ہم بھی گئے ویکسین لگوانے…

شیریں حیدر  اتوار 21 مارچ 2021
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ہم گئے تو ویکسین لگوانے مگر ویکسین کی باری، ابھی میری نہیں بلکہ صاحب کی آئی تھی۔ جس دن سے کہا گیا تھا کہ ساٹھ سال سے زائد عمر کے لوگ کورونا ویکسین کے لیے اپنی رجسٹریشن کروا لیں، صاحب نے اسی روز حکومت کا کہنا مان کر اپنی رجسٹریشن کروا لی تھی۔ طریقۂ کار بھی تو آسان سا ہے، 1166 پر اپنا شناختی کارڈ نمبر بھجوا دیں۔

پیغام بھجواتے ہی انھوں نے جواب بھیج دیا کہ آپ کو ویکسی نیشن کے لیے رجسٹر کر لیا گیا ہے، جونہی آپ کی باری آئے گی، آپ کو اطلاع کر دی جائے گی۔ ہم تو یہی سمجھے تھے کہ بائیس کروڑ سے زائد کی آبادی میں چند لاکھ کی تعداد میں ویکسین پہنچی ہے تو نمبر آتے آتے چند ماہ تو لگ ہی جائیں گے۔ اس سکون کے سمندر میں اچانک کنکری گری اور چند دن قبل پیغام موصول ہوا کہ بارہ کہو کے دیہی صحت مرکز میں جا کر آپ اٹھارہ مارچ کو کسی بھی وقت ویکسین لگوا سکتے ہیں۔

اب اسے اتفاق کہئے یا کچھ اور کہ عین ایک دن قبل صاحب کی طبیعت کچھ نا ساز ہو گئی، درد کے لیے لی جانیوالی ، کسی دوا کے ری ایکشن کے طور پر انتشار خون بڑھ گیا۔ پہلے علاقے کے قریبی کلینک اور پھر وہاں سے انتشار خون کی دوا کے حصول کے بعد انھیں اے ایف آئی سی لے جایا گیا۔ بفضل خدا، تمام ٹیسٹ کلیئر تھے، ڈاکٹروں نے دواؤں کی جانچ کی اور بتایا کہ فلاں دوا سے ایسا ہو سکتا ہے اور ان کے کیس میں ہوا ہے سو اسے فوری طور پر بند کر دیا ۔ میں تو گھر پر ہی تھی، میرے بڑے بھائی ہی صاحب کو اے ایف آئی سی لے کر گئے تھے۔

اسی پریشانی میں، میں سوچتی رہی کہ کہیں انھوں نے کل لگوائی جانیوالی ویکسین کی اتنی ٹینشن تو نہیں لے لی کہ انتشار خون اچانک اتنا بڑھ گیا۔ اس سوچ کے آتے ہی میں نے دل میں تہیہ کیا کہ گزشتہ روز انھیں تنہا نہیں بھیجنا… یوں بھی جس جس طرح شنید ہے کہ کسی کو ویکسین کے بعد فلاں رد عمل ہوا اور کسی کو فلاں ۔ اس بارے میں کوئی چانس نہیں لیا جا سکتا اور یوں بھی اسلام آباد ڈیفنس کی فیز ٹو سے، بارہ کہو کی تیئس کلومیٹر کی مسافت، ویکسی نیشن کے بعد، کہیں کوئی قے، متلی یا چکر وغیرہ آئیں تو ممکن ہے کہ واپس پر گاڑی نہ چلا سکیں۔ ’’ میں بھی کل آپ کے ساتھ جاؤں گی! ‘‘ میںنے اطلاع دینے کے انداز میں اجازت چاہی۔

’’ آپ کیا کریں گی جا کر؟؟ ‘‘ حسب توقع سوال آیا۔

’’ یونہی… دونوں ساتھ ہوں گے تو آؤٹنگ کی آؤٹنگ، واپسی پر میں ایف ٹین سے اپنے درزی سے کپڑے بھی لے آؤں گی اور پھر میں نے گھر پر اکیلے ہی ہونا ہے، بہتر ہے کہ آپ کے ساتھ ہی چلی جاؤں!‘‘ میںنے حتی الامکان کوشش کی تھی کہ کہیں بھول چوک میں منہ سے ایسی بات نہ نکل جائے کہ میں آپ کی طبیعت خراب ہو جانے کے اندیشے کے باعث آپ کے ساتھ جانا چاہتی ہوں، ان کی بہادری اور انا کو چوٹ لگتی۔ صاحب تو جلد سو گئے کہ ہمیں صبح جلدی نکلنا اور وقت پر واپس بھی آنا تھا ، ظاہر ہے کہ کوروناکی ویکسین لگوانے کا پہلا پہلا تجربہ، جانے کتنا وقت لگ جائے۔ ہلکی سی اونگھ آنے لگی تو یاد آیا کہ ڈرائیونگ لائسنس جانے کہاں رکھا ہو گا، سویرے وقت نہیں ہو گا، بہتر ہے کہ تلاش کر کے ابھی اپنے پرس میں رکھ لوں ۔ واپس پر گاڑی چلانا ہو گی اور کہیں چیکنگ ہو گئی تو اور مسئلہ نہ بن جائے ۔ خدا خدا کر کے لائسنس ملا اور اسے پرس میں رکھ لیا۔ چپکے سے لیٹی اور سونے کی کوشش کرنے لگی، پھریاد آیا کہ انتظار کرنا ہو گا، جانے کتنے گھنٹے، وہ وقت کیسے گزرے گا۔ اٹھ کر آہستگی سے کمرے سے نکلی اور اسٹڈی روم سے دو کتابیں نکال کر لے آئی۔ کمرے سے باہر ہی رکھ دیں کہ کمرے میں بار بار جانے سے شور ہو گا کیونکہ کتابیں لاتے ہوئے میرے ذہن میں آیا کہ ہم ہلکا سا ناشتہ کرتے ہیں، اتنے ’’ طویل ‘‘ سفر کے بعد بھوک لگ سکتی ہے، کچن میں الماریاں کھنگال کر چپس، ریوڑیاں، مونگ پھلیاں نکال کر ایک لفافے میں ڈالیں اور وہ لفافہ بھی کتابوں کے پاس ہی رکھ دیا۔ ایک اور لفافے میں چار کیلے اور چار مالٹے رکھے، ساتھ چھری اور پلیٹ۔ لفافے رکھتے ہوئے خیال آیا کہ کہیں واپسی پر صاحب کو الٹی وغیرہ آ گئی تو!!

چند خالی لفافے اور ایک چھوٹا تولیہ بھی سامان کے ساتھ رکھ لیا۔ متلی ہوئی تو اس کا علاج تو موجود ہو، دو تین لیموں اور چند دانے املی کے بھی رکھ لیے ۔ سارا سامان تیار کر کے واپس غسل خانے سے جا کر ائیر فریشنر بھی نکال لائی کہ الٹی کے باعث گاڑی میں کہیں بو نہ ہوجائے، سردی کا موسم ہے ، گاڑی کے شیشے بھی نہیں کھولے جا سکتے ۔ اسی خاموشی کے ساتھ اپنی سائیڈ ٹیبل سے اپنا چارجر، پاور بینک، انٹر نیٹ کیdevice اور ڈائری بھی رکھ لی کہ وقت ہو گا تو ڈائری بھی لکھ لوں گی… ڈائری سے کہیں بہتر نہیں کہ میں اپنا کالم لکھ لوں ۔ یہ سوچ کر اپنا لیپ ٹاپ تیار کیا۔ جانے کتنی دھوپ میں اور کتنا وقت کھڑا ہونا پڑے، اپنے اور صاحب کے لیے دو پی کیپ بھی رکھ لیں اور اپنا دھوپ کا چشمہ بھی ۔ اس سے تو کمرے میںشور پیدا ہونا ہی تھا۔ ’’ کیا ہوا ہے، کیا کر رہی ہیں، طبیعت وغیرہ تو خراب نہیں ؟‘‘ صاحب نے ڈسٹرب ہونے پر، نیند سے بھری آواز میں سوال کیا ۔’’ میں ٹھیک ہوں، نیند نہیں آ رہی تھی تو یونہی… ‘‘

’’ یونہی کیا؟ آدھی رات کوچوہوں کی طرح کھڑ کھڑ لگا رکھی ہے، صبح سویرے اٹھنا ہے، بہتر ہے کہ سو جائیں آپ! ‘‘

’’ بس سونے ہی لگی ہوں ! ‘‘ میںنے دبے سے لہجے میں جواب دیا۔ ایک تو مردوں کی آدھی رات اس وقت ہو جاتی ہے جب عورت بستر سے کمر بھی نہیں ٹکا پاتی… اور یہ چوہے کیا صرف آدھی رات کو کھڑ کھڑ کرتے ہیں، باقی اوقات میں کیاکوئی اور طرح کی آوازیں نکالتے ہیں ؟

سویرے صاحب شاور لے رہے تھے تو میں نے اپنا لیپ ٹاپ، ڈائری، کتابیں ، تولیا، خالی لفافے وغیرہ جلدی سے گاڑی کی ڈگی میں رکھ دیے کہ انھیں میرے ’’ منظم اور ہر گھڑی تیار ‘‘ والے عزائم کا علم نہ ہو۔ باقی چیزوں کو میں نے ایک تھیلے میں ٹھونس ٹھانس کر بھرا اور چلنے کو تیار۔

’’ یہ کیا زنبیل اٹھا رکھی ہے آپ نے؟ ‘‘ صاحب نے حیرت سے دیکھا۔

’’ یونہی، اپنی کچھ چھوٹی موٹی چیزیں ہیں، وہاں جانے کتنا انتظار کرنا پڑے تو! ‘‘ دل ہی دل میں شکر کیا کہ میں نے کچھ سامان پہلے سے گاڑی میں رکھ دیا ہے۔ مردوں کو کیا علم کہ کس موقع پر کس چیز کی ضرورت پڑ جائے ۔ اسلام آباد ہائی وے کی طویل مسافت طے کر کے،  google کو آن کر کے ہم نے بارہ کہو دیہی مرکز صحت کی راہ لی۔ بالکل آخر پر جا کر ایک موڑ مس کر دیا اور آگے نکل گئے۔ کسی سے پوچھا کہ کورونا کی ویکسین کہاں سے لگتی ہے تو اس نے لاعلمی سے کندھے اچکائے… google  سے پھر پوچھا تو اس نے کہا کہ آپ کے دائیں طرف، چراغ تلے اندھیرا کی مثال سمجھ میں آ گئی۔

بیٹی نے لاہور سے کال کر کے بتایا تھاکہ عموماً ساتھ جانیوالوں کو بھی ویکسین لگا دیتے ہیں، اسی ’’ اندیشے‘‘ کے پیش نظر میں بھی ذہنی طور پر تیار تھی اور سوچ رکھا کہ اگر ہم دونوں ہی ویکسین لگنے کے بعد، الٹی متلی میں مبتلا ہو گئے تو قریب ہی ایف ٹین سے معظم کو زحمت دے دیں گے۔ گاڑی پارک کر کے دائیں بائیں نظر دوڑائی کہ ویکسی نیشن کے لیے آنے والوں کی وہ طویل قطار کہاں ہے، کسی سے پھر پوچھا کہ کہیں ہم غلط جگہ پر نہ آگئے ہوں ، مگر ہم عین مرکز میں تھے اور بائیں ہاتھ پر اس نے اشارہ کیا کہ راہداری ہے جس سے اندر جانا ہو گا۔ وہاں گئے تو دروازے پر لکھا تھا کہ باہر انتظار کریں ۔ اندر دو افراد پر مشتمل طویل قطار دیکھ کر مایوسی کا پارہ کافی بلند ہو گیا۔ پانچ منٹ کے بعد اس نے اندر بلا لیا اور اگلے دو منٹ میں صاحب کو ویکسین لگ چکی تھی۔

’’ ان کو بھی ویکسین لگ سکتی ہے، سنا ہے کہ ساتھ آنیوالوں کو لگا دی جاتی ہے تا کہ اتنی دور کا چکر بچ جائے؟ ‘‘ صاحب نے ویکسین لگانیوالے سے پوچھا۔ ’’ انھوں نے رجسٹریشن کروا رکھی ہے کیا؟ ‘‘ اس نے سوال کیا، جواب نفی میں ملا۔ ’’ رجسٹریشن ہوئی ہو تو اس کا امکان ہے مگر بغیر رجسٹریشن کے ایسا نہیں ہوتا۔ باقی رہی بات دوری کی تو آپ نے اتنی دور کا سفر کیوں کیا ہے، آپ سے پانچ چھ کلو میٹر کے فاصلے پر سہالہ والا مرکز ہے، آپ وہاں چلے جاتے!! ‘‘ اس نے بتایا کہ جب آپ کو ویکسین لگوانے کا پیغام ملے تو آپ اپنے قریبی مرکز پر جائیں۔ سارا نظام چونکہ مربوط ہے اس لیے آپ کہیں بھی جا سکتے ہیں، بلکہ اب تین ہفتے کے بعد دوسری ویکسین کے لیے بھی آپ وہیں جا سکتے ہیں ۔ آپ کے شناختی کارڈ سے منسلک سسٹم میں سارا ڈیٹا موجود ہے۔

اس نے کہا کہ صاحب باہر دس پندرہ منٹ تک بیٹھیں اور پھر چلے جائیں ۔ ہم باہر راہداری میں بیٹھ گئے، صاحب کے بعد آنیوالے دو ایک لوگ ویکسین لگواتے ہی باہر نکل گئے ۔ میں کن انکھیوں سے صاحب میں کسی ممکنہ تبدیلی کا واقعہ ہونا دیکھ رہی تھی اور صاحب ان لوگوں کو، جو کہ دس منٹ چھوڑ پانچ منٹ کے لیے بھی نہیں رک رہے تھے۔چار منٹ گزرے ہوں گے کہ وہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور میں ان کے تعاقب میں۔ نہ کوئی الٹی، نہ متلی نہ چکر۔ نہ کتابیں پڑھنے کا وقت اور نہ چپس اور مونگ پھلیاں ٹھونگنے کا۔ واپسی پر وہ خود گاڑی بھی چلا کر لائے اور میں اس دن سے موقع دیکھ رہی ہوں کہ جو پکنک والا سامان میںنے گاڑی میں رکھا تھا اسے کس صبح کو موقع مناسب دیکھ کر واپس نکالنا ہے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔