وحشت ناک ڈرامے کا کردار

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 21 مارچ 2021
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

گوئٹے لکھتا ہے کہ ’’ڈراما اور ناول دونوںمیں ہمیں انسانی فطرت اور انسانی عمل دکھائی دیتے ہیں، اس قسم کے افسانوی ادب (Fiction) میں صرف یہ ہی ظاہری فرق ہے کہ ایک میں کرداروں کو بات چیت کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور دوسرے میں ان کی سوانح اور تاریخ بیان کی جاتی ہے۔

بدقسمتی سے بہت سے ڈرامے ناول ہوتے ہیں جو مکالموں سے چلتے ہیں اور ایک ایسا ڈرامہ لکھنا بھی ناممکن نہیں ہے جو خطوں کے ذریعے ترتیب دیا گیا ہو لیکن ناول میں ’’جذبات‘‘ اور ’’واقعات‘‘ پیش کیے جاتے ہیں۔ ڈراما میں ’’کردار‘‘ اور ’’کارنامے‘‘ پیش کیے جاتے ہیں ناول آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہے اور ہیرو کے جذبات، کسی نہ کسی ذریعے سے مکمل چیز کے کھل کر سامنے آنے اور اختتام تک پہنچنے کے رحجان کو روکتے رہتے ہیں بر خلاف اس کے ڈرامے میں تیز رفتاری ہوتی ہے اور ہیرو کے کردار کا انجام تک پہنچنا لازمی ہوتا ہے ڈراما رکتا نہیں ہے بلکہ اسے روکا جاتا ہے۔

ناول کا ہیرو دکھ اٹھاتا اور مصیبتیں جھیلتا ہے اور اسے کم از کم بہت زیادہ عملی نہیں ہونا چاہیے ڈرامائی ہیرو سے ہم عمل، سر گرمی اور کارناموں کی توقع رکھتے ہیں گرنڈ ایسن، کلیر یسا، پمیلا وکار اوف ویک فیلڈ، ٹوم جونس، اگر دکھ جھیلتے ہوئے انسان نہیں ہیں تو وہ سست رفتار اور پیچھے کی طرف جاتے ہوئے انسان ضرور ہیں اور سارے واقعات کسی نہ کسی طرح ان کے جذبات سے ابھرتے اور پیدا ہوتے ہیں، ڈرامے میں ہیرو سوائے اپنے کسی کو ابھرنے نہیں دیتا، وہ ہر چیز پر حاوی ہوتا ہے اور اپنے راستے کے تمام رخنوں کو دور کرتا ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ پھر خود ان کے نیچے دب کر رہ جاتا ہے۔‘‘

چونکہ ڈراما اور ناول دونوں میں ہمیں انسانی فطرت اور انسانی عمل دکھائی دیتے ہیں اس لیے کامیاب، خوشحال، ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکا، برطانیہ، روس، چین، جاپان، سویڈن، جرمنی، ناروے، فن لینڈ وغیرہ ناول کی طرح ہیں جہاں تمام کردار زندگی کی تمام لذتوں کا مزا لیتے، تمام رعنائیوں سے لطف اندوز ہوتے، صحت مند، خوشحال، کامیاب تمام دکھوں وغموں، فکروں سے بے نیاز زندگی کے ہر ہر پل میں جی رہے ہوتے ہیں جن کے سکھ دیکھ کر دوسرے اپنے غم و دکھ بھول جاتے ہیں، جہاں تمام کردار ایک ساتھ چل رہے ہوتے ہیں جس میں ہیرو تمام دکھ اٹھاتے ہیں اور مصیبتیں جھیلتے رہتے ہیں اور اپنے کردار کے ذریعے دوسرے کرداروں کے لیے آسانیاں پیدا کر رہے ہوتے ہیں جن میں ہیرو کھوکھلے نہیں ہوتے ہیں نہ ہی ان کے جذبات کھوکھلے ہوتے ہیں اور نہ ہی واقعات کا تسلسل کھوکھلا ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی ذات ان کا محور ہوتی ہے۔

ان کے ہر قدم میں عملی سر گرمی اور کارنامے نمایاں نظر آرہے ہوتے ہیں، اس لیے پڑھنے اور دیکھنے والا آسانی سے پہچان لیتا ہے کہ یہ ناول ہے جب کہ غیر مستحکم، برباد، بدحال ممالک جیسے ایتھو پیا، افغانستان، شام، پاکستان، سو ڈان، یمن وغیرہ ڈرامے کی طرح ہیں جس میں ہیرو سوائے اپنے کسی کو ابھرنے نہیں دے رہا ہے وہ ہر چیز پر حاوی ہے۔

ملک میں صرف وہ ہی طاقتور اور بااختیار ہے باقی سب بدحال، برباد اور بے اختیار ہیں، پھر ہوتا یہ ہے کہ ایک دن وہ اپنی ہی طاقت اور اختیار کے نیچے آکر دب جاتا ہے اور ایسا دبتا ہے کہ پھر دوبارہ نکل ہی نہیں پاتا، اسی دوران کوئی دوسرا ہیرو آکر اس کی جگہ پر بیٹھ جاتا ہے اور وہ ہی سب کچھ کرنے لگتا ہے جو ملبے میں دبا سابق ہیرو کر رہا ہوتا تھا، اب اس جگہ قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈرامے میں آپ اور میرے جیسے انسان کن حالوں میں پائے جاتے ہیں۔

کوئی فرد جس کا گہرا اثر دوسروں پہ اداروں پہ معاشرے پر رہا ہو جس نے اچھائی یا برائی کے لیے واقعی ایک فرق پیدا کیا ہوا، ن سب میں تین مشترکہ خوبیاں ’’بصیرت، نظم و ضبط اورجذبہ‘‘ پائی جاتی ہے یہ ہی تینوں خوبیاں دنیا پر ابتداء سے حکومت کرتی آئی ہیں یہ ایسی لیڈر شپ کی نمایندہ ہیں جو واقعتا موثر ہوتی ہیں۔ آئن اسٹائن نے کہا تھا ’’بصیرت مستقبل ہے یہ غیر محدود اور لامتناعی ہے بصیرت تاریخ سے زیادہ عظیم ہے لائو لشکر سے زیادہ عظیم ہے۔

ماضی کے جذباتی داغوں سے زیادہ عظیم ہے جب کسی نے آئن اسٹائن سے پوچھا ’’اگر اسے خداسے کوئی ایک سوال پو چھنے کا موقع ملے تو وہ کیا کہے گا‘‘ آئن اسٹائن نے جواب دیا ’’میں پوچھوں گا کائنا ت کا آغاز کیسے ہوا؟ کیونکہ اس کے بعد ہر چیز محض حساب ہے‘‘ لیکن پھر ایک لمحے سو چنے کے بعد اس نے اپنا ذہن بدل لیا اور کہا ’’نہیں میں پوچھوں گا کائنات کیوں تخلیق کی گئی؟ کیونکہ اس کے بعد ہی مجھے اپنی زندگی کے معنی سمجھ میں آئیں گے‘‘ یاد رہے سب سے اہم بصیرت اپنی ذات کے بارے میں فہم پیدا کرنا ہے۔

اپنی قسمت کے بارے میں فہم پیدا کرنا ہے نظم و ضبط بھی اتنا ہی اہم ہے جتنی بصیرت ، نظم و ضبط کسی فرد یا نصب العین کا پیرو کار بننے سے آتا ہے عظیم ماہر تعلیم ہوریس مان نے ایک دفعہ کہا تھا ’’ایسے لوگ مسرت کے بارے میں لاحاصل گفتگو کرتے ہیں جو کبھی کسی اصول کی اطاعت میں اپنی کوئی خواہش نہیں دبا سکتے جس نے کبھی مستقبل کی بہتری کے لیے اپنے حال کو قربان نہیں کیا یااپنی ذات کو اجتماع کے مفاد میں پس پشت نہیں ڈالا وہ مسرت کی بات ایسے ہی کرتا ہے جیسے اندھا رنگوں کی بات کرتا ہے‘‘ جذبہ، بصیرت اور نظم و ضبط کے قلب میں پایا جانے والا ایندھن ہے یہ آپ کو اس وقت بھی بر سر عمل رکھتا ہے جب باقی کچھ خاموش ہو جاتا ہے جب ایک آدمی سے اس کے ڈاکٹر نے پوچھا کہ ’’وہ ہفتے میں کتنے گھنٹے کام کرتا ہے‘‘ تواس کا جواب تھا ’’مجھے نہیں معلوم میں نے کبھی حساب نہیں کیا‘‘ اس نے پلٹ کر ڈاکٹر سے سوال کر دیا ’’آپ ایک ہفتے میں کتنے گھنٹے سانس لیتے ہیں؟‘‘

دراصل جب زندگی، کام، کھیل اور محبت ایک ہی چیز کے گرد گھومتے ہیں تو آپ جذبے میں ہوتے ہیں تب باقی باتوں کا حساب و شمار ثانوی چیز ہوتا ہے۔ اگر اب بھی ہم اپنے آپ کو نہیں سدھاریں گے اور اپنے اندر یہ ہی تینوں خوبیاں جو دنیا میں حکومت کرتی آرہی ہیں پیدا نہیں کریں گے اور سارے ملکی معاملات اسی طرح سے چلاتے رہیں گے تو پھر وہ دن اب دور نہیں ہے کہ ہم سب ایک انتہائی دہشتناک اور وحشتناک ڈرامے کے کردار بن چکے ہونگے۔ اس ڈرامے کے خوفناک و دہشتناک کردار جو ہر وقت اپنے آپ سے لرز اور دہل رہے ہونگے اور اپنے آپ سے ڈر رہے ہونگے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔