لارج اسکیل مینوفیکچرنگ شعبے کی پیداوار میں اضافہ

ایم آئی خلیل  اتوار 21 مارچ 2021

ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 7 ماہ کے دوران پاکستان میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 8 فی صد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق یہ اضافہ لارج اسکیل مینو فیکچرنگ کے کئی شعبوں میں ہوا جب کہ اس دوران چند شعبے ایسے بھی رہے جنھوں نے منفی گروتھ ظاہر کی۔ جس کی تفصیل ذیل میں دی جائے گی۔

بڑی صنعتوں کا سیکٹر ایسا ہے کہ جو پاکستان کی برآمدات میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافے سے معاشی ترقی کا ہدف حاصل کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ملک میں کوئی بھی قابل ذکر بڑی صنعت نہیں تھی۔ ملک بھر میں چند چھوٹے چھوٹے کارخانے تھے۔ انگریزوں نے اپنی ایک پالیسی کے تحت پاکستان کے موجودہ علاقوں کو صنعتوں سے دور رکھا تھا۔ زیادہ تر کارخانے اور ملیں تھیں جو دہلی، یوپی کے مختلف شہروں میں اور خصوصاً کلکتہ میں قائم کیے گئے تھے۔

سابقہ مشرقی پاکستان کا علاقہ جوکہ جوٹ کی پیداوار میں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے وہاں سے جوٹ لا کر کلکتہ کی فیکٹریوں میں استعمال کرکے ان سے پیداوار حاصل کی جاتی تھی۔ البتہ قیام پاکستان کے کئی سالوں کے بعد سابقہ مشرقی پاکستان میں ایک بہت بڑی جوٹ مل قائم کی گئی تھی جہاں ہزاروں افراد کام کرتے تھے۔ اسی طرح پاکستان کے مختلف شہروں خصوصاً فیصل آباد اور کراچی میں ٹیکسٹائل ملیں لگائی گئیں اور پاکستان کی سوتی صنعت کو خاطر خواہ ترقی حاصل ہوئی۔

اس وقت پاکستان کی برآمدات میں ٹیکسٹائل کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ بلکہ 2020 میں کورونا وبا کے باعث جب دنیا بھر کی معیشت اور صنعتیں بند تھیں۔ لیکن عالمی سطح پر ٹیکسٹائل مصنوعات کی ضرورت تو تھی لہٰذا اس پورے عرصے کے دوران اگر پاکستان کی برآمدات نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے تو اس کی اہم وجہ ٹیکسٹائل مصنوعات کے برآمدی آرڈرز میں اضافہ تھا۔

اگر ملکی معاشی ترقی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ اس ترقی میں صنعتی پیداوار کا انتہائی اہم ترین رول ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہی پاکستان میں صنعتوں کو ترقی دینے کے لیے نئی صنعتوں کے قیام کے لیے کوششوں کا آغازکردیا گیا تھا۔ کچھ عرصے بعد معاشی منصوبوں کی ابتدا کرتے ہوئے پہلا پنج سالہ منصوبہ ترتیب دیا گیا اس کے خاتمے پر دوسرا پنج سالہ منصوبہ نافذ العمل ہوا۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ملکی معاشی ترقی میں اس منصوبے نے انتہائی اہم کردار ادا کیا اور دنیا کے بہت سے ملکوں کے لیے یہ منصوبہ ماڈل کی حیثیت اختیار کر گیا۔

1960 کے عشرے میں پاکستان بھر میں کارخانوں، ملوں، فیکٹریوں، صنعتوں کا جال بچھ گیا۔ اس سلسلے میں بہت زیادہ کوشش پی آئی ڈی سی کی رہی۔ اس کے ساتھ ہی بتدریج ملک بھر میں درآمدات کا بدل تیار کیا جانے لگا۔ مہنگی ادویات بھی ملک میں تیار کی جانے لگیں، بے شمار ایسی اشیا جوکہ بیرون ملک سے درآمد کی جاتی تھیں اب ملک میں تیار ہونے لگیں۔ اس طرح ملک بھر میں چھوٹی صنعتوں کے ساتھ بڑی بڑی صنعتوں نے بھرپور پیداوار کا آغاز کردیا۔ لیکن 1972 میں بڑی صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی نے ملک میں صنعتوں کی شرح افزائش کو سخت ترین نقصان پہنچایا۔ جس کے اثرات آج تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔

گزشتہ دو عشروں سے پاکستان کی بڑی صنعتوں کی شرح ترقی عروج و زوال کا شکار رہی ہے۔ خاص طور پر موجودہ صدی کے آغاز کے ساتھ ملک بھر میں اول بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا آغاز ہوا پھر ساتھ ہی لوڈ شیڈنگ کے دورانیے بھی بڑھتے چلے گئے۔ گیس کی قیمت بھی بڑھائی جاتی رہی اور نائن الیون کے بعد سے ملک بھر میں دھماکوں کا سلسلہ ۔ پھر کراچی میں حالات خراب ہونے اور دیگر بہت سی باتوں کے باعث سب سے زیادہ بڑی صنعتوں کا شعبہ متاثر ہوا۔ حتیٰ کہ کئی صنعتیں خصوصاً ٹیکسٹائل کے صنعتکاروں نے بیرون ملک خصوصاً بنگلہ دیش میں اپنے صنعتی یونٹس قائم کرلیے۔

ٹیکسٹائل کا شعبہ بڑی صنعتوں میں انتہائی اہم ترین شعبہ ہے ملک کی بڑی صنعتوں کی پیداوار میں جس کا حصہ 20.91 فی صد بنتا ہے، بڑی صنعتوں میں جو شعبے شامل ہیں ان میں مشروبات، تمباکو کا حصہ 12.37 فی صد، کوک اور پٹرولیم مصنوعات 5.5 فی صد، فولاد اور اسٹیل کی مصنوعات 5.4 فی صد، غیر دھاتی معدنی مصنوعات 5.38 فی صد، آٹو موبائل4.61فی صد، ادویات سازی 3.6فی صد، کیمیکلز 1.7 فی صد پر مشتمل ہے۔

رواں مالی سال کے جنوری تک بڑی صنعتوں کے سیکٹر کے چند شعبے ایسے ہیں جن کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ جن میں ٹیکسٹائل تقریباً 1فی صد، فوڈ اور بیوریج ساڑھے تین فی صد، کوک اور پٹرولیم نصف فی صد کے قریب، فارما سیوٹیکلز تقریباً ایک فی صد، غیر دھاتی معدنی مصنوعات 2.70 فی صد، آٹو موبائل شعبے کی پیداوار میں 0.64فی صد اضافہ ہوا اور کھاد کی پیداوار میں بھی تقریباً نصف فی صد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ البتہ کچھ شعبے ایسے ہیں جن کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے ان میں آئرن، اسٹیل پراڈکٹس، الیکٹرونکس آئٹمز، لیدرکی مصنوعات، انجینئرنگ کی مصنوعات وغیرہ شامل ہیں۔

البتہ یہ واضح ہے کہ گزشتہ مالی سال کی نسبت لارج اسکیل مصنوعات کی پیداوار میں بہتری آئی ہے۔ کیونکہ گزشتہ سال کی اقتصادی سروے رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ جولائی تا مارچ 2020 ان 9 ماہ کے دوران سوائے کھاد کے اکثر شعبوں کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی تھی جن میں ٹیکسٹائل کی صنعت، خوراک، مشروبات، فولاد کی مینوفیکچرنگ منفی زون میں رہی تھی۔ ان سب باتوں نے معاشی ترقی کو متاثر کیا۔ البتہ چینی کی پیداوار میں 7 فی صد اضافہ ہوا تھا، اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ نومبر 2019 میں ہی بروقت کرشنگ کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ اب اس طرح کی باتیں سالہا سال سے چلی آ رہی ہیں۔

ہوتا یہ ہے کہ بڑی بڑی ٹرالیوں، ٹرکوں اور ٹرالوں میں گنے کی بہت بڑی مقدار لاد کر کاشتکار گنا لے کر حاضر ہو جاتا ہے جہاں اکثر اوقات گنے کو تولنے میں کئی دن ضایع ہو جاتے ہیں پھر فیکٹری گیٹ کے باہر وہ انتظار میں رہتے ہیں جس کے باعث گنے کی تازگی ختم۔ اس کے رس میں کمی وغیرہ شامل ہو کر بالآخر چینی کی پیداوار کم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد ان کاشتکاروں، غریبوں، ہاریوں کو ادائیگی کا معاملہ آتا ہے جس میں ان کو کم ریٹ دینا، پھر کچھ نہ کچھ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے اس رقم میں بھی کمی کرنا اور طویل انتظار اور دیگر کئی عوامل کے باعث آیندہ کے لیے گنے کی کاشت سے کسان توبہ کرلیتے ہیں۔ اکثر فصلوں میں یہی صورتحال ہے۔ حکومت اب مختلف شعبوں میں اصلاح کرنا چاہتی ہے تو اس طرف بھی توجہ دے۔

ان تمام باتوں کے باوجود اس وقت چونکہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کے شعبے کی بات ہو رہی ہے۔ موجودہ صورت حال اس لیے بہتر ہے کہ دنیا بھر کی معیشتیں اور صنعتیں لاک ڈاؤن سے شدید متاثر تھیں۔ لیکن پاکستان کی بڑی صنعتوں کی پیداوار دیکھی جائے تو ان میں اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث ملکی برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے، لیکن ایک بات جو نوٹ کی گئی ہے وہ روزگار کے مواقعوں کا نہ بڑھنا ہے۔

اگر اس قسم کی حکمت عملی اختیار کرلی جائے کہ ملک میں صنعتوں کی بحالی کا عمل بھی فروغ پائے اور ساتھ ہی روزگار کی فراہمی بھی بڑھ جائے، کورونا کا بہانہ بنا کر صنعتکار اپنے مزدوروں، ہنرمندوں، حتیٰ کہ کلریکل اسٹاف کی چھٹی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ البتہ سیکیورٹی اسٹاف کی ضرورت کے بورڈ دکھائی دیتے ہیںاور ان کی تنخواہ اتنی کم ہے کہ ان غریبوں، ضرورت مندوں، لاچار افراد کو روزگار فراہم کرنے والے مختلف طریقوں سے ان کی تنخواہ کا بڑا حصہ خود وصول کرلیتے ہیں۔ کیا حکومت کچھ کرسکتی ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔