ تمہیں آخرت یاد آئے۔‘‘ (حاکم مستدرک، بخاری)

آج ہم نے قبرستانوں کو جائے عبرت سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ آخرت کی یاد ٹوٹی پھوٹی کچی قبروں کو دیکھ کر ہی ہوسکتی ہے۔ عزیزان گرامی قیامت کا دن اس قدر ہول ناک ہے کہ الامان، قرآن مجید میں اس دن کا حال اس طرح کھول کر بیان کیا گیا۔

مفہوم: ’’اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی سے اور اپنی ماں سے اور باپ سے اور اپنی بیوی سے اور اپنی اولاد سے ان میں سے ہر شخص کی اس دن ایسی حالت ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بے پروا کردے گی کچھ چہرے اس دن چمک رہے ہوں گے ہنستے ہوں گے اور خوش و خرم ہوں گے اور کچھ چہروں پر گرد و غبار ہوگا اور ان پر سیاہی چھا جائے گی یہی لوگ کافر اور فاجر ہوں گے۔‘‘

غور فرمائیے! جن بہن بھائیوں، ماں باپ، بیوی بچوں اور عزیز رشتے داروں کے سکھ چین عیش و آرام کے لیے ہم دن رات ایک کردیتے اور حلال، حرام، جائز، ناجائز کا فرق بھلا دیتے ہیں کل قیامت والے دن وہ ہمارے کسی کام آنے والے نہیں بل کہ وہ سب ہمیں دیکھ کر منہ چھپا لیں گے کہ کہیں ہم سے کسی نیکی کا تقاضا نہ کردے اور واقعی وہ دن ایسا ہول ناک ہوگا کہ ہر ایک کو دوسرے سے بے پروا کردے گا اور ہر کسی کو اپنی فکر ہوگی کہ میرا کیا انجام ہونے والا ہے اور کسے معلوم ہے کہ اس کی زندگی کی کتنی ساعتیں باقی ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد کا مفہوم: ’’اور جب کسی کی موت آجاتی ہے تو اﷲ اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس سے باخبر ہے۔‘‘ (المنافقون)

دنیاوی زندگی کی جتنی بھی ساعتیں باقی ہیں انہیں ہم کارآمد بنانے اور رب کی رضا کے حصول کے لیے صَرف کرنے کی کوشش کریں تاکہ کل آنے والے دن کے عذاب سے بچ سکیں۔ اس کے لیے ایمان کامل اور سنّت محمدی ﷺ کے مطابق عبادات صدقات وغیرہ اور اخلاق و کردار اپنانے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔