دہلی کا پُرانا قلعہ

مرزا ظفر بیگ  اتوار 21 مارچ 2021
یہ قلعہ ڈھائی ہزار سال سے قائم اور آباد ہے۔ فوٹو: فائل

یہ قلعہ ڈھائی ہزار سال سے قائم اور آباد ہے۔ فوٹو: فائل

دہلی کا پُرانا قلعہ کسی دور میں شیر گڑھ اور شیر فورٹ بھی کہلا تا تھا، یہ قلعہ دہلی کے قدیم ترین اور شان دار قلعوں میں سے ایک ہے۔ یہ مقام کم و بیش 2,500 سال سے مسلسل قائم و آباد ہے۔ اس کے کھنڈرات و باقیات قبل از موریا دور سے بھی پہلے کے ہیں۔

موجودہ قلعے یا گڑھی کی تعمیر مغل بادشاہ نصیرالدین ہمایوں کے دور میں شروع ہوئی تھی اور یہ تعمیراتی کام شیر شاہ سوری کے دور تک جاری رہا تھا۔ اس مقام کو ’’اندر پرستھا‘‘ بھی کہا جاتا ہے جو مہابھارت کے قدیم ترین پانڈؤں کی سلطنت کا تاریخی دارالحکومت تھا۔

واضح رہے کہ دہلی کا یہ قدیم ترین اور تاریخی پرانا قلعہ انڈیا کے مہنگے ترین اور بیش قیمت نمائش گراؤنڈ ’’پرگتی میدان‘‘ کے قریب واقع ہے جسے ’’دھیان چند اسٹیڈیم‘‘ سے ’’متھرا روڈ‘‘ کے ذریعے الگ کردیا گیا ہے۔

٭تاریخ:

پری اسلامک اوریجن اور اندر پرستھا تھیوری:

اس کی کھدائی اور ازسرنو دریافت کا زمانہ تیسری صدی قبل مسیح سے ملتا ہے جو pre-Mauryanدور تھا۔ اس کی کھدائی اور از سرنو دریافت کے دو ابتدائی دور یہ تھے::1954–55 اور 1969–72۔ یہ کام اس دور میں B. B. Lal نے کروائے تھے جو اس زمانے میں Archaeological Survey of India (ASI) کے ڈائریکٹر تھے اور انہی نے اس مٹی کے ٹیلے کے نیچے سے Painted Grey Ware culture (PGW) کے آثار دریافت کروائے تھے، اس وقت B. B. Lal ایک بہت بڑے اور اہم مشن پر تھے اور مختلف مقامات پر کھدائیاں کرواکے ان قدیم ترین اور اہم ترین مقامات کی دریافت میں لگے ہوئے تھے جن کا تذکرہ مہا بھارت کی تحریروں میں آیا تھا۔ایسے تمام تذکرے اور آثار متذکرہ بالا تمام دریافتوں کے اہم اور لازمی فیچر بن چکے تھے۔

PGW کی بنیاد، آثار اور شواہد کو دیکھتے ہوئے لال نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہی وہ مقام ہے جہاں ماضی بعید میں کبھی پانڈوں کی اندر پرستھا کی سلطنت ہوا کرتی تھی جس کا زمانہ کم و بیش 900 BCE تھا اور یہی دور جنگ کورکشیتر کا دور تھا۔

بعد میں کھدائی کے کام کی نگرانی Dr. Vasant Kumar Swarnkarکے پاس آگئی جنہوں نے یہ کنفرم کیا کہ پرانے قلعے میں موجود مسلسل آثار اور شواہد پری مورین دور سے لے کر برطانوی دور تک کے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انھیں PGWکے کوئی آثار نہیں ملے کہ جن سے اس بات کی تصدیق ہوتی کہ یہاں کسی دور میں پانڈوز کا کلچر تھا۔  Alexander Cunninghamنے یہ بھی کہا کہ یہ قلعہ اندر پرستھا کی جگہ ہے، مگر ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ  پرانے قلعے کی موجودہ تعمیر مسلمانوں نے کی تھی۔

٭دین پناہ:

پرانے قلعے کی اصلیت ’’دین پناہ‘‘ کی دیواروں میں ہے، جو دہلی کا نیا شہر تھا اور اس کی تعمیر مغل بادشاہ ہمایوں نے قدیم ترین ’’اندر پرستھا‘‘ کے قدیم کھنڈرات پر کروائی تھی۔ اس بات کی تصدیق ابوالفضل نے بھی کی ہے۔

سوری سلطنت کے بانی شیر شاہ سوری نے مغل بادشاہ ہمایوں کو شکست فاش دی اور اور پھر اس پرانے قلعے میں متعدد تبدیلیاں بھی کیں، اس نے اس قلعے کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں۔ شیر شاہ سوری نے ایک اور قلعہ بھی تعمیر کرایا تھا جس کا نام ’’شیر گڑھ‘‘ تھا جہاں اس کا گورنر رہتا تھا، بہرحال یہ ہمایوں کا منصوبہ تھا جو اس کے شاہی قلعے کی ایک توسیع تھی۔ خیال ہے کہ شیر شاہ سوری کے انتقال کے بعد بھی پرانے قلعے کا تعمیراتی کام جاری رہا اور نئی تعمیرات سے پرانے قلعے کی شان و شوکت میں اضافہ ہوا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پرانے قلعے اور اس کے شان دار قرب و جوار کی وجہ سے دہلی میں چھٹے شہر کا اضافہ ہوگیا تھا۔

٭برطانوی دور:

Edwin Lutyens نے 1920کی دہائی میںبرٹش انڈیا کے نئے دارالحکومت نئی دہلی کا ڈیزائن تیار کیا تھا، اس نے راج پتھ کے ذریعے پرانے قلعے کا راستہ بنایا تھا۔ اگست1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت پرانے قلعے کا راستہ ہمایوں کے مقبرے تک جاتا تھا جسے بعد میں الگ کردیا گیا تھا۔ اس دور میں مقبرہ ہمایوں اور اطراف کا علاقہ پاکستان جانے والے مسلم مہاجرین کے لیے ریفیوجی کیمپ بن چکے تھے۔ پرانے قلعے میں ہزاروں لاکھوں مسلم مہاجرین مقیم تھے، پرانا قلعہ 1948 کے اوائل تک اس حیثیت سے برقرار رہا۔

٭دوسری جنگ عظیم:

Asia-Pacific War (1941-1945) کے دوران 2000  سے زیادہ جاپانی سویلینز برٹش انڈیا میں آگئے جن میں عورتیں، مرد اور بچے بھی شامل تھے۔ بعد میں اسی سال جاپان اور اتحادیوں میں جنگ چھڑ گئی اور اس طرح دہلی کا پرانا قلعہ اور اس میں مقیم جاپانیوں نے بھی اپنے فرائض انجام دیے۔ بعد میں دہلی کے پرانے قلعے کو تھیٹر کے طور بھی استعمال کیا گیا اور وہاں ڈرامے اور فلمیں دکھائی گئیں۔

٭قلعے کا ڈھانچا:

پرانے قلعے کی فصیلیں 18 میٹر بلند ہیں۔ قلعے کے تین محرابی بلند دروازے ہیں: بڑا دروازہ یا مغربی دروازہ، جنوبی دروازہ، اور آخری دروازہ ‘Talaqi Gate’ یا ممنوعہ دروازہ۔ تمام دروازے دو منزلہ ہیں اور چونے کے پتھر سے تعمیر کیے گئے ہیں۔

بیچ بیچ میں پہرے داروں کے لیے برجیاں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ متعدد خوب صورت اور آرائشی جھروکے بھی بنائے گئے ہیں۔ پرانا قلعہ مغلئی طرزتعمیر اور راجستھانی طرزتعمیر کا حسین امتزاج ہے۔ اس مخلوط طرزتعمیر نے اسے ایک انوکھا انداز تعمیر دے دیا ہے جو بہت ہی منفرد اور دل کش لگتا ہے۔ پرانے قلعے کی ’’قلعہ کہنہ مسجد ‘‘ اور ’’شیر منڈل‘‘ بھی بے مثال ہیں، دونوں شیر شاہ سوری نے تعمیر کروائی تھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔